گلگت کے علاقے جوٹیال میں ایک چراگاہ اور اس کے قریب واقع پانی کے نالے کی ملکیت پر دو گروہوں میں 14 مارچ 2022 کو جھگڑا ہوگیا جس میں ہونے والی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے۔ اس کے چند روز بعد مقامی علاقے کنوداس کی نگر کالونی میں دو گروہوں کے درمیان زمین کے تنازعے نے پرتشدد صورت اختیار کر لی جس کے نتیجے میں ضلعی انتظامیہ نے متنازع زمین کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
فروری 2022 میں بھی گلگت کے کئی علاقوں میں زمین کی ملکیت پر لڑائی جھگڑوں کے واقعات پیش آئے جن میں شامل کچھ لوگوں نے بعد ازاں متعدد احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ضلعی انتظامیہ زرعی اراضی اور چراگاہوں کی حد بندی سے متعلق تنازعات کا فوری طور پر فیصلہ کرے اور رہائشی زمین کی ملکیت میں تبدیلی، اس کی الاٹمنٹ اور اس پر قبضے سے پیدا ہونے والے مسائل کا پائیدار حل نکالے کیونکہ ان کی وجہ سے پرتشدد واقعات اور جرائم جنم لے رہے ہیں۔
ایسا ہی ایک مظاہرہ 4 فروری کو گلگت شہر سے 20 کلومیٹر مغرب میں واقع بارگو پائین نامی علاقے کے لوگوں نے کیا۔ انہوں نے گلگت اور غذر کو جوڑنے والی سڑک پر دھرنا دیا اور اس پر چلنے والی ٹریفک کو کئی گھنٹوں تک معطل کیے رکھا۔ یہ مظاہرین اسسٹنٹ کمشنر سے مطالبہ کر رہے تھے کہ مقامی زرعی زمین اور پہاڑوں کی ازسرِنو حد بندی کی جائے۔ وہ خاص طور پر ہرالی نامی پہاڑ کی ملکیت کا دعویٰ کر رہے تھے جو، ان کے مطابق، طویل عرصہ ان کے مویشیوں کی چراگاہ رہا ہے۔ لیکن ان کا الزام تھا کہ 2001 میں ضلعی انتظامیہ نے اس پہاڑ کے نواح میں سکارکوئی کے نام سے ایک نیا موضع قائم کیا جس سے مقامی زمینوں کی حد بندی اس قدر متاثر ہوئی کہ کچھ دوسرے علاقوں کے لوگ بھی ہرالی کی ملکیت کا دعویٰ کرنے لگے۔
ان دعوے داروں میں بگروٹ نامی بستی کے باشندے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے 20 فروری 2022 کو گلگت کے مرکزی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہاڑ تقریباً چار سو سال پہلے گلگت کی حکمران دادی جواری خاتون نے ان کے اجداد کو بطور تحفہ دیا تھا تاکہ وہ اسے چراگاہ کے طور پر استعمال کر سکیں۔
زمینوں کی 'بندربانٹ'
بہت سے مقامی لوگوں کے نزدیک گلگت میں زمینی تنازعات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی بے چینی اور تشدد کی ایک بڑی وجہ 'سٹیٹ سبجیکٹ رول' کا خاتمہ ہے۔ یہ قانون جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 میں لاگو کیا تھا۔ اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر (جس میں اُس وقت گلگت بلتستان کے تمام علاقے بھی شامل تھے) میں غیر ریاستی باشندوں کو زمین خریدنے اور مستقل آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
یہ قانون پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں کشمیر میں ابھی بھی لاگو ہے لیکن گلگت بلتستان میں 1974 میں اسے معطل کر دیا گیا تھا جس کے بعد بڑی تعداد میں غیرمقامی لوگوں کو یہاں زمینیں خریدنے اور گھر بنانے کا موقع ملا۔ مقامی شیعہ آبادی کی ایک تنظیم انجمن حسینیہ نگر کے جنرل سیکرٹری سجاد شیر الیاٹ جیسے لوگوں کو شکایت ہے کہ ان غیرمقامی لوگوں کو زمین کی الاٹمنٹ کے دوران انصاف کے تقاضوں کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ، ان کے بقول، اس سے "گلگت بلتستان میں زمینوں کی وہ بندربانٹ شروع ہوئی جو ابھی تک جاری ہے"۔
زمین سے متعلقہ تنازعات کی دوسری اہم وجہ 2001 میں پورے گلگت ریجن میں اراضی کے سرکاری ریکارڈ کا ازسرنِو ترتیب دیا جانا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں ایک طرف تو بہت سی آبادیوں کی جغرافیائی اور انتظامی حدود تبدیل ہو گئیں اور دوسری طرف زمینوں، چراگاہوں اور پانی کی گزرگاہوں کی روایتی حد بندیاں بھی شدید متاثر ہوئیں۔
مقامی لوگوں کے زمین کی ملکیت اور استعمال سے منسلک حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک سماجی ادارے، تنظیم تحفظِ حقوق پشتینی باشندگان، کے صدر شمشاد حسین کہتے ہیں کہ اس ترتیبِ نو سے متعدد تنازعات نے جنم لیا جن میں ہرالی پہاڑ کی ملکیت پر ہونے والا جھگڑا بھی شامل ہے۔
اسی طرح مہاراجہ کے دور میں غیرآباد زمین کو آباد کرنے کے لیے بنائے گئے 'نوتوڑ رولز' کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان کے تحت زمین تقسیم کرتے وقت کئی قانونی تقاضوں کا خیال نہیں رکھا گیا جس سے کئی تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔ 1980 میں ان رولز میں کی جانے والی ترمیم کے تحت غیرآباد زمین صرف انہی لوگوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے جو مقامی ہوں اور جو اسے ایک مقررہ مدت میں آباد کر سکیں۔ لیکن، شمشاد حسین کے بقول، مقامی انتظامیہ نے اس قانون کو اس طرح لاگو کیا ہے کہ زمین کی الاٹ منٹ میں کئی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔
