محمد ساجد کا رشتہ طے ہوا تو لڑکی والوں نے شادی سے پہلے ایک مکان لڑکی کے نام کرنے کی شرط رکھی۔
ساجد نے شرط پوری کرنے کے لیے نجی ہاؤسنگ سکیم میں قسطوں پر پانچ مرلے کا پلاٹ خرید کر اس پر گھر بنا دیا اور مزدوری کرنے دبئی چلے گئے اور وہاں سے قسطیں بھیجتے رہے۔
واپس آئے تو مکان پر کوئی اور قابض تھا۔
محمد ساجد 32 سال کے ہوچکے ہیں اور ان کی شادی رکی ہوئی ہے۔
ساجد ملتان کے علاقے سیتل ماڑی کے رہائشی اور پیشے کے لحاظ سے رنگساز ہیں۔
انہوں نے مارچ 2021ء میں ملتان کی نجی ہاؤسنگ سکیم ارحم ٹاؤن میں پانچ مرلے کا پلاٹ قسطوں پر خریدا تھا اس وقت پلاٹ کی قیمت ساڑے چار لاکھ روپے تھی۔انہوں نے 20 ہزار روپے بطور ایڈاونس ادا کیے تھے۔
"میری کالونی کے مالک رانا مصطفی سے تین سال کی 36 قسطیں طے ہوئی تھیں۔ میں دو سال تک 11 ہزار 900 روپے ماہانہ قسط ادا کرتا رہا۔ دبئی سے واپسی معلوم ہوا کہ کالونی کے مالک نے مکان کے تالے توڑ کر پلاٹ کسی اور کو بیچ دیا ہے"۔
ایک پلاٹ کئی کئی بار بیچنے کی وارداتیں صرف "غیر حاضر" خریداروں تک محدود نہیں۔
بابا منشا نے ساری زندگی کرائے کے مکان میں گزار دی آخر دو سال قبل انہیں اپنے مکان کو گھر میں بدلنے کا موقع دکھائی دیا تو انہوں نے اپنی جمع پونجی سے ارحم ٹاؤن میں قسطوں پر پلاٹ خرید لیا۔
بابا منشا اب 68 برس کے ہیں۔انہوں نے 90 ہزار روپے مرلہ کے حساب سے پانچ مرلے کا پلاٹ خریدا تھا جس کی رقم چار لاکھ 50 ہزار روپے بنتی ہے۔تین سال کی اقساط طے ہوئیں۔ بابا منشا باقائدگی سے 12 ہزار روپے ماہانہ اقساط ادا کرتے رہے۔
لیکن جب ان کی قسطیں مکمل ہوگئیں تو پلاٹ "غائب" ہو گیا۔
"دو سال کالونی مالک قسطیں وصول کرتا رہا ہے لیکن جب رجسٹری کا موقع آیا تو وہ میرا پلاٹ کسی اور پارٹی کو بیچ کر فرار ہوگیا۔اب ہمارا فون تک نہیں اٹھاتا"۔
مکان کو گھر سے بدلنے کا خواب دیھنے والے بابا منشا اکیلے نہیں۔
ملتان کی ایک اور نجی کالونی پی آئی اے ایمپلائز ہاؤسنگ سکیم میں مرزا ناصر بیگ نے 1996ء میں 12 ہزار روپے قسط کے حساب سے پانچ مرلے کا پلاٹ 60 ہزار روپے میں خریدا تھا۔
قسطیں مکمل ہونے کے بعد انہوں نے دیگر تمام واجبات ادا کر کے سوسائٹی کے صدر ابراہیم کھوسہ، جنرل سیکرٹری افتخار احمد سے الاٹمنٹ لیٹر اور قبضہ حاصل کرلیا۔ تاہم ہاؤسنگ سوسائٹی نے وہی پلاٹ دوسری پارٹی کو فروخت کردیا۔
"پلاٹ کی ادائیگی میں نے کی لیکن اب وہاں تعمیرات کوئی اور کر رہا ہے"۔
مرزا ناصر بیگ کے علاوہ احسن اسلم، سعید احمد، لئیق احمد اور سلطانہ جہانزیب کے ساتھ بھی اسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں فراڈ ہوا ۔
متاثرین نے سوسائٹی کے خلاف کارروائی کے لیے تھانہ بہاء الدین زکریا میں درخواست دے رکھی ہے۔پولیس کہتی ہے کہ جلد کارروائی کی جائے گی۔
ملتان میں کتنی غیر قانونی ہاؤسنگ سکیمیں ہیں؟
ارحم ٹاؤن اور پی آئی اے ہاوسنگ سکیم غیر قانونی آبادیاں ہیں۔
ملتان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی ڈائریکٹر اربن پلاننگ عنائزہ بتاتی ہیں کہ شہر میں قانونی اور باقاعدہ رجسٹرڈ ہاؤسنگ کالونیوں کی تعداد 57 ہے جبکہ غیر قانونی ہاؤسنگ کالونیوں کی تعداد 196 تک پہنچ گئی ہے۔
