غلام دستگیر ضلع جھنگ کی تحصیل شور کوٹ میں گنے کے کاشتکار ہیں۔ اس بار شوگر ملوں نے انہیں گنے کی جو قیمت دی اس سے انہیں 42 ہزار چھ سو روپے فی ایکڑ نقصان ہوا۔ وہ اس قدر دلبرداشتہ ہیں کہ انھوں نے اگلی بار گنا کاشت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
شورکوٹ سے 320 کلومیٹر مشرق میں بھارتی پنجاب کا ضلع کپور تھلہ ہے۔ یہاں کے ایک کسان ستنام سنگھ سیہنی نے بھی اس سال اپنی زمین پر گنا کاشت کیا تھا اور ان کو اس فصل سے ایک لاکھ چھ ہزار روپے فی ایکڑ کا منافع حاصل ہوا ہے۔
یہ دو متضاد کہانیاں دو ملکوں میں رہنے والے کسانوں کی نہیں بلکہ زراعت کے بارے میں دو مختلف پالیسیوں کی داستان ہے۔
غلام دستگیر نے 13 دسمبر 2022 کو اپنے ایک ایکڑ رقبے کی پیداوار کو شوگر مل پہنچایا تو اسکا وزن 770 من نکلا جس کے عوض انہیں 295 روپے فی من کے حساب سے دو لاکھ 27 ہزار چار سو دو روپے ملے۔
ان کے مطابق وہ اپنے کھیت کی زمین کے مالک کو کرائے کی مد میں 70 ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ ادا کرتے ہیں۔ گنا پورے سال کی فصل ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے اس سال فصل کو پانی دینے پر 70 ہزار روپے خرچ ہوئے جبکہ کھاد، ہل چلانے، بیج، گنے کی کٹائی، مزدوری اور پھر اسے مل تک پہنچانے پر ایک لاکھ 20 ہزار مزید خرچ ہوا یوں ان کی کُل لاگت دو لاکھ 60 ہزار روپے فی ایکڑ آئی۔
ان کا خیال ہے کہ اگر گنے کی سرکاری قیمت ساڑھے چار سو روپے مقرر ہوتی تو انہیں ساڑھے تین لاکھ روپے فی ایکڑ ملتے اور انہیں ان کی سال بھر کی محنت کا ثمر مل جاتا۔
ستنام سنگھ نے اپنی فصل کے اخراجات کا جو حساب بتایا اس کے مطابق ان کا فی ایکڑ خرچہ دو لاکھ 82 ہزار روپے ( ایک لاکھ بھارتی روپے) بنتا ہے جو غلام دستگیر کے خرچ کے تقریباً برابر ہی ہے۔ اس سیزن میں ستنام کی پیداوار 912 من فی ایکڑ رہی جو انہوں نے 425 روپے (152 بھارتی روپے) فی من کے حساب سے بیچی۔ گویا انہیں اپنی ایکڑ کی پیداوار کے کل تین لاکھ 88 ہزار ملے جس میں سے ایک لاکھ چھ ہزار ان کی محنت کا معاوضہ یا منافع ہے۔
گورنمنٹ آف انڈیا کے پریس انفارمیشن بیورو کی 3 اگست 2022ء کی پریس ریلیز کے مطابق شوگر کے حالیہ سیزن میں بھارت چینی کی پیداوار میں برازیل کو پیچھے چھوڑ کر عالمی سطح پر پہلی پوزیشن پر آ گیا ہے یعنی بھارت اب دنیا کا سب سے زیادہ چینی پیدا کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
بھارت میں گزشتہ 8 سال میں چینی کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ ستنام سنگھ اس کو گنے کی سرکاری قیمت میں مسلسل اضافے سے جوڑتے ہیں۔ ان کے بقول پچھلے چند سال میں کسانوں کو گنے کی کافی بہتر قیمت ملی ہے۔
ستنام سنگھ بھارتی پنجاب میں کسانوں کی ایک تنظیم کسان یونین دو آبہ کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں- وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ملک میں مرکزی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومتیں بھی گنے کی قیمت طے کرتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے بقول رواں سیزن میں پنجاب حکومت نے گنے کی امدادی قیمت 370 (پاکستانی) روپے فی من مقرر کی ہے، کسانوں کو 56 روپے فی من ملنے والی سبسڈی اس کے علاوہ ہے۔ یوں بھارتی پنجاب میں کسانوں کو ایک من کے 425 روپے مل رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی 14 اکتوبر 2022 کی ایک رپورٹ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بھارتی پنجاب میں کسانوں کو فی من کے ایک سو 52 بھارتی (چار سو 25 پاکستانی) روپے مل رہے ہیں۔
پاکستان میں گنے کی امدادی قیمت شوگرکین کنٹرول بورڈ تجویز کرتا ہے۔ اس بورڈ کو حکومتِ پنجاب شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950 کے تحت تشکیل دیتی ہے، اس کے سربراہ کین کمشنر ہوتے ہیں اور اس میں تمام شوگر ملوں کے اور ان کے علاقوں کے کسانوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔
