جھریوں بھرے چہرے اور کمزور بدن والے 38 سالہ محمد مشتاق سالہا سال بیمار رہنے کی وجہ سے اپنی عمر سے بڑے دکھائی دیتے تھے۔ لگ بھگ 15 سال پہلے وہ ایک صحت مند نوجوان تھے۔ اُس وقت وہ روزانہ شام کو فٹ بال کھیلتے اور اپنے علاقے میں ایک اعلیٰ پائے کے کھلاڑی مانے جاتے۔
ان کا لمبا قد، چوڑی پیشانی، اونچی ناک اور بڑی بڑی آنکھیں انہیں اوسط دیہاتی مردوں سے ممتاز کرتیں۔ ان کا لباس بھی گاؤں کے دوسرے لوگوں سے مختلف ہوتا کیونکہ وہ اکثر پتلون اور شرٹ میں ملبوس رہتے۔
جنوبی پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں واقع چک 12 اے ایچ کے رہنے والے محمد مشتاق کے والد نے دو شادیاں کی تھیں اور وہ 13 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ انہوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی لیکن وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے۔
اس کے باوجود، ان کے بڑے بھائی رانا ذوالفقار کے مطابق، تقریباً 23 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی۔ اگلے چند سالوں میں ان کے ہاں ایک بیٹی اور دو بیٹے پیدا ہوئے جن سب کی عمریں اس وقت 13 سال سے کم ہیں۔
تاہم شادی کے کچھ سال بعد محمد مشتاق کا رویہ بہت جارحانہ ہو گیا۔ وہ اکثر اپنی بیوی کو مارتے پیٹتے اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی لڑائی جھگڑا کرتے۔
ایک دفعہ رانا ذوالفقار کو کسی کام سے کہیں دور جانا پڑا تو جانے سے پہلے انہوں نے اپنے مویشیوں کو چارہ ڈالنے اور ان کا گوبر صاف کرنے کی ذمہ داری محمد مشتاق کو سونپ دی۔ تین دن بعد جب وہ واپس آئے تو ان کے مویشی ادھ مری حالت میں گرے پڑے تھے اور ان کا گوبر ان کے اردگرد بکھرا ہوا تھا۔ لیکن جب انہوں نے غصے سے محمد مشتاق کو ڈانٹا تو ان کے ردِعمل سے انہیں لگا کہ ان کے بھائی کو کوئی دماغی مسئلہ درپیش ہے۔
مقتول محمد مشتاق
رانا ذوالفقار نے اس واقعے کے بارے میں اپنے سوتیلے بھائی کو بتایا جو پاکستان ائیر فورس کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ بعدازاں ان دونوں نے باہمی مشورے سے فیصلہ کیا کہ محمد مشتاق کو ایئر فورس سے وابستہ ماہرینِ نفسیات کو دکھایا جائے۔
ان ماہرین نے اگلے چند ماہ اُن کا تفصیلی معائنہ کیا اور بالآخر ان کے اہلِ خانہ کو بتایا کہ وہ شیزوفرینیا (schizophrenia) نامی ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اُن کی بیماری آخری مرحلے میں پہنچ گئی ہے اور تقریباً لاعلاج ہو چکی ہے۔
اس مرض میں مبتلا لوگ مختلف وہموں میں گھرے رہتے ہیں، انہیں جاگتے ہوئے بھی ڈراؤنے خواب آتے ہیں، وہ ٹھیک طریقے سے بات نہیں کر پاتے، ان کی یادداشت اور خیالات گڈمڈ ہو جاتے ہیں اور وہ شدید مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کیفیات پر قابو میں رکھنے کے لیے انہیں مسلسل دوائیاں کھانا پڑتی ہیں۔
اس تشخیص کے بعد محمد مشتاق کی زندگی بھی ادویات کی محتاج ہو گئی جن کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ان کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے گرمیوں میں وہ دن میں کئی بار نہاتے۔ اسی زمانے میں انہیں سگریٹ پینے کی عادت بھی پڑ گئی اور وہ گم سم رہنے لگے۔
اکثر وہ کسی کو بتائے بغیر گھر سے نکل جاتے اور قریبی دیہات اور قصبوں میں پھرتے رہتے۔ جب انہیں گھر واپس آنا ہوتا تو وہ لوگوں کو اپنے گاؤں کا نام بتاتے اور کوئی نہ کوئی واپسی کے سفر میں ان کی مدد کر دیتا۔