ان کے خیال میں ان خرابیوں کی ابتدا قیامِ پاکستان کے بعد سرکاری اداروں کو دی جانے والی زمین سے ہوئی کیونکہ، ان کے بقول، "جب بھی کسی سرکاری ادارے کو ضرورت پڑتی اسے کسی قاعدے قانون کے بغیر زمین الاٹ کر دی جاتی"۔ جلد ہی یہ طریقہِ کار افراد تک بھی پھیل گیا اور "فوجی افسروں، بااثر افراد اور حتیٰ کہ لینڈ مافیا کو بھی جائز اور ناجائز طریقے سے زمین الاٹ ہونے لگی"۔
اس طرح کی متنازع الاٹمنٹ کی مثال پیش کرنے کے لیے وہ گلگت کے علاقے کنوداس کی نگر کالونی میں سنٹرل پولیس آفس کے سامنے واقع ایک قطعہِ زمین کا حوالہ دیتے ہیں۔ 12 ایکڑ سے زائد اراضی پر پھیلا ہوا یہ قطعہ مقامی شیعہ آبادی کی تنظیم انجمن حسینیہ نگر کے زیر قبضہ اور زیرِ استعمال ہے۔ اگرچہ اس تنظیم کے سربراہ سجاد شیر الیاٹ کا کہنا ہے کہ انہیں یہ زمین 1960 کی دہائی میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے الاٹ کی گئی تھی لیکن شمشاد حسین اور ان کی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ مہاراجہ کے دورِ حکومت میں یہ زمین دراصل موضع گلگت کی مشترکہ چراگاہ قرار دی گئی تھی اس لیے اسے مقامی لوگوں کو واپس کیا جانا چاہیے۔
نیا قانون
سابق وزیر اعظم عمران خان نے 16 دسمبر 2021 کو سکردو میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو کہا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنی زمینیں فروخت نہ کریں جن کا تعلق گلگت بلتستان سے نہ ہو۔ ان کی اس نصیحت کو عملی شکل دینے کے لیے گلگت بلتستان کی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ جن لوگوں کے پاس مقامی رہائشی سرٹیفیکیٹ (ڈومیسائل) نہ ہو انہیں یہاں زمین خریدنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں گلگت اور غذر کے ڈپٹی کمشنروں نے اپنے اپنے ضلعے میں دفعہ 144 نافذ کر کے تین ماہ کے لیے غیرمقامی افراد کو زمین کی فروخت پر پابندی لگا دی۔
تاہم گلگت بلتستان کے سابق اٹارنی جنرل اسد اللہ خان کہتے ہیں کہ اس پابندی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ ایک تو دفعہ 144 کا اطلاق زمینوں کی خریدوفروخت پر ہو ہی نہیں سکتا (بلکہ اس کا مقصد صرف امن عامہ برقرار رکھنا ہوتا ہے) اور دوسرا یہ کہ اس کا اطلاق صرف 90 روز کے لیے کیا جا سکتا ہے چنانچہ اس کی مدد سے زمین کی فروخت پر مستقل پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ گلگت میں رائج زمین سے متعلق تمام موجودہ قوانین بھی یا تو غلط استعمال کی وجہ سے اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں یا وہ معروضی حالات کے لیے مناسب نہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ زمین کی ملکیت، الاٹمنٹ اور خریدوفروخت کے بارے میں ایک نیا اور واضح قانون بنائے بغیر نہ تو سابق وزیرِ اعظم کی تاکید کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اس تاکید کے نتیجے میں لگائی گئی پابندیاں لڑائی جھگڑوں کو ختم کر سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ "اگر جلد ہی ایسا قانون نہ بنایا گیا تو گلگت بھر میں زمین کے تنازعات پر ایسے فسادات پھوٹ سکتے ہیں جنہیں روکنا آسان نہیں ہو گا"۔
گلگت کے ڈپٹی کمشنر اسامہ مجید چیمہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ تنازعات حل کرنے کے لیے "بڑے پیمانے پر قانونی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے"۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے انہوں نے پہلے ہی "حکومت کو سفارشات بھیج دی ہیں اور تمام متعلقہ حکام سے مشاورت بھی کر لی ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
گلگت بلتستان میں بجلی گھروں کی تعمیر: اپنے حقوق تسلیم کرانے کے لیے دیہاتیوں کا کامیاب احتجاج۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ الاٹمنٹ کے معاملے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی شکایات ملتے ہی فریقین کو طلب کر کے ان کا موقف سنتے ہیں اور فوری طور پر کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم ان فیصلوں میں تاخیر کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ گلگت کی انتظامیہ میں عملے کی تعداد اس قدر کم ہے کہ نہ تو اراضی سے متعلق تنازعات کی بروقت تحقیق کی جا سکتی ہے اور نہ ہی قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کر کے زمین الاٹ کرنے والے سرکاری حکام کے خلاف کوئی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول "مقامی انتظامی افسران پر کام کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو معطل کر دیا جائے تو سارا نظام رک جاتا ہے"۔
تاریخ اشاعت 20 جون 2022