بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

postImg

عمر باچا

postImg

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

عمر باچا

گل دراز ضلع شانگلہ کے علاقے بشام کے ایک نواحی گاؤں تانگیر کے رہائشی ہیں۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور اپنے پانچ بیٹوں اور پوتوں، پوتیوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔

مٹی اور پتھروں سے بنا یہ گھر ایک سیلابی نالے کے کنارے پر تعمیر کیا گیا تھا۔ حالیہ بارشوں سے نالے میں سیلابی ریلہ گزرا تو ان کے گھر کو بہا لے گیا۔

گل دراز بتاتے ہیں کہ گھر میں سب لوگ افطار کی تیاری میں مصروف تھے، کوئی نہیں جانتا تھا کہ چند ہی لمحوں میں ان کے گھر سے دو لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

"ہم سب تقریبا ایک ہی کمرے میں موجود تھے، افطار میں ابھی کچھ گھڑیاں باقی تھیں۔ بارش کی وجہ سے نالے میں طغیانی تو تھی لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ تھا کہ پانی یوں بپھر جائے گا۔ میری بیوی اور میرے دو پوتے زخمی ہوئے لیکن میرا چار سالہ پوتا اور ایک پوتی  دیکھتے دیکھتے پانی میں بہہ گئے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ دونوں بچوں کی لاشیں گاؤں تانگیر سے ایک کلومیٹر دور دریائے خان خوڑ سے 18 گھنٹے بعد برآمد ہوئیں۔

خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات میں کوہ ہندو کش کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ ان پہاڑوں کے اندر لوگ باقاعدہ مکان تعمیر کر لیتے ہیں اور اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن ہر سال بارشوں، مٹی کے تودے گرنے، لینڈ سلائیڈنگ اور برساتی نالوں میں طغیانی سے جانی اور مالی نقصان ہو جاتا ہے۔

لوگوں کو بالکل آگاہی نہیں کہ اگر وہ محفوظ مقامات پر گھر بنائیں اور گھر بنانے کے لیے موزوں میٹریل کا استعمال کریں تو وہ ایسے نقصانات سے اپنی جانوں اور مال کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا ماڈل بلڈنگ بائی لاز 2017ء کا سیکشن 4.14 خطرناک عمارتوں سے متعلق ہے۔ اس سیکشن کے تحت اتھارٹی کا مجاز سٹرکچرل انجینئر ایسی رہائشی عمارات کو منہدم کرنے کا اختیار رکھتا ہے ، جو ناقص ہو، یا جس کی تعمیر ناقص میٹیریل سے ہوئی ہو ، عمارت بوسیدگی، خستہ حالی یا قدرتی آفات کی وجہ سے اپنی مضبوطی کھو چکی ہو۔

لیکن ان علاقوں میں نہ تو گھر بناتے ہوئے اور نہ بعد میں ہی عمارتوں  کے معیار کو چیک کیا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا ماڈل بلڈنگ بائی لاز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء محکمہ بلدیات کے زیر انتظام ہے اور کوئی بھی تعمیراتی کام محکمہ بلدیات کے انجینئر کی طرف سے اجازت نامے، این او سی، فٹنس سرٹیفکیٹ، ماسٹر پلان اور بغیر نقشہ  منظور کروائے شروع نہیں کیا جا سکتا۔

مگر اس قانو ن پر شانگلہ سمیت خیبر پختونخوا کے کسی بھی بالائی ضلع میں عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

محکمہ ٹی ایم اے(تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن) ضلعی ہیڈ کوارٹرز الپوری سے حاصل کیے گئے اعداد و شمارکے مطابق 25 نومبر 2021ء سے 26 مارچ 2024ء تک 58 بلڈنگ پلان، نقشے منظور کئے  گئے ہیں۔ ان میں 40 کمرشل تعمیرات اور 18 رہائشی منصوبے  شامل تھے۔ لیکن ان میں سے ایک بھی پہاڑی علاقے کا نقشہ شامل نہیں تھا۔

پرووینشل  ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی، خیبر پختونخوا سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے 18 اپریل تک  صوبے میں مختلف قدرتی آفات جیسا کہ  بارش، لینڈ سلائیڈنگ، برفباری، چھتیں اور دیواریں گرنے کی نتیجے میں 94 لوگ جاں بحق ہوئے جبکہ 138 افراد زخمی ہوئے۔ان میں سوات سب سے زیادہ 13 اموات ہوئیں۔

ان حادثات میں 390 مال مویشی بھی ہلاک ہوئے اور مویشیوں کی ہلاکت میں لوئر چترال 174 مویشیوں کے ساتھ سرفہرست رہا۔

ان چار مہینوں کے دوران قدرتی آفات میں صوبے کے مختلف علاقوں میں تین ہزار سے زائد  گھروں کونقصان پہنچا جن میں صرف لوئر چترال میں ایک ہزار  مکان تباہ ہوئے جبکہ جبکہ دو سو سے زائد سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچا۔

