معاشرتی دباؤ: مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط کے نتیجے میں ایڈز کا شکار ہونے والے مرد تشخیص اور علاج سے گریزاں۔

postImg

فریال احمد ندیم

postImg

معاشرتی دباؤ: مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط کے نتیجے میں ایڈز کا شکار ہونے والے مرد تشخیص اور علاج سے گریزاں۔

فریال احمد ندیم

نوید اقبال چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ جب 2015 میں ان کے والد کا انتقال ہوا تو ان کی عمر صرف 17 سال تھی لیکن ان کے بڑے بھائیوں کا اصرار تھا کہ وہ اب گھرداری چلانے میں اپنا مالی حصہ ڈالیں۔ 

شمال مشرقی لاہور میں واقع شالیمار ٹاون کے رہائشی نوید اس وقت کالج میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے اگلے دو سال اسی الجھن میں گزار دیے کہ وہ اپنے بھائیوں کا مطالبہ کیسے پورا کریں۔ پھر ایک دن ان کے پڑوس میں رہنے والے ایک شخص، افضال خالد، نے انہیں ایک ایسا راستہ دکھایا جو ان کے گمان میں بھی نہیں تھا۔ 

اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے نوید اعتراف کرتے ہیں کہ ہائی سکول میں پڑھنے کے دوران انہیں لڑکیوں کی نسبت لڑکے زیادہ اچھے لگنے لگے تھے۔ وہ سکول کے عملے کے کچھ مردوں کی فرمائش پر ان کے جسم کے پوشیدہ حصوں کو بھی چھوتے رہتے تھے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اِس طبعی میلان کو اپنے خاندان اور اپنے پڑوسیوں سے خفیہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ 

افضال نے پھر بھی کسی طرح اس کا پتہ چلا لیا تھا۔

چنانچہ اس نے نوید کو کہا کہ وہ اس کے ایک دوست کے ساتھ کچھ وقت گزاریں جس کے بدلے میں انہیں 600 روپے ملیں گے۔ چند دن اس پیش کش پر سوچ بچار کرنے کے بعد بالآخر انہوں نے ہاں کر دی۔ اگلے دو سال وہ افضال کی معرفت مختلف لوگوں سے ملتے رہے اور پیسے لے کر ان کی نفسانی خواہشات پوری کرتے رہے۔

لیکن 2019 میں وہ اچانک بیمار پڑ گئے۔ 

اپنے کام کی نوعیت کے پیشِ نظر ابتدا میں وہ اپنا طبی معائنہ کرانے سے گریزاں رہے لیکن جب ان کی بیماری لمبی ہو گئی تو اُس سال اکتوبر میں ایک دوست کی تجویز پر انہوں نے اپنے خون کا معائنہ کرایا جس سے انہیں پتہ چلا کہ وہ ایڈز کے وائرس، ایچ آئی وی، کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "اس انکشاف نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ مجھے ایسا لگا کہ میری زندگی ختم ہو گئی ہے"۔ 

ان کی مایوسی اس قدر بڑھی کہ انہوں نے خود کُشی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا لیکن پھر چند دوستوں کے توسط سے ان کا رابطہ دوستانہ میل ہیلتھ سوسائٹی نامی ایک غیر سرکاری تنظیم سے ہوا جو مردوں کے ساتھ جنسی روابط کی وجہ سےایچ آئی وی اور ایڈز کا شکار ہونے والے مردوں کو طبی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ 

اس تنظیم کے عملے نے انہیں فوری طور پر ایسی دوائیاں دینا شروع کیں جو ایچ آئی وی کو پھیلنے اور ایڈز میں تبدیل ہونے سے روکتی ہیں۔ جلد ہی انہیں تنظیم کا حصہ بھی بنا لیا گیا تا کہ وہ اپنی طرح کے دوسرے مردوں کو اس بیماری سے بچنے اور اس کا علاج کرانے کے بارے میں آگاہی فراہم کر سکیں۔ 

