لیاقت پور تحصیل ہسپتال: 'انتہائی نگہداشت کا یونٹ فعال ہوتا تو جان بچ سکتی تھی'

postImg

وحید رُشدی

postImg

لیاقت پور تحصیل ہسپتال: 'انتہائی نگہداشت کا یونٹ فعال ہوتا تو جان بچ سکتی تھی'

وحید رُشدی

رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے رہنے والے غلام قادر اپنی بکریوں کے لئے سبز پتے حاصل کرنے درخت پر چڑھے تو پاؤں پھسلنے کے باعث زمین پر آ گرے۔ اس حادثے میں ان کی ریڑھ کی ہڈی بری طرح متاثر ہوئی اور وہ گہری بیہوشی میں چلے گئے۔ اہلخانہ فوری طور پر انہیں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال لائے جہاں ڈاکٹروں نے انہیں بہاولپور منتقل کرنے کے لئے کہہ دیا۔

لیاقت پور سے دو گھنٹے کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب انہیں بہاولپور کے بہاول وکٹوریا ہسپتال لایا گیا تو سفر میں لگنے والے جھٹکوں سے ان کی ریڑھ کی ہڈی کا فریکچر مزید بگڑ چکا تھا۔ غلام قادر کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا جہاں وہ چند روز بعد انتقال کر گئے۔

غلام قادر کے ورثا کا کہنا ہے کہ اگر لیاقت پور کے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کا یونٹ (آئی سی یو) فعال ہوتا تو ان کی جان بچ سکتی تھی۔

لیاقت پور کی سویٹس اینڈ بیکرز ایسوسی ایشن کے صدر اصغر علی بیرا موٹرسائیکل کے حادثے میں شدید زخمی ہوئے تو انہیں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں لے جایا گیا لیکن وہاں ان کے فوری علاج کی سہولیات موجود نہیں تھیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں رحیم یار خان کے شیخ زاید ہسپتال ریفر کیا لیکن وہ راستے میں ہی انتقال کر گئے۔

تحصیل ہسپتال میں آئی سی یو سمیت کئی شعبہ جات فعال نہ ہونے کے باعث بہت سے لوگ ایسی چوٹوں اور امراض کے سبب انتقال کر جاتے ہیں جن کا بروقت علاج ہونے کی صورت میں ان کی جان بچ سکتی ہے۔

<p>لیاقت پور کا انتہائی نگہداشت کا یونٹ 3 سال سے عملے اور مشینری کا انتظار کر رہا ہے<br></p>

لیاقت پور کا انتہائی نگہداشت کا یونٹ 3 سال سے عملے اور مشینری کا انتظار کر رہا ہے

2020 میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں 82 لاکھ روپے کی لاگت سے دس بستروں پر مشتمل آئی سی یو قائم کرنے پر کام شروع ہوا تھا جو اس سے اگلے سال مکمل ہو گیا اور محکمہ بلڈنگ نے اس کی عمارت ہسپتال انتظامیہ کے سپرد کر دی۔ لیکن تاحال اس یونٹ میں نہ تو کوئی مشینری نصب کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔ فی الوقت اس عمارت میں بچوں کا شعبہ کام کر رہا ہے اور انتہائی نگہداشت کے ضرورت مند مریضوں کو بہاولپور اور رحیم یار خان بھیج دیا جاتا ہے۔

اکتوبر 2019 میں لیاقت پور کی حدود میں چلتی ٹرین پر آگ لگنے سے 85 افراد زندہ جل گئے تھے۔ اس حادثے میں زخمی ہونے والے بہت سے مریضوں کو ابتداً تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیاقت پور منتقل کیا گیا مگر برن یونٹ کی سہولت نہ ہونے کے باعث انہیں بہاولپور اور رحیم یار خان بھیجنا پڑا اور زیادہ جھلسنے والے مسافروں کو پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ملتان کے نشتر ہسپتال پہنچایا گیا۔

حادثے کے بعد اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں برن یونٹ بنانے کا اعلان کیا لیکن بات اعلان سے آگے نہ بڑھ سکی۔

ایک ماہ قبل اس ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کا عہدہ سنبھالنے والے ڈاکٹر بلال رحمانی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہوں نے سب سے پہلے ہسپتال میں ڈائلیسس سنٹر فعال کرنے کی کوشش کی ہے جس پر کافی کام ہو چکا ہے۔ آئی سی یو کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سابق میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی رحیم یار خان کے چیف ایگزیکٹو کو اس یونٹ میں عملہ اور مشینری فراہم کرنے کے لئے ڈیمانڈ لیٹر لکھے تھے لیکن تاحال ان کا جواب نہیں آیا۔

<p>آئی سی یو فعال نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو 1122 پر مالی بوجھ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے<br></p>

آئی سی یو فعال نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو 1122 پر مالی بوجھ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے

''آئی سی یو میں عملے کی تعیناتی اور اس کی تعداد کا فیصلہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی نے کرنا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ ہمیں اعتماد میں لے۔ مشینری کی فوری فراہمی اور عملے کی تعیناتی کے لئے ہم اتھارٹی کو دوبارہ لیٹر بھجوا رہے ہیں۔ آئی سی یو کی نئی عمارت کو بند رکھنے سے اس کے خراب ہونے کا اندیشہ تھا اس لئے یہاں عارضی طور پر شعبہ اطفال قائم کیا گیا ہے۔''

تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کا علاقہ صوبائی اسمبلی کے حلقے 257 کی حدود میں آتا ہے جہاں سے منتخب رکن اسمبلی چوہدری مسعود احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے حلقے کے لئے ملنے والی گرانٹ سے ہسپتال میں سہولیات پوری کرنے کے لئے 20 کروڑ روپے فراہم کئے تھے جن سے آئی سی یو کی مشینری بھی خریدی جانا تھی لیکن تاحال اس کے لئے ٹینڈر بھی جاری نہیں ہو سکے۔

اس سلسلے میں جب ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر خان وزیر سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نہ تو انہوں نے ٹیلی فون اٹینڈ کیا اور نہ ہی واٹس ایپ پر بھیجے گئے پیغام کا کوئی جواب دیا۔
تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں آئی سی یو فعال نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو 1122 پر مالی بوجھ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لیاقت پور کا ڈائلیسز سنٹر: دس سال سے کھڑی خالی عمارت

لیاقت پور میں ادارے کے ریسکیو اینڈ سیفٹی آفیسر عمران ساجد کے مطابق جب ان کے اہلکار زخمیوں کو ہسپتال کے شعبہ حادثات میں لاتے ہیں تو انتہائی نگہداشت کے متقاضی مریضوں کو بہاولپور یا رحیم یار خان منتقل کرنے کے لئے کہہ دیا جاتا ہے جس سے ادارے پر مالی بوجھ بڑھ جاتا ہے اور عملے کی کمی کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہد اقبال رانا کہتے ہیں کہ حادثاتی ٹراما، فالج، ہارٹ اٹیک، برین ہیمرج اور آگ سے متاثرہ افراد سمیت ہر اس مریض کو فوری طور پر آئی سی یو میں داخل کرنا لازمی ہوتا ہے جس کی حالت تشویشناک ہو اور اسے مصنوعی تنفس کی ضرورت ہو۔ لیاقت پور اور گردونواح کی بہت بڑی آبادی کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے لئے ہسپتال میں آئی سی یو کو جلد از جلد فعال کیا جانا ضروری ہے۔

تاریخ اشاعت 2 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وحید رُشدی, لیاقت پور، ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔ علاقائی اور سیاسی و سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.