شوگرکین کنٹرول بورڈ کے 11 اکتوبر 2022ء کو لاہور میں ہونے والے اجلاس میں محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر کراپ رپورٹنگ نے بتایا کہ ان کے ادارے نے فروری 2022ء میں کئے گئے دو ہزار کسانوں کے انٹرویوز کی بنیاد پر گنے کی کاشت پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ 240 روپے فی من لگایا ہے اور امدادی قیمت اسی بنیاد پر طے کی جانی چاہیے۔
اجلاس میں شریک رحیم یار خان کی حمزہ شوگر مل کے علاقے کے کسان نمائندے محمودالحق بخاری نے اس رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیا ۔ بخاری صاحب آل پاکستان کسان فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھی ہیں اور انہوں نے اجلاس میں گنے کی امدادی قیمت چارسو روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ فیصل آباد کے کسان نمائندہ سرفراز تارڑ نے ساڑھے چار سو روپے فی من قیمت تجویز کی۔ اجلاس کے دوران شوگر ملوں کے نمائندگان تو بس اس بات پر زور دیتے رہے کہ حکومت کو فی الفور چینی کی برآمد کی اجازت دینی چاہیے۔
اجلاس کے بعد حکومت پنجاب نے رواں سال کے لیے گنے کی امدادی قیمت تین سو روپے فی من مقرر کر دی۔
محمود الحق بخاری کا کہنا ہے کہ اس ریٹ پر صرف وہی کسان خسارے سے بچ پائیں گے جو ذاتی زمین پر مڈھلی کاشت لگا رہے ہیں یعنی جنہیں زمین کا کرایہ نہیں دینا پڑتا اور جو پچھلی فصل کے تنوں کو بیج کے طور پر استعمال کر کے نئے بیج کا خرچہ بچا لیتے ہیں۔ اس سے ان کا کل خرچ ایک لاکھ روپے فی ایکڑ کم ہو جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں گنے کی امدادی قیمت میں ایک سو 25 روپے فی من کا فرق ہے حالانکہ بھارت میں فصل پر اٹھنے والے کئی اخراجات پاکستان سے کم ہیں۔
ستنام سنگھ بتاتے ہیں کہ بھارتی پنجاب میں اس وقت ڈى امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کھاد (50 کلوگرام بیگ) کی قیمت پاکستانی تین ہزار سات سو چھ روپے ہے جبکہ محمود الحق بخاری کے بقول پاکستان میں اس وقت کا نرخ دس ہزار چار سو روپے ہے۔ اسی طرح وہاں یوریا پاکستانی سات سو 35 روپے اور پوٹاش چار ہزار تین سو 11 روپے کی ہے جبکہ یہاں یوریا کی قیمت دو ہزار 4 سو اور پوٹاش کی 14 ہزار روپے ہے۔
بھارت میں زرعی استعمال کی بجلی بھی قریباً مفت یا انتہائی ارزاں نرخوں پر مہیا کی جاتی ہے۔ البتہ ستنام کے بقول بھارت میں کھیت مزدوری پر خرچہ پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
بہتر سہولیات کی بدولت بھارت میں گنے کی فی ایکڑ پیداوار بھی پاکستان سے زیادہ ہوتی ہے جس کا براہراست فائدہ کسانوں کو ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
میٹھا میٹھا ہپ ہپ: شوگر ملیں گنے کی مٹھاس میں کمی بیشی کر کے کس طرح کاشت کاروں کو لوٹ رہی ہیں۔
پاکستان میں گنے کی فی ایکڑ پیداوار نہ صرف عالمی معیارات سے کم ہے بلکہ ہمارے کسانوں کو ایک اور چیلنج کا بھی سامنا ہے اور وہ ہے موسمیاتی تغیر جس کا پیداوار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور کے محمد عرفان فیروز ایک طرف تو گنے کے کم ریٹ سے پریشان ہیں دوسری جانب اس بار ان کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت 20 فیصد تک کم آرہی ہے، صرف چھ سو من فی ایکڑ۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے پہلے جب موسم شدید گرم تھا تو وہ فصل کی پانی کی ضرورت پوری نہیں کرپائے، جس سے اس کی بڑھوتری کا عمل متاثر ہوا۔ پھر 2022ء کی بارشوں اور سیلاب کے بعد ایک مہینے تک کھیت میں پانی کھڑا رہا اور فصل کمزور ہو گئی اور چھوٹے پودے تو گل کر ضائع ہی ہو گئے۔
بخاری صاحب کا کہنا ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود اگر کسان کو خوشحال کر دیا جائے تو ہم معاشی میدان میں ترقی کرسکتے ہیں۔ "ہمیں بھارت کی کسان پالیسیوں سے استفادہ کرنا چاہیے"۔
تاریخ اشاعت 19 جنوری 2023