نوید کے علاج کے دوران انہیں میو ہسپتال میں کام کرنے والی ایک ماہرِ نفسیات کے پاس بھی بھیجا گیا جس سے ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ "یہ میری زندگی کا بدترین تجربہ تھا کیونکہ جب میں نے اس کو بتایا کہ میں خودکشی کرنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کہ اچھا ہی ہے اگر میں ایسا کر لوں کیونکہ مجھ جیسے لوگوں کو معاشرے میں رہنے کا کوئی حق نہیں"۔ 

(نوید کو اس طرح کے مزید منفی ردِ عمل سے بچانے کے لیے اس رپورٹ میں ان کا اصلی نام نہیں لکھا جا رہا۔ ان کے اس پڑوسی کا بھی اصل نام خفیہ رکھا جا رہا ہے جس نے ان کے بقول انہیں اپنا جسم بیچنے کے کام پر لگایا۔) 

ایڈز: ایک پوشیدہ مرض 

تصور حسین کو اوائلِ جوانی میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ جنسی اعتبار سے عورتوں کے بجائے مردوں کی طرف مائل ہیں۔ اسی لیے وہ شادی سے گریزاں رہتے تھے۔ تاہم 2001 میں اپنے اہلِ خانہ کے اصرار پر انہیں شادی کرنا ہی پڑی۔ 

شادی کے چار سال بعد تصور سعودی عرب چلے گئے۔ وہاں وہ دن کو ملازمت کرتے اور رات کے وقت پیسے لے کر دوسرے مردوں کی جنسی خواہشات کی تسکین کرتے۔ لیکن ایک سال بعد انہیں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔

جب انہوں نے دوبارہ سعودی عرب کے ویزے کے لیے درخواست دی اور اس مقصد کے لیے اپنا طبی معائنہ کرایا تو انہیں پتہ چلا کہ انہیں آتشک کا مرض لاحق ہو چکا ہے جو جسمانی تعلقات کے نتیجے میں ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہوتا ہے۔ 

چھ ماہ علاج کرانے کے بعد جب انہوں نے دوبارہ اپنا طبی معائنہ کرایا تو ان کے خون میں ایچ آئی وی پایا گیا۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ اب وہ کبھی سعودی عرب نہیں جا سکیں گے اس لیے انہوں نے لاہور میں واقع اپنی رہائش گاہ کے قریب ہی کپڑوں پر کشیدہ کاری کرنے کا کام شروع کر دیا۔ 

تصور کہتے ہیں کہ اُس دور میں ایچ آئی وی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور اس کا علاج فراہم کرنے کے لیے بہت کم غیر سرکاری تنظیمیں موجود تھیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کے پاس جانا پڑا۔ ان کے مطابق یہ ڈاکٹر ان کے ساتھ بہت منفی رویہ رکھتے تھے اور انہیں کہتے تھے کہ یہ بیماری ان کے جنسی رجحانات کی سزا ہے۔ 

دوستانہ میل ہیلتھ سوسائٹی کے سربراہ رضا حیدر اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ایچ آئی وی اور ایڈز میں مبتلا بیشتر مرد اپنا علاج نہیں کراتے کیونکہ "انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اپنی بیماری ظاہر کرنے سے انہیں معاشرے کے ناقابلِ برداشت اخلاقی  دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا"۔

ان کے مطابق جب کسی شخص کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے خون میں ایڈز کا وائرس پایا گیا ہے تو اسے شدید ذہنی کوفت کا سامنا ہوتا ہے لہٰذا "معالجوں کو چاہیے کہ وہ ایسے افراد کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنے کا درس دینے کے بجائے انہیں دلاسہ دیں اور اس بیماری کے علاج کے طریقے بتائیں"۔ 

تصور کی خوش قسمتی تھی کہ کسی طرح سے ان کا رابطہ دوستانہ میل ہیلتھ سوسائٹی سے ہو گیا جو پچھلے کئی سال سے انہیں ایچ آئی وی کو قابو میں رکھنے کے لیے دوائیاں استعمال کرا  رہی ہے۔ اب وہ خود بھی اسی تنظیم میں کام کرتے ہیں اور ایڈز اور ایچ آئی وی کے بارے میں آگاہی پھیلاتے ہیں۔ 