"ایک سو اٹھارہ ہاؤسنگ کالونیوں کو عارضی طور پر، 16 ہاؤسنگ کالونیوں کو دوسرے مرحلے کے طور پر اور 29 کالونیوں کو تکنیکی طور اجازت دی گئی ہے"۔
عارضی اجازت سے مراد یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز غیر قانونی نہیں تاہم انہیں قواعد و ضوابط پوری کرنے کے لیے کالونی میں ترقیاتی کام کرانے کا وقت دیا گیا ہے۔ مگر یہاں پلاٹوں کی خریدو فروخت کی اجازت نہیں ہے۔
دوسرے مرحلے میں بھی پلاٹوں کی خریدو فروخت کی اجازت نہیں ہوتی۔تکنیکی طور پر اجازت کا مطلب یہ ہے کہ سوسائٹی این او سی کے لیے درخواست دے سکتی ہے۔ تاہم اس مرحلے پر بھی پلاٹوں کی خریدو فروخت نہیں کرسکتی۔
ایم ڈی کا کام صرف نوٹس جاری کرنا
ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل قیصر سلیم کہتے ہیں کہ غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کے خلاف سخت کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہے۔
" ایم ڈی اے نے وقتاً فوقتاً عوامی فلاحی پیغامات کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرتا رہتا ہے کہ کسی ہاؤسنگ سکیم میں پلاٹ لینے سے پہلے، ایم ڈی اے سے رابطہ کر کے ہاؤسنگ کالونی بارے معلومات حاصل کریں کہ آیا یہ کالونی رجسٹرڈ ہے یا نہیں؟"
انہوں نے کہا شہریوں کو چاہیے کہ وہ ہاؤسنگ کالونی کا منظوری کا درجہ چیک کریں۔
"کچھ تصدیق شدہ کالونیاں اپنے فیز ٹو یا توسیع کے نام پر پلاٹ سیل کرنا شروع کردیتی ہیں جو غیر قانونی ہے۔ حال ہی میں ہم نے ایڈمز ہاؤسنگ سکیم کے توسیعی حصے کو غیر قانونی قرار دیا ہے کیونکہ اس کی اجازت نہیں لی گئی"۔
ایم ڈی اے کے ترجمان سید جاوید عباس بخاری کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ادارے کا فیلڈ سٹاف غیر قانونی کالونی کے بارے میں پہلے رپورٹ کرتا ہے ٓ جس کے بعد ایم ڈی اے انتظامیہ متعلقہ ہاؤسنگ کالونی کے مالکان کو نوٹس جاری کرتی ہے۔ مالکان پہلے نوٹس پر دستاویزات کے ساتھ پیش نہیں ہوتے تو پھر دوسرا نوٹس جاری کردیا جاتا ہے اگر اس پر بھی مالکان دستاویزات کے ساتھ پیش نہیں ہوتے تو پھر تین مختلف کار روائیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔
ان غیر قانونی ہاوسنگ سکیموں میں ایک ہی پلاٹ کئی خریداروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے
"سب سے پہلے ایم ڈی اے کا انفورسمنٹ سیل جا کر اس ہاؤسنگ کالونی کا دفتر سیل کردیتا ہے۔ اگر وہ فائلیں فروخت کرنے کا کام جاری رکھتے ہیں تو دوسری کالونی کی سڑک اور سیوریج کا نظام توڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ایم ڈی اے کے قواعد و ضوابط پر عمل نہ کریں تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کارر وائی عمل میں لائی جاتی ہے"۔
ترجمان نے بتایا کہ ملتان میں 30کے قریب غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف مقدمات درج کیے جاچکے ہیں جن میں سفاری ٹاؤن بہادر پور بوسن روڈ ، پیراڈائز ہاؤسنگ کالونی بدھلہ روڈ ، القاسم ٹاؤن وہاڑی روڈ، پی آئی اے ہاؤسنگ سکیم پبلک سکول روڈ، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم نواب پور روڈ شامل ہیں۔