انور شہزاد پی ڈی ایم اے خیبر پختونخوا کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے  بتایا کہ یہ تمام اموات اور نقصان کی بنیادی وجوہ میں بارشیں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب شامل ہیں۔ البتہ بالائی پہاڑی علاقوں میں گھروں پر تودے گرنے سے زیادہ نقصان ہوا ۔

رحمان الدین کنڈاؤ پاگوڑئی شانگلہ کے رہائشی ہیں وہ  بتاتے ہیں، ان کے محلے میں آٹھ گھر، جن میں ان کا اپنا گھر بھی شامل ہے، لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ چکے ہیں۔

جس کے بعد انہوں نے اپنے گھر خالی کر دیے اور ڈپٹی کمشنر شانگلہ کو 16 اپریل کو تحریری درخواست بھی دی کہ وہ ممکنہ لینڈ سلائیڈنگ کا سد باب کریں تاکہ ان کے گھروں کو بچایا جا سکے۔

"ہم نے چار سال پہلے مقامی مستری سے گھر بنوایا تھا، ہمیں نہیں معلوم کہ کیسے اور کہاں سے نقشہ وغیرہ پاس ہوتا ہے۔البتہ یہ  بات اب معلوم ہوئی ہے کہ چکنی مٹی والے پہاڑ کے قریب گھر بنانا خطرناک تھا کیونکہ یہ کسی بھی وقت ہمارے گھروں کے اوپر گر سکتا ہے۔اگر یہ بات پہلے معلوم ہوتی تو ہم کبھی بھی یہاں اپنا گھر نہ بنواتے۔"

باسی الپوری، شانگلہ کے عمر دین  کوئلے کی کان میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا گھر بھی لینڈ سلائیڈنگ سے زمین بوس ہوچکا ہے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

عمر دین نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے گھر پر مٹی اور پتھروں کا تودہ گر گیا جس سے تین کمروں پر مشتمل گھر سامان سمیت زمین بوس ہو گیا۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ حادثے کے اگلے روز رشتہ داروں اور دوستوں نے ملبے سے گھر کی بچی کھچی کارآمد چیزیں نکالنے میں مدد کی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شانگلہ میں لینڈ سلائیڈنگ کے متاثرین اس مسئلے کا مستقل حل چاہتے ہیں

"شانگلہ میں تقریبا سب گھر ہی ایسے بنے ہوئے ہیں اور ہم قدرت کی مرضی سمجھ کر ایسے حادثوں پر صبر کر لیتے ہیں۔لیکن اب میں سوچتا ہوں اگر کسی ہموار جگہ پر گھر بنا ہوتا تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔"

ندیم اللہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز الپوری تحصیل کے تحصیل میونسپل آفیسر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ شانگلہ میں کوئی بھی شخص اپنی مرضی اور خواہش سے ان کے پاس بلڈنگ کا نقشہ اپرو کرنے  کے لیے نہیں آتا بلکہ ٹی ایم اے اُن کو عدالت کے ذریعہ قانونی نوٹس بھیجتی ہے۔

کچھ لوگ عدالتی دباؤ میں آکر پروسیجر کے لیے اپلائی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2021ء سے اب تک صرف 58 نقشے منظور کیے گئے ہیں۔

"ہمارے پاس وسائل اور سٹاف اتنا نہیں ہے کہ دیہی علاقوں میں جاکر  پتہ لگائیں کہ کوئی تعیراتی کام کر رہا ہے؟"

تحصیل الپوری کے چیئر مین وقار احمد خان بتاتے ہیں،  2010ء میں ان کے گاؤں کوز کانا میں 17 مکانات لینڈ سلائیڈنگ کے باعث  500 میٹر نیچے کھسک آئے۔ اُس واقعے میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

"بنیادی مسئلہ بلڈنگ پلان پالیسی کا ہے کیونکہ حکومت نے پہاڑی اور میدانی علاقوں، شہروں  کے لیے ایک جیسی پالیسی بنائی ہے۔حالانکہ  دیگر ممالک، حتٰی کہ بھارت میں بھی پہاڑی علاقوں کے لیے الگ بلڈنگ پلان پالیسی موجود ہے۔"

وہ بتاتے ہیں کہ حکومت لوگوں کو مفت نقشے اور معمولی سی فیس کے عوض انجینئرز کی نگرانی میں مکان تعمیر کرنے کی سہولت دیتی ہے، جو نہ صرف اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ مکان کے لیے جگہ محفوظ ہے یا نہیں بلکہ میٹیریل کے حوالے سے بھی رہنمائی دیتے ہیں۔لیکن لوگوں میں آگاہی نہیں ہے۔

تاریخ اشاعت 22 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.