لیکن انہوں نےابھی بھی اپنی بھابھی کے علاوہ اپنے خاندان کے کسی فرد کو اپنی بیماری کے بارے میں آگاہ نہیں کیا (اسی لیے اس رپورٹ میں بھی ان کا اصلی نام نہیں استعمال کیا جا رہا)۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی کو بتا دیتے کہ ان کے خون میں ایچ آئی وی  موجود ہے تو وہ انہیں چھوڑ کر چلی جاتی اور یوں ان کے چار بچوں کا مستقبل خراب ہو جاتا۔

ایچ آئی وی اور ایڈز کو خفیہ رکھنے کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے رضا حیدر کہتے ہیں کہ اس کی ایک اہم وجہ ان بیماریوں کا مریضوں کے جنسی رجحانات سے تعلق ہے۔ ان کے مطابق، "ہمارے معاشرے میں مردوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھنے والے مردوں کو اس قدر نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کا وجود بھی برداشت نہیں کرتے۔ اسی لیے ان کے خلاف جرائم کے واقعات تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں"۔

رضا حیدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے ریاست نے ایسے قوانین بنا دیے ہیں جن کی وجہ سے ان کی جنسی ترجیحات غیر قانونی قرار پائی ہیں۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر اِن منفی سماجی رویوں اور ریاستی پابندیوں کی اصلاح نہ کی گئی تو پاکستان میں "ایچ آئی وی اور ایڈز کے پھیلنے کا خطرہ بڑھتا رہے گا"۔ 

ایڈز مردوں میں زیادہ کیوں پھیل رہی ہے؟ 

پاکستان میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے مردوں میں ایچ آئی وی سے متاثر ہونے کی شرح بالغ عورتوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایڈز پروگرام (یو این اے آئی ڈی ایس) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 60 ہزار بالغ مرد ایچ آئی وی اور ایڈز کا شکار ہیں جبکہ اسکے مقابلے میں ان سے متاثرہ بالغ عورتوں کی تعداد 38 ہزار ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن پاکستانیوں میں صرف 2020 کے دوران ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی ان میں مردوں اور عورتوں کی تعداد بالترتیب 19 ہزار اور چار ہزار آٹھ سو تھی۔ اسی طرح پچھلے سال ایڈز کے باعث پاکستان میں انتقال کرنے والوں میں عورتوں کی تعداد 11 سو جبکہ مردوں کی تعداد چھ ہزار دو سو تھی۔

اسی طرح نیشنل ایڈز پروگرام کے تحت 2016-17 میں کیے گئے ایک سروے نے بھی یہ انکشاف کیا ہے کہ اپنا جسم بیچ کر روزی کمانے والے مردوں کو ایچ آئی وی اور ایڈز لگنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔ 

یو این اے آئی ڈی ایس کے مطابق عورتوں کی نسبت مردوں میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے زیادہ  پھیلاؤ کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں قومی سطح پر ان امراض سے بچاؤ کے پروگراموں میں ایسے مردوں کو عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو دوسرے مردوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتے ہیں۔ اس ادارے کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان میں پیسوں کا لین دین کیے بغیر اپنی مرضی سے مردوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھنے والے مردوں کی تعداد آٹھ لاکھ 32 ہزار دو سو ہے جو پیسے لے کر جنسی خدمات مہیا کرنے والے مردوں، عورتوں اور مخنثوں کی مجموعی تعداد سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔
لیکن لاہور کے ایک بڑے سرکاری طبی مرکز، جناح ہسپتال، میں قائم کیے گئے ایڈز سیل کے سربراہ ڈاکٹر محمد ارشد ان اعداد و شمار کو صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ 

