رحمت مسیح فیصل آباد کی ایک ٹیکسٹائل مل میں بطور ہیلپر کام کرتے ہیں۔ 16 اگست کو وہ رات کی ڈیوٹی کے بعد صبح گھر پہنچے۔ ابھی وہ سونے کے لیے لیٹے ہی تھے کہ گلی میں اٹھنے والے شور سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ اسی دوران کسی نے زور سے ان کے دروازے پر دستک دی اور ان کا نام لے کر فوری باہر آنے کو کہا۔
رحمت بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہمسائے کی آواز پہچان لی اور جب دروازہ کھولا تو گلی میں بہت سے لوگ جمع تھے۔ ان میں بیشتر نے اپنے گھروں کو تالے لگا دیے تھے اور کہیں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
رحمت مسیح کا گھر جڑانوالہ کے سینما چوک سے کچھ دور عیسیٰ نگری میں واقع ہے جہاں ان کا خاندان تین دہائیوں سے مقیم ہے۔
ہمسایے نے انہیں بتایا کہ مسجد سے اعلان ہوا ہے کہ کسی مسیحی نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ہے جس کے بعد لوگوں کو احتجاج کے لیے سینما چوک پر بلایا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مسیحی برادری نے فوری طور پر علاقہ خالی کر نے کا فیصلہ کیا۔
"جانیں بچانے کے لیے ہمارے پاس اس کے کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ ہم نے پولیس کو 15 اور تھانہ سٹی جڑانوالہ کے لینڈ لائن نمبر پر متعدد بار فون کیے لیکن کسی نے کال اٹینڈ نہ کی۔"
رحمت بتاتے ہیں کہ انہوں نے جلدی سے ضروری سامان اٹھایا۔ بیوی اور پانچ بچوں کو ساتھ لیااور گھرکے عقبی راستے سے باہر نکل کر موٹرسائیکل رکشے پر بیٹھ کر قریبی گاؤں میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں پہنچ گئے۔
"ہمارے چرچ اور گھر جلا دیے گئے ہیں۔ ہم جانیں بچانے کے لیے چھپنے پر مجبور ہیں۔ اگر پولیس مساجد میں اعلانات کے بعد صبح سویرے ہی وہاں پہنچ جاتی تو ہجوم کو جلاؤ گھیراؤ سے روکا جا سکتا تھا۔"
2017ء کی مردم شماری کے مطابق جڑانوالہ کی شہری علاقوں میں مسیحی برادری کی آبادی 4,558 بتائی گئی تھی۔ ان میں زیادہ تر لوگ عیسیٰ نگری اور کرسچن ٹاؤن، نصرت کالونی اور قریبی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔
کرسچن کالونی کے رہائشی اشرف مسیح بتاتے ہیں کہ انہیں فیصل آباد میں جڑانوالہ کے حالات کا پتا چلا۔
"میں فوری طور پر جڑانوالہ میں اپنے گھر واپس پہنچا اور دو چکر لگا کر موٹرسائیکل پر اپنی بیوی اور تین بچوں کو شہر سے باہر ایک دوست کے ڈیرے پر منتقل کیا۔"
عیسیٰ نگری کے ایک دکاندار محمد ارشاد بتاتے ہیں کہ بدھ کو صبح سویرے اس علاقے کی ایک گلی میں لوگوں نے مقدس اوراق بکھرے ہوئے دیکھے۔ ان اوراق پر سرخ پینسل سے گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی ایک بڑے کاغذ پر نازیبا تحریر تھی۔ اسی کاغذ پر دو افراد کی تصویرٰیں ان کے نام، فون نمبر اور شناختی کارڈ نمبر درج تھے۔بعد میں پتا چلا وہ دونوں بھائی ہیں"
محمد ارشاد کادعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ کاغذ تصویریں اور تحریر خود دیکھی ہے۔جب لوگوں نے پولیس کواس بارے میں بتایا تو جواب ملا کہ اطلاع دہندگان تھانے آ کر درخواست دےدیں۔
"اس بات پر وہاں موجود لوگوں نے مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کر کے اہل علاقہ کو اکٹھا کر لیا۔"
ارشاد کے مطابق اس ہجوم نے مسیحی آبادیوں کا رخ کر لیا۔ اس دوران بعض افراد نے گھروں اور گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ اور آتش زنی روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔مگر بپھرے افراد نے منع کرنے والوں کو بھی مارنے کی دھمکیاں دیں۔
"وہ لوگ زبردستی چرچ میں داخل ہو گئے۔چھتوں سے صلیبیں اکھاڑ پھینکیں۔جو ہاتھ لگا توڑ پھوڑ دیااور پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔"
چمڑہ منڈی کے رہائشی محمد افضل بتاتے ہیں کہ مقدس اوراق اور گستاخانہ پوسٹر مقامی مسجد کے امام قاری یونس کو بھجوایا گیا تھا۔