تاہم ان کی بیماری سے تنگ آ کر چار سال پہلے ان کی بیوی نے بچوں کو ان کے پاس چھوڑا اور ان سے علیحدگی اختیار کر کے دوسری شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ ساری ساری رات جاگتے رہتے۔
سردیوں میں وہ رات کو اکثر کاغذات جلا کر اپنے ہاتھ سینکتے رہتے جس سے ان کے کمرے کی ایک دیوار پر دھویں کے گہرے نشان پڑ گئے ہیں۔ تاہم رانا ذوالفقار کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ ردی کاغذ جلاتے تھے اور کبھی کتابوں کو آگ میں نہیں جھونکتے تھے۔ ان کے کمرے میں آج بھی ایک شیلف پر متعدد کتابیں پڑی ہوئی ہیں۔
لہو پکارے گا آستیں کا
کچھ عرصہ پہلے چک 12 اے ایچ کو چھوڑ کر محمد مشتاق اپنے بھائی رانا مظفر کے پاس کراچی چلے گئے۔ لیکن فروری 2022 کے آغاز میں وہ کسی کو بتائے بغیر گاؤں واپس چلے آئے۔
کچھ روز وہاں گزارنے کے بعد وہ تقریباً 40 کلومیٹر دور واقع تلمبہ نامی قصبے میں اپنی بہن کے ہاں چلے گئے۔ 12 فروری 2022 کو وہ اپنی بہن کے گھر سے نکلے اور تلمبہ سے شمال مشرق میں میاں چنوں جانے والی سڑک پر چل پڑے۔ تقریباً چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ سڑک کے کنارے سرسبز کھیتوں میں گھری شاہ مقیم نامی مسجد میں پہنچے جو قریبی گاؤں ڈانگراوالا کے رہائشی رمضان شاہد نے اپنی ذاتی زمین پر تعمیر کر رکھی ہے۔
اس روز اس مسجد میں چاند کی گیارہویں تاریخ کی مناسبت سے ایک مذہبی تقریب منعقد کی جا رہی تھی جس کی وجہ سے وہاں کافی لوگ موجود تھے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عصر کی نماز کے بعد ان میں سے کسی نے محمد مشتاق کو مبینہ طور پر کچھ مقدس کاغذات جلاتے دیکھا۔ اس کے بارے میں پتہ چلتے ہی مسجد میں موجود لوگوں نے انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ بعد میں ان کے ہاتھ باندھ کر انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔
کچھ ہی دیر میں اس واقعے کی خبر تلمبہ میں پولیس تک پہنچ گئی چنانچہ مقامی تھانے کے انچارج پولیس آفیسر تین دیگر اہلکاروں کے ساتھ فوراً مسجد میں پہنچ گئے۔ ابھی وہ اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ وہ محمد مشتاق کو کمرے سے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں کہ مسجد سے ایک کلومیٹر دور واقع گاؤں جنگل ڈیرے والا کے سینکڑوں افراد نے ان کا گھیراؤ کر لیا۔
مغرب کی نماز سے کچھ دیر پہلے اس مجمعے نے مذہبی نعرہ بازی شروع کر دی اور پولیس والوں کو مارپیٹ کر محمد مشتاق کو ان کی حراست سے چھین لیا۔ اس کے بعد جس کے ہاتھ جو چیز لگی وہ اس سے انہیں مارنے لگا۔ کچھ لوگوں نے انہیں رسیوں سے باندھ دیا اور گھسیٹ کر مسجد سے باہر لے آئے۔ اس دوران ہجوم مسلسل ان پر ڈنڈے، اینٹیں اور کلہاڑیاں چلاتا رہا جبکہ کئی لوگ اپنے موبائل فونوں کے ذریعے اس منظر کو ریکارڈ بھی کرتے رہے۔
جب محمد مشتاق اس تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گئے تو ان کی لاش کو مسجد کے بالکل عقب میں ایک درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دیا گیا۔ اسے نیچے اتارنے کے لیے پولیس والوں کو مقامی لوگوں سے تقریباً دو گھنٹے لمبے مذاکرات کرنا پڑے۔
تاہم محمد مشتاق کی شناخت کرنے میں مزید کئی گھنٹے لگ گئے کیونکہ ان کے پاس نہ تو موبائل فون تھا اور نہ ہی کوئی شناختی دستاویزات۔ ان کے بھائی رانا ذوالفقار کو ان کی موت کی خبر اگلی صبح تقریباً پانچ بجے تلمبہ تھانے میں بلا کر دی گئی۔
