افغانستان کی شیعہ ہزارہ آبادی: 'ہمارا عقیدہ اور ہماری نسلی شناخت ہمارے پیدائشی جرائم بن گئے ہیں'۔

postImg

کلیم اللہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

افغانستان کی شیعہ ہزارہ آبادی: 'ہمارا عقیدہ اور ہماری نسلی شناخت ہمارے پیدائشی جرائم بن گئے ہیں'۔

کلیم اللہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

جب 15 اگست 2021 کو طالبان نے کابل کا انتظام سنبھالا تو نادیہ فہمی افغان وزارت خزانہ میں ڈیٹا انٹری مینجر کے طور پر  کام کر رہی تھیں۔حکومت کی تبدیلی کی خبر سن کر وہ بہت پریشان ہو گئیں اور فوری طور پر اپنے گھر چلی گئیں۔

تاہم چند روز بعد جب نئی حکومت نے اعلان کیا کہ سرکاری ملازم  اپنے کام پر واپس آ سکتے ہیں تو وہ بھی اپنے دفتر پر پہنچ گئیں۔ مگر وہاں موجود طالبان حکام نے انہیں یہ کہہ کر گھر واپس بھیج دیا کہ اب خواتین دفتروں میں کام نہیں کریں گی۔

اقلیتی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ نادیہ نے افغانستان سے بی بی اے کرنے کے بعد انڈیا سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کی سابقہ حکومت میں بہت سی خامیاں تھیں لیکن "اس کے باوجود ان کی زندگی اچھی گزر رہی تھی اور ان کی تینوں بیٹیاں بلا خوف و خطر اچھی تعلیم حاصل کر رہی تھی"۔

سابقہ حکومت کے دور میں وہ برقعہ نہیں پہنتی تھیں اور دفتر آنے جانے اور دوسرے گھریلو اور تفریحی کاموں کی انجام دہی کے لیے اپنی گاڑی خود ہی چلاتی تھیں۔ وہ بازار میں اکیلے خریداری بھی کر لیتی تھیں۔ اس کے برعکس طالبان نے حکومتی انتظام سنبھالتے ہی حکم جاری کیا کہ عورتیں اپنا پورا جسم اچھی طرح ڈھانکے بغیر گھر سے نہ نکلیں۔ انہیں گاڑیاں چلانے سے بھی روک دیا گیا۔ حتیٰ کہ اپنے خاندان کے کسی مرد کو ساتھ لیے بغیر ان کے بازار جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔

نادیہ کہتی ہیں کہ ان احکامات نے انہیں اپنے بچپن کا زمانہ یاد کرا دیا جب 1996 سے لے کر 2001 تک افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اور عورتوں کے لیے ملازمت کرنا تو ایک طرف تعلیم حاصل کرنا بھی ناممکن تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی بیٹیاں بھی اس طرح کے "تاریک حالات میں" بڑی ہوں۔

لیکن اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ افغانستان چھوڑ دیں۔ لہٰذا اگست کے آخری ہفتے میں وہ اپنے شوہر اور بچیوں سمیت پاکستان آ گئیں۔ اب وہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں مقیم ہیں۔

پاکستان آنے کے بعد وہ اس بات پر تو خوش ہیں کہ یہاں ان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں لیکن انہیں یہ خدشہ ضرور رہتا ہے کہ پاکستانی حکام انہیں پکڑ کر کہیں دوبارہ افغانستان نہ بھیج دیں۔اس خدشے کے پیشِ نظر وہ غیر ضروری طور پر اپنی رہائش گاہ سے باہر نہیں جاتیں (اور اسی وجہ سے اپنا اصلی نام بھی پوشیدہ رکھنا چاہتی ہیں)۔

ہزارہ شیعہ افغانستان کیوں چھوڑ رہے ہیں؟

نادیہ کے 45 سالہ شوہر تعلیمی اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے وہ کابل میں ایک ایسی کمپنی میں ملازم تھے جو امریکا کے سرکاری امدادی پروگرام کےتحت چل رہی تھی۔ چونکہ ان کے محلے والوں کو ان کی ملازمت کے بارے میں معلوم تھا اس لئے انہیں ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی طالبان کو ان کے بارے میں بتا نہ دے کیونکہ طالبان نے شہر کا نظم و نسق سنبھالتے ہی ایسے لوگوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا تھا جو امریکہ کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کا ملازم ہونے کے علاوہ طالبان کی نظر میں انہوں نے "اپنی پیدائش کے وقت سے دو اور جرائم بھی کیے ہوئے تھے جن میں ایک ہزارہ ہونا اور دوسرا شیعہ ہونا ہے" (کیونکہ وہ خود سارے کے سارے سنّی اور زیادہ تر پختون ہیں)۔

