طالبان کے عہد میں افغان صحافت: مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں۔

postImg

کلیم اللہ

postImg

طالبان کے عہد میں افغان صحافت: مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں۔

کلیم اللہ

ایمل خان اپنی بیوی کا شناختی کارڈ بنوانے کے لئے اس سال 15 اگست کو کابل کے ایک سرکاری دفتر میں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے جب وہاں یہ خبر پھیل گئی کہ طالبان جنگجو شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔ 

ان کے لیے یہ بات ماننا بہت مشکل تھا کیونکہ حکومتی ذرائع اور سیاسی تجزیہ کاروں کا اصرار تھا کہ 11 ستمبر 2021 کو امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلا مکمل ہونے سے پہلے طالبان کابل میں نہیں آ سکتے۔ لیکن جب چار ہفتے پہلے ہی ایسا ہو گیا تو شہر میں ہر طرف افراتفری پھیل گئی اور لوگ اپنے گھروں کو بھاگنے لگے۔

ایمل خان نے بھی جلدی جلدی ایک ٹیکسی ڈھونڈ کر اپنی بیوی کو گھر بھیج دیا تا کہ وہ خود یک سُوئی کے ساتھ حالات سے آگاہی حاصل کر سکیں اور ان کے بارے میں اس غیر ملکی نشریاتی ادارے کو خبریں ارسال کر سکیں جہاں انہوں نے 2016 میں اس وقت کام شروع کیا تھا جب ان کی عمر صرف 24 سال تھی۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ابھی وہ گیارہویں جماعت میں پڑھ رہے تھے کہ وہ مشرقی افغانستان میں واقع اپنے آبائی صوبے لوگر کے مقامی اخبارات، جرائد اور ریڈیو میں کام کرنے لگے۔ اپنے صحافتی تجربے کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ طالبان کی آمد سے پہلے کابل میں موجود صدر اشرف غنی کی حکومت کے دور میں بھی صحافت کے لیے حالات کچھ زیادہ سازگار نہیں تھے لیکن یہ حکومت "کافی حد تک اپنے اداروں اور پالیسیوں پر تنقید برداشت کر لیتی تھی"۔ 

لیکن، ان کے بقول، اب حالات یکسر مختلف ہیں کیونکہ "طالبان نے ہر ادارے کا سربراہ کسی عالمِ دین کو تعینات کر رکھا ہے جسے مذہبی تعلیمات اور گوریلا جنگ میں تو مہارت حاصل ہے لیکن ملکی نظم و نسق چلانے کا کوئی تجربہ نہیں"۔ اس صورتِ حال میں وہ کہتے ہیں کہ "انتظامیہ کی پالیسیوں پر مثبت اور تعمیری تنقید کرنا بھی اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہے کیونکہ طالبان اس تنقید کو گناہ سمجھتے ہیں"۔ 

ایمل خان کے مطابق طالبان کے ناقد صحافیوں کو بلاواسطہ یا بالواسطہ یہ پیغام مِل جاتا ہے کہ "حاکمِ وقت کے خلاف بات کر کے وہ شرعی احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے"۔ 

جب اس صورتِ حال میں ان کے لیے صحافت کرنا مشکل ہو گیا تو انہوں نے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

اس وقت طالبان کو اقتدار سنبھالے ایک مہینہ ہو چکا تھا اور پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے) کے سوا تمام ائر لائنیں افغانستان کے لیے اپنی پروازیں بند کر چکی تھیں۔ چنانچہ اپنے کچھ صحافی دوستوں کے ہمراہ وہ پاکستان آ گئے حالانکہ وہ کہتے ہیں کہ دوسری ائر لائنوں کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی آئی اے نے کابل سے اسلام آباد کا کرایہ 250 ڈالر سے بڑھا کر 1500 ڈالر کر دیا تھا۔

