من مانی فیس، خودساختہ قواعد اور غیرقانونی داخلے: نجی یونیورسٹیاں کیسے 'طلبا کا استحصال کر رہی ہیں'۔

postImg

فریال احمد ندیم

postImg

من مانی فیس، خودساختہ قواعد اور غیرقانونی داخلے: نجی یونیورسٹیاں کیسے 'طلبا کا استحصال کر رہی ہیں'۔

فریال احمد ندیم

لاہور میں واقع یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا کی انتظامیہ نے اپنے شعبہ آئی وژن سائنسز کے آخری سال کے طالب علم حسین وزیر کو 23 جون 2021 کو بتایا کہ وہ تین روز بعد ہونے والا اپنا حتمی امتحان نہیں دے سکتے۔  اس کی وجہ انہیں یہ بتائی گئی کہ انہوں نے آخری سمیسٹر کی پوری فیس ادا نہیں کی۔ 

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک سے تعلق رکھنے والے حسین وزیر نے 2017 میں اس یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ ان کی آخری سمیسٹر کی فیس ایک لاکھ 10 ہزار روپے تھی لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں کچھ ایسی مالی مشکلات چل رہی تھیں کہ وہ امتحان سے پہلے اس میں سے 50 ہزار روپے ہی جمع کرا سکے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ باقی رقم وہ امتحان کے بعد ادا کر دیں گے لیکن انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

انہیں شکایت ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیم کے پہلے تین سالوں میں ہمیشہ اچھے نمبر لیے تھے لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی نے انہیں فیس کی ادائیگی میں کوئی رعایت نہیں دی۔ نتیجتاً انہیں اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں ایک اضافی سمیسٹر گزارنا پڑ رہا ہے جس کے لیے انہیں اضافی فیس بھی دینا پڑ رہی ہے۔ 

لاہور ہی کے ایک اور تعلیمی ادارے، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، کے کئی طلبا کو بھی فیس سے منسلک مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے میں ہر سمیسٹر کے بعد فیس بڑھا دی جاتی ہے جس کے باعث ان کے لیے اضافی رقم کا انتظام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے چند ایک نے اپنے فیس چالان کی تصاویر سماجی رابطے کی سائٹس پر اس امید پر آویزاں کر رکھی ہیں کہ شاید مخیر افراد انہیں دیکھ  کر انکی مالی امداد کر دیں۔ ان تصاویر کے ساتھ انہوں نے لکھ رکھا ہے کہ "اگر وہ یہ فیسں ادا نہیں کر پاتے تو یونیورسٹی انتظامیہ انہیں یونیورسٹی سے خارج کر دے گی"۔ 

انتظامی اور قانونی 'حربے'

یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا کے شعبہ قانون کے پانچویں سمیسٹر میں زیرِتعلیم ایک طالب علم ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں کہ نظم و ضبط کی کسی معمولی سی خلاف ورزی کی وجہ سے کہیں انہیں یونیورسٹی سے نکال نہ دیا جائے۔

وہ لاہور سے بہت دور واقع ایک پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے خاندان کے مشکل مالی حالات کے باوجود گھر سے دور رہ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اپنے خوف کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی نے ان کی جماعت میں ایک سو 30 طلبا کو داخلہ دے رکھا ہے حالانکہ اعلیٰ تعلیم کے نگران وفاقی ادارے، ہائر ایجوکیشن کمیشن، نے اسے صرف ایک سو طلبا داخل کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس پابندی کی بنا پر یونیورسٹی ایک سال میں ایک سو سے زیادہ طلبا کو ڈگری جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اس لیے وہ کہتے ہیں کہ "اضافی نشستوں پر داخل کیے گئے طلبا کو ان کی تعلیم مکمل ہونے سے پہلے یا تو کسی بہانے سے یونیورسٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا یونیورسٹی انتظامیہ مختلف حربے استعمال کر کے انہیں آخری امتحان میں کامیاب نہیں ہونے دیتی"۔ 

ان "حربوں" کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "کچھ لوگوں کو نظم و ضبط کی معمولی خلاف ورزیوں کی پاداش میں تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا ہے اور کچھ کو امتحان میں ناکام قرار دیا جاتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو انتظامی معاملات میں اس قدر پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ تنگ آ کر یونیورسٹی ہی چھوڑ جاتے ہیں"۔

ان معاملات کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ طلبا پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے لیے انہیں ہر سمیسٹر کی فیس کی ادائیگی کا ثبوت دینا ہوگا۔ لیکن، ان کے مطابق، اگر کسی طالب علم سے یہ ثبوت گم ہو جائے تو اس کے پاس اسے دوبارہ حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی انتظامی غلطی کی وجہ سے کوِئی طالب علم کسی سمیسٹر میں امتحان کے دن غیر حاضر دکھا دیا جائے یا کسی ممتحن سے اس کا پرچہ گم ہو جائے تو ان معاملات میں بھی انتظامیہ اس کی کوئی مدد نہیں کرتی۔ 