وہ گزشتہ ایک دہائی سے ایچ آئی وی اور ایڈز سے متعلقہ مراکزِ صحت سے منسلک ہیں اور کہتے ہیں کہ مردوں کو ایچ آئی وی یا ایڈز اس لیے زیادہ لاحق ہو تی ہے کہ وہ خواتین کی نسبت منشیات کے استعمال اور طبی لحاظ سے دیگر خطرناک کاموں میں زیادہ ملوث ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق، مردوں میں ایڈز کے وائرس کے داخلے کی وجہ محض ان کی جنسی سرگرمی نہیں ہوتی اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اپنا جسم بیچ کر روزی کمانے والے مردوں میں اس وائرس کے پھیلنے کا خطرہ اسی پیشے سے منسلک عورتوں میں اس کے پھیلنے کے خطرے سے زیادہ ہوتا ہے۔ 

پنجاب کے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر میں ایڈیشنل سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر عاصم الطاف بھی یو این اے آئی ڈی ایس کے جاری کردہ اعداد و شمار کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں ایسی غیر سرکاری تنظیموں نے اکٹھا کیا ہے جو پاکستان میں ایڈز کے حوالے سے "غلط معلومات پھیلاتی رہتی ہیں"۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان تنظیموں کو ایچ آئی وی اور ایڈز کے تمام مریضوں تک مکمل رسائی نہیں ہوتی اس لیے ان کی طرف سے کیا گیا کوئی سروے "قابلِ اعتماد نہیں ہو سکتا"۔ 

دوسری طرف ڈاکٹر وحید زمان طارق خبردار کرتے ہیں کہ ان اعداد و شمار کو نظر انداز کرنا جسم بیچنے والے مردوں کی صحت کے لیے شدید خطرناک ہو سکتا ہے۔ وہ یو این اے آئی ڈی ایس کی عالمی ٹاسک فورس کے رکن ہیں اور لاہور کی چغتائی لیب میں وائرسوں سے پھیلنے والی بیماریوں کے ماہر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے مردوں میں پہلے ہی ایچ آئی وی اور ایڈز کے بارے میں آگاہی کا شدید فقدان ہے جس کی وجہ سے ان میں سے بیشتر کبھی اپنا علاج ہی نہیں کراتے۔ 

یواین اے آئی ڈی ایس کی رپورٹ بھی ظاہر کرتی ہے کہ علاج کے حوالے سے صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے۔ اس کے مطابق  پاکستان میں اپنا جسم بیچنے والے مردوں میں سے 3.7 فیصد کے خون میں ایڈز کا وائرس پایا جاتا ہے لیکن اس طبقے کے صرف 1.2 فیصد مردوں کو ایچ آئی وی کی روک تھام کے پروگراموں تک رسائی حاصل ہے۔ 

ڈاکٹر طارق کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایڈز اور ایچ آئی وی کے بارے میں مناسب آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ امراض چھوٹی عمر کے مردوں میں تیزی سے پھیل رہے ہیں کیونکہ ان میں سے کئی ایک بے روزگاری اور خراب گھریلو حالات کی بنا پر بچپن میں ہی جنسی طور پر سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بچے "عموماً ٹرک اڈوں، چائے خانوں اور حجام کی دکانوں میں کام کرتے ہیں اور عام طور پر 'چھوٹے' کے نام سے جانے جاتے ہیں"۔ 

نیشنل ایڈز پروگرام کے تحت 17-2016 میں کیا گیا سروے ان کی بات کی تائید کرتا ہے۔ اس سروے میں چھ ہزار سات سو 73 ایسے مردوں سے بات کی گئی تھی جن کے دوسرے مردوں سے جسمانی تعلقات تھے۔ ان میں سے 90 فیصد کی عمر 30 سال سے کم تھی جبکہ 84.3 فیصد ایسے تھے جن کا قانونی طور پر بچوں میں شمار ہوتا ہے۔ 

تاریخ اشاعت 22 ستمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فریال احمد ندیم نے کنیئرڈ کالج لاہور سے عالمی تعلقات میں بی ایس آنرز کیا ہے۔ وہ صحت اور تعلیم سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.