<p> افغان صحافی سیال یوسفی </p>

 افغان صحافی سیال یوسفی

اسلام آباد میں کچھ دن قیام کے بعد وہ جنوبی یورپ کے ایک ملک چلے گئے (لیکن انہیں اپنی سلامتی کے بارے میں ابھی بھی اتنی تشویش ہے کہ اس رپورٹ کے لیے انہوں نے اس ملک کا نام اور اپنی اصل شناخت ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا)۔ تاہم یورپ میں قیام کے دوران بھی وہ اپنی صحافتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور افغانستان میں موجود اپنے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر باقاعدگی سے خبریں مرتب اور نشر کرتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ درحقیقت افغانستان چھوڑنے کے بعد وہ پہلے سے زیادہ آزادی اور مؤثر طریقہ سے اپنا کام کر رہے ہیں کیونکہ، ان کے بقول، ان کے اپنے ملک میں سوشل میڈیا پر کی جانے والی ایک پوسٹ بھی "آپ کی دردناک موت کا باعث بن سکتی ہے"۔ 

ان کے اس خدشے کی توثیق افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ میں مقامی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے 30 سالہ نوید اعظمی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے ہوتی ہے جنہوں نے کچھ ہفتے قبل ایک فیس بُک پوسٹ میں لکھا تھا کہ "لوگوں کے صدقات خیرات پر گزر بسر کرنے والے طالبان (تعلیمی اداروں کے) اساتذہ کی بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کو کس طرح ممکن بنا سکتے ہیں"۔

اگرچہ طالبان کے ممکنہ ردِ عمل کے خوف سے نوید اعظمی نے یہ پوسٹ فوراً ہٹا دی تھی لیکن اس کے باوجود انہیں 25 نومبر کو گرفتار کر لیا گیا۔ تین دن بعد ان کی تشدد زدہ لاش ایک دریا کے کنارے پائی گئی۔

جان بچائیں یا کام کریں؟

سیال یوسفی پچھلے چار سال سے افغانستان کے نجی ٹیلی وژن چینل شمشاد نیوز کے ساتھ رپورٹر کے طور پر منسلک ہیں اور اب بھی کابل میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ لیکن، ان کے مطابق، ان کی پیشہ وارانہ مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ "ایک طرف میری جان پر بنی  ہوئی ہے کیونکہ میں ماضی میں افغانستان میں متعین کئی یورپی اور امریکی فوجی اہلکاروں کے انٹرویو کر چکا ہوں (جس کی وجہ سے طالبان میرے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں) اور دوسری طرف میری تنخواہ 24 ہزار افغانی سے 12 ہزار افغانی کر دی گئی ہے جس میں بڑی مشکل سے گزارا ہوتا ہے"۔

اسی دوران طالبان کی وزارتِ ثقافت و نشریات نے صحافیوں اور صحافتی اداروں کے لئے ایک عمومی ضابطہِ اخلاق بھی جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیلی وژن میں کام کرنے والی تمام صحافی خواتین لازمی طور پر اسلامی حجاب پہنیں، کوئی ٹیلیوژن چینل ایسا مواد نشر نہ کرے جو اسلامی شریعت کے اصولوں کے خلاف ہو اور مردوں کے ایسے ویڈیو نشر نہ کیے جائیں جن میں ان کے جسم کے ایسے اعضا دکھائی دے رہے ہوں جو عموماً ڈھکے ہوئے ہونے چاہئیں۔

سیال یوسفی کہتے ہیں کہ طالبان حکام اس ضابطے کی تعمیل یقینی بنانے کے لیے نشریاتی ادراوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح اقتدار سنبھالنے کے کچھ دن بعد ہی طالبان نے کابل میں واقع شمشاد نیوز کے دفتر کا دورہ کیا اور اس کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہاں کام کرنے والی خواتین جب کیمرے کے سامنے آئیں تو ان کا چہرہ اور جسم اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل طور پر ڈھکا ہوا ہو۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'ان افغان مہاجرین کو افغانستان واپس نہ بھیجا جائے جن کی زندگیوں کو خطرہ ہے'۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ افغان صحافتی اداروں کو ملنے والی غیر ملکی امداد اور اشتہارات بھی بند ہوچکے ہیں جس کے باعث بہت سے ادارے ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس بات کی تائید حال ہی میں فرانس کی ایک غیر سرکاری صحافتی تنظیم، رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈر (آر ایس ایف)، کی جانب سے جاری کردہ ایک سروے سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق 15 اگست 2021 سے لے کر آٹھ دسمبر 2021 تک افغانستان میں کام کرنے والے ہر دس صحافتی اداروں میں سے چار سے زائد اپنا کام بند کر چکے تھے۔ سات افغان صوبوں میں صورتِ حال اور بھی خراب ہے کیونکہ وہاں ہر دس صحافتی اداروں میں سے کم از کم چھ بند ہو گئے ہیں۔  