نتیجتاً ایسے طالب علموں کو وہ سمیسٹر دہرانا پڑتا ہے جس پر نہ صرف ان کا اضافی وقت لگتا ہے بلکہ انہیں اس کی اضافی فیس بھی دینا پڑتی ہے جس کے خوف سے "طلبا مسلسل دباؤ میں رہتے ہیں اور ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے"۔ 

یونیورسٹیوں کی نگرانی: کس کی ذمہ داری؟

لاہور میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے علاقائی دفتر کے انچارج غفور احمد ان نجی یونیورسٹیوں کے طلبا کی شکایات کے بارے میں جان کر اپنا سر نفی میں ہلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے ادارے کا کام اعلیٰ تعلیم کے معیار اور یونیورسٹیوں میں طلبا کو مہیا کردہ تعلیمی سہولیات کی نگرانی کرنا ہے نہ کہ ہر یونیورسٹی میں داخل کیے گئے طلبا کی تعداد اور ان سے وصول کی جانے والی فیس پر نظر رکھنا۔ ان کے مطابق "ان معاملات کی نگرانی کا کام اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے ہاتھ میں ہے"۔ 

خاص طور پر قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس کی تعلیم کا نگران صوبائی ادارہ، پنجاب بار کونسل، ہے۔ ان کے مطابق "اگر اس شعبے سے منسلک کوِئی بھی مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہو تو اس ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے فوراً حل کرے"۔

تاہم یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا کے طلبا کا کہنا ہے کہ انہوں نے پنجاب بار کونسل سے بھی رابطہ کیا ہے اور اسے اپنے مسائل بتانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس نے "ابھی تک اس صورتِ حال پر کوئی توجہ نہیں دی"۔ 

قانون کے پیشے کی نگرانی کرنے والے وفاقی ادارے، پاکستان بار کونسل، کے سابق نائب صدر عابد ساقی ان طلبا کو ایک اور مشورہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "اگر پنجاب بار کونسل ان کی بات نہیں سن رہی تو انہیں پاکستان بار کونسل سے رجوع کرنا چاہیے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ہائر ایجوکیشن کمیشن یا صوبائی حکومتیں: اعلیٰ تعلیم کے غیرقانونی اداروں کی بھرمار کا ذمہ دار کون؟

ان کے مطابق ایک سال میں ایک تعلیمی ادارے میں ایک سو سے زیادہ طلبا کو شعبہ قانون میں داخلہ نہ دینے کا ضابطہ دراصل اسی کونسل نے بنایا ہے۔ اس لیے انہیں یقین ہے کہ یہ ایسے تعلیمی اداروں کے خلاف فوری کارروائی کرے گی جو اس ضابطے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

لیکن یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا کے دفتر برائے تعلقاتِ عامہ کی نائب سربراہ آئمہ احمد کہتی ہیں کہ ان کا ادارہ "ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان بار کونسل کے تمام قواعدوضوابط پر عمل کر رہا ہے جن میں شعبہ قانون میں ہر سال زیادہ سے زیادہ ایک سو طلبا کو داخلہ دینے کی شرط بھی شامل ہے"۔ وہ اس الزام کی بھی تردید کرتی ہیں کہ ان کی یونیورسٹی ہر سال اس تعداد سے زیادہ طلبا کو داخلہ دے کر انہیں مختلف طریقوں سے آخری امتحان دینے سے روکتی ہے۔

اس کے برعکس وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ "21-2020 میں یونیورسٹی آف ساؤتھ ایشیا کے شعبہ قانون میں 80 طلبا داخل ہوئے تھے جس کی وجہ سے 20 نشستیں خالی رہیں"۔ اسی طرح، ان کے بقول، 22-2021 میں بھی اس شعبے میں صرف 85 طلبا کو داخلہ دیا گیا ہے۔ 

تاہم وہ اپنی بات کی تائید میں کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دکھانا چاہتیں کیونکہ، ان کے مطابق، "یہ معلومات عام نہیں کی جا سکتیں"۔

تاریخ اشاعت 24 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فریال احمد ندیم نے کنیئرڈ کالج لاہور سے عالمی تعلقات میں بی ایس آنرز کیا ہے۔ وہ صحت اور تعلیم سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

کیا بجلی سے چلنے والے رکشوں کی مہنگی بیٹری اور بجلی کے مسائل کا کوئی حل ہے؟

thumb
سٹوری

مردان کے گورنمنٹ گرلز سکول کے مالک کو غصہ کیوں آتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوسیم خٹک
thumb
سٹوری

ننگر پارکر: گیارہ سال پائپ لائن بچھانے میں لگے معلوم نہیں میٹھا پانی کب ملے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

فیصل آباد: کسانوں کی خواتین بھی احتجاج میں شرکت کر رہی ہیں

بچے راہ دیکھ رہے ہیں اور باپ گھر نہیں جانا چاہتا

thumb
سٹوری

بھارت کا نیا جنم

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی

ننکانہ صاحب: کسانوں نے گندم کی کٹائی روک دی

thumb
سٹوری

کیا واقعی سولر پینل کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے یا کچھ اور؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.