متاثرین داد رسی کے لیے کہاں جائیں؟
ملک محمد آصف پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور دیوانی مقدمات کے ماہر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے متاثرین کی فوری داد رسی کا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔
"ماضی میں نیب کے پاس اختیار تھا کہ اگر کسی ہاؤسنگ کالونی کے 50 متاثرین انکے پاس شکایت لے کر پہنچ جاتے تھے تو وہ براہ راست مالکان کے خلاف کارروائی شروع کر دیتے تھے۔ لیکن اب نیب ترامیم میں یہ اختیار ختم ہو چکا ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ اب متاثرہ شخص عدالت میں صرف رقم کی ریکوری کا دعویٰ دائر کرتے ہیں۔
"ایسے دیوانی مقدمے سالہا سال چلتے ہیں"۔
ان کا کہنا ہے کہ ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی صرف نوٹس جاری کرتی ہے یا مشتری ہوشیار باش کے نام سے اخبارات میں اشتہار دے دیتی ہے۔
ایم ڈی اے کے ترجمان یاور بخاری نے بتایا کہ متاثرین کی شنوائی کے لیے ایم ڈی اے میں علیحدہ سیل بنایا جارہا ہے جو ان نجی ہاؤسنگ کالونی مالکان کیخلاف تیز کارروائی عمل میں لائے گا۔
فراڈ کیسے ہوتا ہے؟
ملک آصف کا کہنا ہے کہ ہوتا یوں ہے کہ کالونی مالکان کے پاس اتنے پلاٹ ہوتے نہیں جتنے وہ فروخت کر دیتے ہیں۔
"جو لوگ پلاٹوں کی باقائدگی سے دیکھ بھال نہیں کرتے یا کسی مجبوری کے باعث چکر نہیں لگا سکتے ایسے پلاٹوں کا قبضہ کسی اور کو دے دیا جاتا ہے"۔
ملتان شہر میں پراپرٹی کے کام سے وابستہ ملک شعیب لابر ملک آصف کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض مرتبہ کالونی مالکان پلاٹوں سے زیادہ فائلیں بیچ دیتے ہیں۔
ملک شعیب کے مطابق جو لوگ قسطیں بروقت ادا نہیں کرتے مالک ان کو انتقال یا قبضہ نہیں دیتا اور پلاٹ کسی اور بیچ دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہاؤسنگ کالونی کے مالکان پلاٹ فروخت کرنے سے پہلے جن سہولیات کا وعدہ کرتے ہیں انہیں پورا نہیں کرتے جس کی وجہ سے فریقین کے درمیان تنازع کھڑا ہوجاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
گوجرانوالہ میں جعلی پیرس
"تاہم سب سے بٖڑی وجہ زمینوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے ریٹ ہیں۔ وہ اس کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کسی نے ایک لاکھ روپے مرلہ کے حساب سے قسطوں پر پلاٹ خریدا لیکن جب قسطیں مکمل ہوئیں تو اس جگہ کی قیمت چار سے پانچ گنا بڑھ چکی ہے۔ اس صورتحال میں اکثر مالک بے ایمان ہو جاتے ہیں اور وہ مزید رقم کا تقاضہ کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں اسے زیادہ قیمت پر کسی اور کو بیچ دیتے ہیں"۔
ملک شعیب لابر کہتے ہیں کہ ایم ڈی اے سمیت تمام ادارے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
سیکرٹری ہاؤسنگ جنوبی پنجاب، محمد آصف چودھری کہتے ہیں کہ غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ کالونیوں کی تشہیر اہم مسئلہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کرنے کے لیے پیمرا اور میڈیا ہاؤسز سے بات چیت جاری ہے۔
تاریخ اشاعت 2 مارچ 2023