اس صورتِ حال کے نتیجے میں کابل سمیت چھ افغان صوبوں میں تین چوتھائی سے زیادہ مرد صحافی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیھٹے ہیں جبکہ وسطی افغانستان کے صوبے بامیان میں میڈیا میں کام کرنے والے ہر 58 مردوں میں سے 49 کی نوکریاں ختم ہوگئی ہیں۔

صحافی خواتین کے حالات اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ ماہ میں مجموعی طور پر 80 فیصد افغان صحافی خواتین اپنی نوکریوں سے محروم ہو گئی ہیں جبکہ 15 افغان صوبوں میں کام کرنے والی ساری صحافی خواتین ہی بے روزگار ہو چکی ہیں۔ 

یہ خبر شائع نہیں ہو گی

سیال یوسفی طالبان کے اس دعوے کی بھی تردید کرتے ہیں کہ وہ آزادانہ صحافت کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "اگر آپ طالبان کی اجازت کے بغیر کسی واقعے کی رپورٹنگ کریں تو نہ صرف آپ کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ آپ کے کیمرے اور دیگر آلات بھی توڑ دیے جاتے ہیں"۔ ان کے مطابق کابل کے اطلاعاتِ روز نامی اخبار کے دو صحافیوں پر تشدد کی یہی وجہ تھی۔

فارسی زبان میں شائع ہونے والا یہ روزنامہ اپنی آزادانہ ادارتی پالیسی اور منفرد تحقیقاتی خبروں کے حوالے سے پورے کابل میں جانا جاتا ہے۔ اس سال ستمبر میں اس کے رپورٹروں تقی دریابی اور نعمت نقدی کو طالبان نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ کابل میں خواتین کے ایک احتجاجی مظاہرے کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ گرفتاری کے بعد ایک قریبی پولیس سٹیشن میں بجلی کی موٹی تاروں سے ان پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ ان کی کمر اور ٹانگوں کی کھال ادھڑ گئی۔

<p>طالبان کی جانب سے صحافیوں کے لیے جاری کردہ ہدایت نامہ<br></p>

طالبان کی جانب سے صحافیوں کے لیے جاری کردہ ہدایت نامہ

طالبان نے اس سلوک کا جواز یہ پیش کیا کہ تقی دریابی اور نعمت نقدی نے نہ تو مظاہرے کی رپورٹنگ کی اجازت حاصل کی تھی اور نہ ہی اس مظاہرے میں شامل خواتین نے شہر کی انتظامیہ سے اس کی منظوری لی تھی۔ تاہم اس تشدد کی وجہ سے طالبان کو اس قدر تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کے اعلیٰ حکام کو اس واقعے پر معافی مانگنا پڑی اگرچہ اس کے ذمہ دار اہل کاروں کے خلاف ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ 

یہ اس نوعیت کا واحد واقعہ نہیں۔

افغانستان کے ایک خبر رساں ادارے، پژواک افغان نیوز، کے ساتھ گزشتہ سات سالوں سے کام کرنے والے 28 سالہ صحافی شکور کامران کہتے ہیں کہ "تنقیدی خبریں چلانے والے صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر ڈرایا دھمکایا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافتی ادارے گاہے بگاہے اپنے ملازمین کو ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں کہ وہ طالبان کے خلاف خبریں شائع کرنے سے احتراز کریں"۔

انہیں خود بھی اس وقت سنگین نتائج کی دھمکیاں ملنے لگیں جب انہوں نے ایک حالیہ رپورٹ میں لکھا کہ افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا میں ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں سے بھتہ وصولی میں طالبان بھی ملوث ہیں۔ ان دھمکیوں کا سلسلہ تبھی بند ہوا جب وہ کینیڈا کی ایک غیر سرکاری تنظیم کی مدد سے یورپ کے ملک مقدونیہ میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ جس دن وہ پاکستان کے راستے مقدونیہ جانے کے لیے نکلے تھے اسی دن طالبان اہلکار ان کی تلاش میں ان کے گھر پہنچ گئے لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ کچھ دیر پہلے ہی وہ جگہ چھوڑ چکے تھے۔

تاریخ اشاعت 24 دسمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.