جنوں میں جتنی بھی گزری۔۔۔
چک12 اے ایچ میں 16 فروری 2022 کی دوپہر کو رانا ذوالفقار اپنے گھر کے باہر بیس کے قریب ایسے لوگوں کے درمیان بیٹھے ہیں جو ان سے ان کے بھائی کی موت پر تعزیت کر رہے ہیں۔
اس گاؤں کے زیادہ تر باشندے راجپوت برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو 1947 میں پاکستان بننے کے بعد انڈیا سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی۔ محمد مشتاق کا خاندان بھی اسی برادری کا حصہ ہے۔
گاؤں میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت بریلوی مسلک سے تعلق رکھتی ہے جس کے ماننے والوں میں توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت جیسے موضوعات پر شدید مذہبی جذبات پائے جاتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں اس فرقے سے تعلق رکھنے والی تنظیم، تحریکِ لبیک پاکستان، نے انہی موضوعات کے حوالے سے وسطی پنجاب اور اسلام آباد-راولپنڈی میں کئی متشدد مظاہرے بھی کیے ہیں جن میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ کچھ پولیس والوں کو بھی ہلاک کیا گیا ہے۔ دسمبر 2021 میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں توہینِ مذہب کے الزام پر ایک سری لنکن مینیجر کو قتل کرنے والے ہجوم میں شامل کچھ نوجونواں کا تعلق بھی اس تنظیم سے تھا۔
لیکن 12 اے ایچ میں کوئی بھی محمد مشتاق کو توہینِ مذہب کا مرتکب نہیں سمجھتا۔ مقامی لوگ متفق ہیں کہ انہیں بلاوجہ اور ان کی ذہنی حالت کو پیشِ نظر رکھے بغیر "بے دردی سے قتل کیا گیا"۔ اس لیے رانا ذوالفقار کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وہ نہ صرف روایتی تعزیتی جملے ادا کرتے ہیں بلکہ ان کے بھائی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی شدید مذمت بھی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری منیجر کی ہلاکت: کس نے کیا دیکھا، کس نے کیا کِیا؟
یہی وجہ ہے کہ محمد مشتاق کے قتل کے ایک دن بعد جب ان کے گاؤں میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تو اس میں نہ صرف مقامی باشندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی بلکہ قریبی دیہات کے بہت سے لوگ بھی اس میں شامل ہوئے۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری بھی موقع پر موجود رہی تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
رانا ذوالفقار اپنے بھائی کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے خاصے پرسکون نظرآتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ ان کے قتل کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "ایسا ظلم تو کوئی جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کر سکتا جیسا میرے بھائی کے ساتھ کیا گیا"۔
وہ اکثر سوچتے ہیں کہ آخر ان کے بھائی پر "تشدد کرتے ہوئے کسی نے اس سے اس کے گھربار کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا اور اس کی ذہنی حالت کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی"۔ اپنے آنسو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کاش "کوئی اس سے یہ پوچھ لیتا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اس مسجد میں کیسے پہنچا ہے"۔
اس رپورٹ کی تیاری میں خانیوال سے محمد عامر حسینی نے بھی حصہ لیا ہے۔
تاریخ اشاعت 21 فروری 2022