تیس سالہ عبدالرئوف کے دو کمسن بچے پچھلے چند مہینوں میں ملیریا کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئے ہیں۔ شدید صدمے اور مایوسی کے عالم میں ان کا کچھ بھی کرنے کو دل نہیں کرتا لیکن وہ اپنے گھرانے کا پیٹ پالنے کے لیے روزانہ جیسے تیسے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ سیلاب سے تباہ حال کچے گھر میں چھ افراد پر مشتمل اس کنبے کا دارومدار عبدالرؤف کی دیہاڑی پر ہے جو انہیں کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں ملتی۔
عبدالرؤف کا تعلق ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے گاؤں بکھر جمالی سے ہے جسے پچھلے سال آنے والے سیلاب کے بعد کئی مہینوں سے ملیریا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گزشتہ تین ماہ میں اس گاؤں کے 38 افراد ملیریا میں مبتلا رہ کر وفات پا چکے ہیں جن میں ان کی سات سالہ بیٹی گلابی اور دو سالہ بیٹا مقا علی بھی شامل ہے۔
اسی گاؤں کے رہنے والے چھبیس سالہ مشکل کشا جمالی کی اہلیہ مرجانی اور 2 نوعمر بچے شہر علی اور جناب علی بھی ملیریا کی وبا میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ مشکل کشا بھی عبدالرؤف کی طرح دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ جب بیوی بچے بیمار ہوئے تو ان کے پاس 13 کلومیٹر دور واہی پاندھی میں بنیادی مرکز صحت تک پہنچنے کے لیے گاڑی کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ سیلابی پانی کے باعث راستے خراب ہونے کے باعث وہاں تک رسائی بھی آسان نہ تھی چنانچہ انہیں علاج کرانے میں دیر ہو گئی اور یوں انہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا۔
تحصیل جوہی ڈھائی لاکھ سے زیادہ آبادی پرمشتمل ہے جہاں ان دنوں یہاں ملیریا نے وبائی صورت اختیار کر رکھی ہے اور بہت سے دیہات میں سیکڑوں لوگ اس بیماری کا نشانہ بن رہے ہیں۔
تحصیل ہسپتال جوہی کے اہم ایس ڈاکٹر زبیر احمد پنہور تصدیق کرتے ہیں کہ سیلابی پانی میں مچھر پیدا ہونے سے جنم لینے والی ملیریا کی وبا تین ماہ میں سو سے زیادہ جانیں لے چکی ہے۔
''بہت سے علاقوں میں ملیریا سے متاثرہ بیشتر لوگوں نے علاج کے لیے عطائیوں سے رجوع کیا جنہوں نے انہیں گلوکوز کی بوتلیں لگا دیں جو کہ اموات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔''
ایسی بیشتر اموات مرزا مستوئی، راجو دیرو، صاحب خان لغاری، غلام محمد لاشاری، شفیع محمد لونڈ، مینھوں چانڈیو، واہی پاندھی، راجو گنڈو، چڈی رستمانی، ٹوری اور دیگر دیہات میں ہوئی ہیں۔
صوبائی محکمہ صحت نے تحصیل جوہی میں 14 مراکز صحت قائم کر رکھے ہیں جن میں جوھی ہیلتھ سنٹر، ساوڑو ھیلتھ سنٹر، واھی پاندھی ھیلتھ سنٹر، ٹنڈو رحیم خان، چھنی، پٹ گل محمد، حاجی خان، مراد جمالی، فضل جمالی، پریو جمالی، سجاول الکانی، کمال خان لونڈ اور دیگر شامل ہیں۔ تاہم جوھی تعلقہ ہسپتال سمیت کہیں بھی ملیریا کنٹرول پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے تحصیل بھر میں یہ وبا تیزی سے بچوں بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
چند سال پہلے ملیریا سے بچاؤ کے لیے انتظامیہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر سپرے کیا جاتا تھا لیکن اب جوہی جیسے علاقوں میں بھی سپرے کا کوئی انتظام نہیں ہے جہاں یہ بیماری تباہی پھیلا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'سیلاب کے پانی میں ڈوبے سندھ کے باشندے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں'
دادو کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر شاہد شیخ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال آنے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب کے بعد کھڑے پانی کے باعث ضلعے میں ملیریا کی وبا پھیل گئی تھی۔ اس بیماری نے تحصیل جوہی کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ سیلاب کی وجہ سے لوگوں کو طبی مراکز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا تھا جس کے نتیجے میں وبا بے قابو ہو گئی۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے جوہی کے مختلف علاقوں میں انسداد ملیریا کی مہم شروع کی گئی ہے اور جن دیہات میں وبا کی شدت زیادہ ہے وہاں متاثرہ لوگوں کا علاج کیا گیا ہے اور انہیں دوائیں دی گئی ہیں جس کے بعد بیماری کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے دفتر میں قائم ملیریا سیل کے عملے سے جب اس بیماری کے پھیلاؤ اور اس کی روک تھام کے اقدامات کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کوئی بھی معلومات دینے سے گریز کیا۔
عملے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں اور اگر ملیریا پھیل رہا ہے تو یہ 'مالک کی مرضی' ہے۔
تاریخ اشاعت 3 اپریل 2023