محمد افضل بھی محمد ارشاد کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس واقعہ کی اطلاع پولیس کو دی گئی تھی۔
"ایک پولیس افسر وہاں آئے اور کہا کہ ملزم فرار ہو گئے ہیں۔جو درخواست دینا چاہتا ہے وہ تھانے آ جائے۔ اس کے بعد قاری یونس کی مسجد سے اعلان ہوا اور پھر دیگر قریبی مساجد سے بھی اعلانات شروع ہو گئے۔”
مقامی صحافی حماد شفاعت دن بھر سانحہ جڑاںوالہ کی کوریج کرتے رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ساڑھے آٹھ بچے کے لگ بھگ جلاؤ گھیراؤ شروع ہو چکا تھا۔ دن بارہ بجے تک انہیں علاقے میں کہیں کوئی پولیس اہلکار نظر نہیں آیا۔
"سٹی تھانہ اور سینما چوک کا درمیانی فاصلہ صرف ایک کلو میٹر ہے۔ اس کے باوجود پولیس کا اس سارے واقعے سے لاتعلق رہنا حیران کن ہے۔"
حماد کہتے ہیں کہ بارہ بجے کے بعد ایس ایچ اومنصور صادق کی قیادت میں دو ڈھائی درجن پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گئے تھے۔ مگر انہوں نے بھی بلوہ روکنے کی کوشش نہیں کی۔اس سے توڑ پھوڑ کرنے والوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ دوپہر کے بعد ایلیٹ فورس کی چار پانچ گاڑیاں بھی آ گئیں لیکن پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ صرف مقامی علما کے ذریعے توڑ پھوڑ سے باز رہنے کی اپیلیں کی جاتی رہیں جبکہ اس دوران تحصیل انتطامیہ کا کہیں کوئی پتا نہ تھا۔
حماد شفاعت کا کہنا ہے کہ اس دوران اسسٹنٹ کمشنر جڑانوالہ شوکت مسیح سندھو کے دفتر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر کے گھر کو بھی آگ لگا دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ توڑ پھوڑ کرنے والے افراد نے اسسٹنٹ کمشنر پر اپنی برادری کی مدد کرنے سمیت متعدد الزامات لگائے تاہم غیر جانبدار ذرائع سے ان الزامات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
"جلاؤ گھیراؤ کے دوران اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف نعرے لگائے جاتے رہے ۔مظاہرین انہیں غلیظ گالیاں دے رہے تھے اور ان کی معطلی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر دوپہر کو لاہور چلے گئے اور اسی روز شام تک ان کے تبادلے کے آرڈر جاری ہو گئے۔ انہیں ایس اینڈ جی ڈی اے رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیاتھا۔ "
حماد کے مطابق ذرائع ابلاغ پر شور مچا تو سہ پہر کے بعد فیصل آباد سے انسداد فسادات (اینٹی رائٹ) فورس اور پولیس کے مزید اہلکار بھجوائے گئے۔پولیس حکام کے مطابق ان کی تعداد ساڑھے تین ہزار تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت تک ایس پی بلال سلہری دوپہر کو جڑانوالہ پہنچ گئے تھے۔ اینٹی رائٹ فورس آنے کے بعد بلوائیوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر شیلنگ اور لاٹھی چارج کے جواب میں پتھراؤ شروع کر دیا گیا اور یہ سلسلہ شام گئے تک جاری رہا۔
بلوہ روکنے میں تاخیر کے حوالے سے جڑانوالہ پولیس کے انچارج بلال سلہری یہ دلیل دیتے ہیں کہ پولیس نے جانی نقصان سے بچنے کے لیے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا اور اسی وجہ سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ پولیس تاخیر سے آئی یا توڑ پھوڑ کرنے والوں کو بروقت نہیں روکا۔
تاہم ڈسٹرکٹ ہیومن رائٹس کمیٹی کے رکنعاطف جمیل پولیس کا یہ جواز تسلیم نہیں کرتے اور وہ سانحہ جڑانوالہ کو انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ صبح سویرے سے اعلانات ہو رہے تھے۔ مسیحی برادری گھر چھوڑ رہی تھی لیکن انتظامیہ نظر نہیں آئی۔ اگر اسی وقت پولیس حرکت میں آ تی تو اس سانحے کو روکا جا سکتا تھا۔
ڈپٹی کمشنر علی عنان قمر اور سٹی پولیس آفیسر فیصل آباد عثمان اکرم گوندل کی شام کو جڑانوالہ آمد ہوئی۔بعد ازاں رینجرز کی دو کمپنیاں بھی پہنچ گئی تھیں۔ مگر جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔
تحصیل جڑانوالہ میں اگلے روز تعطیل کا اعلان کیا گیا اور ضلع فیصل آباد میں سات دن کے لئے دفعہ 144 نافذ ہے۔
پولیس حکام کے مطابق تھانہ سٹی جڑانوالہ میں ایس ایچ او کی مدعیت میں ملزم راجہ عامر سلیم اور راکی مسیح کے خلاف 295بی اور 295سی (توہین قرآن اور توہین رسالت کے الزام میں) کے بدھ کے روز صبح سات بجے ہی مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔
بلوے میں ملوث 34 نامزد اور 600 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ نامزد افراد میں دو مذہبی جماعتوں کے رہنما محمد یونس اور رہنما آصف اللہ بخاری بھی شامل ہیں۔
سی پی او کے ترجمان کے مطابق جڑانوالہ میں انسداد دہشت گردی اور جلاؤ گھراؤ کی دفعات سمیت مذہبی عبادت گاہوں کی توہین کی دفعات کے تحت 5 مقدمات درج کر کے 128 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
عاطف جمیل بتاتے ہیں کہ فیصل آباد شہر میں 2010ء میں بھی اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ وارث پورہ کے رہائشی دو بھائیوں راشد ایمانوئل اور ساجد ایمانوئل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔بعدازاں انہیں ضلع کچہری میں پیشی پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں اس وقت بھی فیصل آبادجنرل بس سٹینڈ سے کچھ پمفلٹ ملے تھے جن پر دو بھائیوں کا نام اور پتہ لکھا تھا۔ جڑانوالہ میں بھی دو بھائی ملزم بتائے جارہے ہیں۔حیرت ہے ان کی تصاویر اور شناختی کارڈ نمبر تک توہین آمیز مواد پر موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ یہ واقعہ سازش لگتا ہے۔ اس کے محرکات غیر جانبدار تفتیش کے ذریعے فوری سامنے لانا ضروری ہے۔
ڈائریکٹر پیس اینڈ جسٹس فادر خالد رشید نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جڑانوالہ میں جلائے جانے والے گرجا گھروں کی تعداد 13 سے زیادہ ہے۔
"ہماری ٹیم آج وہاں گئی ہے لیکن آخری اطلاعات تک پولیس اور انتظامیہ سے انہیں مسیحی آبادیوں میں جانے کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔"
یہ بھی پڑھیں
ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے: پاکستان میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتیں کیوں ہو رہی ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو دونوں لڑکوں کی جانب سے توہین کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر الزام کو حقیقت مان بھی لیا جائے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے تھی۔ کسی گروہ یا ہجوم کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ پوری کمیونٹی کو ہی مجرم قرار دے کر ان پر حملہ کر دے۔"
اگست 2009 میں گوجرہ میں ایسے ہی بلوے کے نتیجے میں کم از کم چھ مسیحی افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اپریل 2021ء میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال فیصل آباد میں تعینات دو مسیحی نرسوں کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق 1947ء سے 1987 ء تک ملک بھر میں توہین مذہب کے 11 مقدمات درج ہوئے تھے۔ اور ان میں ملوث تین ملزموں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں توہین رسالت کے قانون کانفاذ ہوا اور آئین کی دفعہ 295 بی اور 295 سی کے تحت اس جرم کی سزا مقرر کی گئی۔ اس کے بعد 1987ء سے 2021ء تک اس قانون کے تحت مقدمات کے اندراج میں 1300 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 74 برسوں کے دوران پورے ملک میں توہین مذہب کے ایک ہزار415 مقدمات درج ہوئے اور 89 نامزد ملزموں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ یعنی 1,098 مقدمات پنجاب میں درج ہوئے جن میں نامزد 70 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔
تاریخ اشاعت 19 اگست 2023