کالا باغ شہر کا علاقہ اتلا پتن مختلف محلوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک محلہ تنگ بازار ہے۔ 53 سالہ محمد مسرور فانی محلہ تنگ بازار کے رہائشی اور راج مستری ہیں۔ وہ قیام پاکستان سے قبل تعمیر کیے گئے اس مکان میں رہتے ہیں جسے ان کے دادا نے 1200 روپے کے عوض ایک ہندو سے خریدا تھا۔
مسرور فانی کا کہنا ہے کہ میرے والد 23 مارچ 1995ء کو ٹی بی کے مرض کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔ ان کے مطابق یہاں ٹی بی کے کئی مریض ہیں۔
ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر سرور علی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پوری عیسیٰ خیل تحصیل میں ٹی بی، دمہ، ڈینگی اور پیٹ کے امراض اتلا پتن میں سب سے زیادہ ہیں۔
ڈاکٹر سرور علی کے مطابق 2020 ء میں اتلا پتن میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 10 تھی۔ 2021ء میں یہ 53 رپورٹ ہوئی۔ 2022ء میں یہ تعداد بڑھ کر 78 ہو گئی اور 2023ء میں اب تک ٹی بی کے 29 مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے۔
اس علاقے میں دمے کے مریضوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر سرور علی کا کہنا ہے کہ2020 ء میں دمہ کے مریض ایک سو 71 اور 2021ء میں سات سو 59 تھے۔ 2022ء میں ان مریضوں کی تعداد دگنے سے بھی زیادہ ہو کر 15 سو 46 ہو گئی۔ 2023ء میں تاحال 747 مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے۔ یہ بہت زیادہ تعداد ہے۔
ان کے مطابق کالا باغ کے سرکاری ہسپتال میں ان بیماریوں کے مفت ٹیسٹ اور مفت علاج ہوتا ہے مگر جب تک اس آبادی کو تازہ ہوا، سورج کی روشنی اور صاف پانی مہیا نہیں ہوں گے، بیماریاں رہیں گی۔
مسرور فانی کے مطابق تنگ و تاریک گلیوں میں گھر ہونے کی وجہ سے میری شادی بھی نہ ہو پائی۔ میری منگنی پانچ برس قائم رہی مگر اس کے بعد انہوں نے یہ کہہ کر منگنی توڑ دی کہ ہم اپنی بیٹی کو اس گھر میں نہیں بھیج سکتے۔
کون نہیں چاہتا کہ کھلی، کشادہ اور ہوا دار رہائش گاہ میں زندگی گزارے مگر ہمارے پاس اس علاقے سے باہر پلاٹ یا مکان لینے کے وسائل نہیں۔ جن کے پاس تھے وہ یہاں سے اپنے مکان بیچ کر لاری اڈا، کریم آباد یا دیگر کھلے علاقوں میں منتقل ہو گئے۔
"اتلا پتن کے محلوں میں کئی گھر ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ یہاں، کچن، باتھ روم اور بکریاں ایک ہی جگہ موجود ہوتے ہیں اور تعفن سے جینا محال ہو جاتا ہے۔"
ان کا کہنا ہے کہ زیادہ بارش کے دوران ہم پوری پوری رات جاگ کر گزارتے ہیں کہ کہیں ہمارے مکان کی چھت یا دیوار نہ گر جائے۔
مردم شماری کے بلاک آفیسر سعید اللہ سبطین پراچہ نے بتایا کہ حالیہ مردم شماری کے مطابق اتلا پتن میں دو ہزار ایک سو 50 افراد رہتے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
70 سالہ عبدالحمید پراچہ تنگ بازار میں پیدا ہوئے۔ اب وہ کالا باغ شہر سے چار کلومیٹر دور کوٹ چاندنہ روڈ پر رہتے ہیں۔ وہ اور ان کی اہلیہ بیگم سعادت حمید پراچہ ہفتہ اور اتوار کے دن اپنے آبائی گھر میں گزارتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ علاقہ صدیوں سے آباد ہے اور ماضی میں یہاں تجارتی سرگرمیاں عروج پر ہوتی تھیں۔ یہاں کی ہندو آبادی تنگ مکانوں میں رہتی تھی۔
ان کے مطابق 2008ء میں نوابزادہ ملک عماد خان اسی حلقہ سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنے۔ ان کی وزارت کے دوران کالا باغ شہر کو سوئی گیس فراہم کی گئی۔ مگر کالاباغ کے قدیم محلہ اتلا پتن کی بیشتر آبادی تاحال سوئی گیس سے محروم ہے اور لکڑیاں یا گیس سلنڈر استعمال کرتی ہے۔
اس علاقے کے مکانات زیرزمین نمک کی موجودگی کی وجہ سے خستہ ہو چکے ہیں کیونکہ قریب ہی نمک کے پہاڑ ہیں۔ 1976ء اور 2010 ء میں آنے والے سیلابوں سے بھی یہاں بہت نقصان ہوا۔
"ان تمام وجوہات کی بنا پر ہمیں اپنا آبائی گھر چھوڑ کر شہر سے چار کلومیٹر دور پلاٹ لے کر گھر بنانا پڑا۔"
ان کی اہلیہ جو سابق کونسلر بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ اب ہم اب شہر سے باہر کھلے مکان میں رہتے ہیں لیکن اتلاپتن کے مکین غربت کی وجہ سے اسے نہیں چھوڑ سکتے۔
یہ بھی پڑھیں
لیاقت پور کی بستی میں بچوں کی لگاتار اموات: ویکسینیشن کے بندوبست کی کمیاں، کوتاہیاں دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
یہاں کی دو سے تین فٹ چوڑی گلیوں میں دن کے وقت بھی روشنی کے لیے بلب جلتے ہیں۔ یہاں کی آدھی سے زیادہ آبادی مکانات کو کھنڈر بنتا دیکھ کے ہجرت کر چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اندھیر نگری کے ان باسیوں کو آج بھی مکانوں کی چھتیں نیچی ہونے کی وجہ سے سر جھکا کے چلنا پڑتا ہے۔ ان کے عزیز و اقارب کے جنازے چٹائیوں پر رکھ کے تنگ گلیوں سے گزار کر کھلی جگہ چارپائی پر رکھے جاتے ہیں اور اس کے بعد قبرستان لے جائے جاتے ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے یہ علاقہ بہت بڑی تجارتی منڈی تھا۔ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے یہاں بڑی کشتیاں اور بیڑے لنگر انداز ہوتے اور نمک اور دیگر اشیا مختلف علاقوں میں فروخت کے لیے لے جاتے تھے۔
اس وقت آبادی بہت کم تھی اور یہاں کے مکین خوش حال تھے۔ بیرونی حملہ آوروں سے خود کو بچانے کے لیے اس کے اطراف لکڑی کے سات بڑے دروازے لگائے گئے تھے۔ شام ہوتے ہی ان دروازوں کو بند کر دیا جاتا تھا۔ مگر اب وہ دروازے رہے اور نہ ہی یہاں کی ہنستی مسکراتی زندگی۔
تاریخ اشاعت 25 مئی 2023