غیرت کے نام پر قتل: 'جب تک معاشرہ ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گا تب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے'

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

postImg

غیرت کے نام پر قتل: 'جب تک معاشرہ ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گا تب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے'

ماہ پارہ ذوالقدر

میانوالی کی ریحانہ نے عابد کے ساتھ کورٹ میرج کی تھی۔ دونوں کی ذات میں فرق کے باعث ریحانہ کا خاندان اس شادی کا سخت مخالف تھا۔ اس لیے وہ تحفظ کے لیے شوہر کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئیں۔

ایک سال بعد انہوں نے تعلقات بحال کرنے کے لیے اپنے گھر رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ حاملہ ہیں۔ گھر والوں نے کہا کہ وہ انہیں 'معاف' کر چکے ہیں اور وہ جب چاہیں واپس آ سکتی ہیں۔ جب ریحانہ گھر والوں سے ملنے گئیں تو ان کے بھائی نے انہیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔

ملزم کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا لیکن والد نے دیت کے قانون کے تحت اپنے بیٹے کو بہن کا قتل معاف کر دیا جس پر مقدمہ ختم ہو گیا۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مخصوص قوانین کی موجودگی کے باوجود ایسے واقعات عام ہیں جنہیں پنجاب میں عام طور پر کالا کالی، سندھ میں کاروکاری، خیبرپختونخوا میں تور تورا اور بلوچستان میں سیاہ کاری کہا جاتا ہے۔

2004 میں حکومت نے پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل کو قتل عمد قرار دے کر اس کی سزا موت یا عمر قید مقرر کر دی تھی۔ اس سے پہلے ایسے واقعات کو عام قتل میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس ایکٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ قاتل ولی کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔

تاہم یہ قانون عملی طور پر بے اثر رہا۔ چونکہ ایسے واقعات میں قاتل عموماً قریبی رشتہ دار ہی ہوتا تھا اس لیے مقتول کے ورثاء دیت کے قانون کے تحت اسے معاف کر دیتے تھے اور اس طرح قاتلوں کو گویا کھلی چھوٹ حاصل تھی۔

ڈسٹرکٹ کورٹ میانوالی میں وکالت کرنے والے عرفان الحسن کہتے ہیں کہ اس قانون سازی کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو باقاعدہ جرم تو قرار دے دیا گیا لیکن اس قانون میں اس قدر سقم تھے کہ قاتل صاف بچ نکلتا تھا۔ دیت کے قانون کی موجودگی میں ورثاء قاتل کو معاف کر دیتے تھے اور وہ چند ہی ماہ میں رہا ہو جاتا تھا۔

چنانچہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کوئی کمی نہ آئی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2004 سے 2016 کے درمیان ایسے 15 ہزار 222 واقعات رپورٹ ہوئے۔ پنجاب پولیس کے مطابق صرف میانوالی میں  ہی 2011 سے 2016 کے درمیان غیرت کے نام پر 73 افراد کی جان لے لی گئی۔

2016 میں قندیل بلوچ کے قتل کے بعد اس قانون میں مزید ترمیم کی گئی جس کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو فساد فی الارض میں شمار کیا گیا اور اب ولی قاتل کو معاف نہیں کر سکتا۔ اس میں دوسری اہم بات یہ تھی کہ ولی قصاص کے تحت سزائے موت کو معاف کر سکتا ہے لیکن تعزیر کے تحت عمر قید کی سزا معاف نہیں کر سکتا۔ اس میں تیسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں تعزیر کی سزا عمر قید ہو گی۔

اس ترمیم کے بعد اب پولیس نے ایسے مقدمات تعزیرات پاکستان کے سیکشن 302 اور 311 کے تحت درج کرنا شروع کر دیے۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میانوالی کے رکن شاہد خان کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین کافی حد تک سخت کر دیے گئے ہیں۔ اب کوئی مجرم سزائے موت سے بچ بھی جائے تو اس کے لیے عمر قید کی سزا سے بچنا آسان نہیں ہوتا۔
لیکن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد وشمار اس بات کی تصدیق نہیں کرتے۔

اس قانو ن کی منظوری کے بعد اکتوبر 2016 سے جون 2017 تک نو مہینوں میں غیرت کے نام پر قتل کے 280 واقعات رپورٹ ہوئے۔ عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2017 میں صرف 7 افراد کو سزا ہوئی۔

سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میانوالی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رضوان احمد سمجھتے ہیں کہ صرف قوانین سخت کر دینے سے ایسے واقعات کی مکمل روک تھام ممکن نہیں ہے۔ جب تک معاشرے کا اجتماعی شعور ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گا تب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے۔

ماہر قانون علینہ خان کہتی ہیں کہ ان قوانین میں اب بھی بہت سے سقم ہیں۔ اکثر ایسے قتل کو غیرت کے نام پر قتل ثابت ہی نہیں کیا جاتا جس سے ورثا کو معاف کرنے کا آپشن مل جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ناقص تفتیش اور کمزور عدالتی کارروائی: پنجاب میں ایک سال میں غیرت کے نام پر قتل 20 فیصد بڑھ گئے۔

ایسا ایک واقعہ گزشتہ برس تحصیل عیسیٰ خیل میں پیش آیا جہاں صائمہ بی بی نامی خاتون کو اس کے خالہ زاد بھائی نے قتل کر دیا تھا۔ صائمہ کی شادی پانچ سال پہلے کامران سے ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے صائمہ ایک اور شخص کے ساتھ چلی گئی اور پھر واپس آ گئی جبکہ کامران نے اسے دوبارہ قبول کر لیا تھا۔ تاہم صائمہ کے خالہ زاد بھائی قیصر کو اس کا رنج تھا جس نے فائرنگ کر کے صائمہ کو قتل کر دیا۔

جب اس واقعے کا مقدمہ چلا تو دونوں خاندانوں نے اسے قتل کا عام واقعہ قرار دیا۔ اس دوران صائمہ کے خاندان کی جانب سے ولی نے قاتل کو معاف کر دیا اور یوں ملزم کو رہائی مل گئی۔

علینہ خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قانون میں ایسے قتل کو ابھی تک ریاست کے خلاف جرم قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ قانون صرف قتل کو زیرِ بحث لاتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل کی کوشش میں بچ جانے والے افراد (جو عموماً خواتین ہوتی ہیں) کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

 

تاریخ اشاعت 14 اپریل 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.