موسیقی سے وابستہ تیس سالہ ریحان نیازی ان دنوں میانوالی کے فن کاروں کو پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے کے خلاف احتجاج منظم کرنے میں مصروف ہیں۔
رواں برس اپریل کے اواخر میں میانوالی پولیس کی مدعیت میں دو مقامی گلوکاروں پر ان کے گانوں کو متنازع قرار دے کر یکے بعد دیگرے دو ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔ پولیس کا مؤقف ہے چونکہ ان گانوں میں شراب اور دیگر منشیات کا ذکر ہے اس لیے یہ گانے اور ان کی شاعری معاشرے میں منشیات کو فروغ دے رہے ہیں۔
عیدالفطر کے دن ان میں سے ایک فوک گلوکار ریاض ماہی کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن کی بعد ازاں ضمانت ہو گئی، جب کہ دوسری ایف آئی آر میں نامزد گلوکار نعمت نیازی کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آئی۔
سماجی شخصیت رمضان خان کا کہنا ہے کہ جس طرح پچھلے چند مہینوں میں سوشل میڈیا ٹرولز نے غیرت کے تصور کو ڈھال بنا کر مقامی یونیورسٹی کے خلاف مہم چلائی، اسی طرح اب منشیات کلچر کی روک تھام کا نعرہ لگا کر شعرا اور گلوکاروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔
"ایسا لگتا ہے کہ میانوالی میں طالبانی سوچ سرایت کرتی جا رہی ہے اور دکھ تو یہ ہے کہ ریاست بھی ایسی سوچ کی آلہ کار بن گئی ہے۔ بجائے اس کے کہ منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جاتا، الٹا فن کاروں کو دھر لیا گیا ہے۔''
ریحان نیازی کا یہ مؤقف ہے کہ اس طرح کی شاعری عطا اللہ عیسیٰ خیلوی، شفا اللہ روکھڑی سمیت میانوالی کے نامور فوک گلوکاروں نے گائی ہے لیکن انہیں آج تک پولیس کی طرف سے اس نوعیت کی ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ اب تو سوشل میڈیا پر دس سال پرانے گانوں پر بھی کارروائی کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔
''یہ رحجان انتہائی خطرناک اور بنیاد پرستانہ سوچ کا عکاس ہے۔آج ان کی تو کل ہماری باری ہے اس لیے ہمیں اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی۔''
ریاض ماہی اور نعمت نیازی پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 292 اور 294 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
ان گلوکاروں کے وکیل ملک سمیع اللہ کے مطابق "سیکشن 292 اور 294 کی سزا زیادہ سے زیادہ تین مہینے قید یا جرمانہ ہے اور یہ دونوں قابل ضمانت جرم ہیں۔ سیکشن 292 فحش مواد کی تشہیر سے متعلق ہے جبکہ سیکشن 294 عوامی مقامات پر فحش موسیقی سے متعلق ہے۔"
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میانوالی کی پچھلے سو سال کی تاریخ میں اس طرح کی ایف آئی آر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
فوک گلوکار ریاض ماہی نے اپنے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر سے متعلق لوک سجاگ کو بتایا کہ مقدمہ درج کر کے ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔
''جس گانے پر میرے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا وہ عوامی مقام پر گایا ہی نہیں گیا اور نہ ہی اس کو باقاعدہ ریلیز کیا گیا۔ یہ ایک نجی محفل میں گایا گیا جہاں موجود ایک دوست نے موبائل کے ذریعے گانے کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی۔ اسی کی بنیاد پر میرے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کر لیا۔''
میانوالی کے نامور شاعر، کئی کتابوں کے مصنف اور معروف فوک گانوں کے خالق مظہر نیازی کا کہنا ہے کہ گلوکاروں کے بعد شعرا کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک معمولی سی بات کو بڑھاوا دیا گیا اور بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ آج ایک غریب گلوکار کو دھر لیا گیا ہے تو کل شاعروں کی باری ہوگی۔"
ان مقدمات پر سنجیدہ حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ گورنمنٹ کالج میانوالی کے پروفیسر ملک حیات اللہ کہتے ہیں کہ اگر پولیس اس طرح سوشل میڈیا پوسٹوں پر مقدمات درج کرنا شروع کر دے گی تو یہ فنون ِ لطیفہ پر میانوالی میں زمین تنگ کر دینے کے مترادف ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں
یونیورسٹی آف میانوالی: "مجھے فکر ہے کہ کوئی میری بیٹی کی تصویر سوشل میڈیا پر لگا کر تماشا نہ بنا دے"
"اردو کے جتنے بھی معروف شعرا ہیں، ان سب کی شاعری جام و سبو، شراب و مے خانے کے استعاروں سے پُر ہے، تو کیا میر، غالب، داغ اور ذوق پر بھی بعد از مرگ مقدمے درجے کئے جائیں؟"
ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسے گانوں کو گانا جرم ہے جن میں شراب کا ذکر ہو تو نصرت فتح علی و عزیز میاں قوال پر بھی مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔
تاہم ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر میانوالی مطیع اللہ خان پولیس کی اس کارروائی سے مکمل مطمئن ہیں۔
لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او نے بتایا کہ میانوالی پولیس کے اس اقدام کی پنجاب بھر میں تعریف کی گئی ہے۔
''اگر ہم کارروائی نہ کرتے تو یہی لوگ کہتے کہ نشاندہی کے باوجود پولیس کارروائی نہیں کر رہی۔ ہم ہر ایسے گلوکار اور شاعر کے خلاف کارروائی کریں گے جو منشیات کی ترغیب دے گا کیونکہ ضلع کو تمام جرائم سے پاک کرنا ہمارا مشن ہے۔"
تاریخ اشاعت 4 مئی 2023