وہ کہتے ہیں کہ بظاہر افغان طالبان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن عملی طور پر افغانستان میں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ان کے مطابق ان کے آبائی صوبے دائیکونڈی میں طالبان مذہبی اور نسلی امتیاز کی بنا پر شیعہ ہزارہ خاندانوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال رہے ہیں اور ان کی زمینوں پر قبضے کر رہے ہیں۔

ان کے اس الزام کی توثیق انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے حالیہ ہفتوں میں سینکڑوں شیعہ ہزارہ خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق افغان طالبان نے جولائی 2021 میں افغانستان کے صوبے غزنی پر قبضہ کرنےکے بعد وہاں ہزارہ برادری کے نو افراد کو قتل کر دیا تھا۔

افغانستان میں سرگرم داعش نامی عسکریت پسند مذہبی تنظیم نے بھی شیعہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پچھلے مہینے دیکھنے میں آئی جب افغانستان کے شہروں قندوز اور قندھار کی مساجد میں جمعے کے دو متواتر اجتماعات پر بم دھماکوں میں ہزارہ برادری کے کم از کم 100 ارکان ہلاک ہو گئے۔

نادیہ کے خاندان کو بھی یہی خطرات لاحق تھے۔

اس لیے کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک ہفتے بعد تک ان کے شوہر روپوش رہے اور پھر اپنی بیوی اور بچیوں کے ساتھ بس کے ذریعے دس گھنٹے کا طویل سفر طے کر کے افغانستان کے جنوب مشرقی شہر قندھار میں آ گئے۔ یہاں سے انہوں نے پاکستان کے شہر چمن کے ساتھ واقع پاک-افغان سرحدی راہ گزر کا رخ کیا۔

لیکن ان کے مطابق پاکستانی حکام نے انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہ دی اور انہیں بتایا کہ وہ بطور مہاجر پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اگلے روز انہوں نے اِن حکام کو نادیہ کی طبی دستاویزات دکھا کر بتایا کہ وہ مہاجر کے طور پر سرحد پار نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے پاکستان لے کر آنا چاہتے ہیں۔ ان دستاویزات کی بنیاد پر انہیں پاکستان میں داخلے کی اجازت دے دی گئی۔

تاہم کوئٹہ پہنچ کر بھی انہیں یہی خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں انہیں مہاجر قرار دے کر واپس افغانستان نہ بھیج دیا جائے۔ اس لیے وہ پاکستانی حکام کی نظروں سے بچنے کے لیے اپنی رہائش گاہ تک ہی محدود رہتے ہیں۔

افغان مہاجرین کی آمد پر پابندی

اس سال ستمبر میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بین الاقوامی نیوز میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مالی مشکلات اور دیگر مسائل کی وجہ سے افغان مہاجرین کی میزبانی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان کے اس اعلان کے بعد اب تک پاکستانی حکام نے سینکڑوں افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیجا ہے۔ کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ صرف صوبہ بلوچستان میں واقع دو سرحدی راستوں، چمن اور بادینی، سے افغانستان واپس بھیجے جانے والے مہاجرین کی تعداد 14 سو ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

لاہور میں مقیم افغان:' ہم ہر وقت غیر یقینی کیفیت میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمیں واپس نہ بھیج دیا جائے'۔

دوسری طرف اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر آفریدی کہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے لے کر اکتوبر کے آخری ہفتے تک 20 ہزار افغان مہاجرین پاکستان آئے ہیں جن کی اکثریت نے چمن کے مقام پر پاک-افغان سرحد عبور کی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مہاجرین میں 11 ہزار کے لگ بھگ شیعہ ہزارہ ہیں۔ اس کی تصدیق کوئٹہ میں ہزارہ آبادی کے محلوں ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کے رہائشی لوگ بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے تین مہینوں میں سینکڑوں شیعہ ہزارہ خاندان افغانستان سے پاکستان آئے۔ شروع میں یہ لوگ مقامی عبادت گاہوں میں آ کر ٹھہرے لیکن آہستہ آہستہ اپنے رشتے داروں کے ہاں یا کرائے کے مکانوں میں منتقل ہو گئے۔

ان میں نادیہ اور ان کا خاندان بھی شامل ہیں۔

ان کے شوہر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیونکہ انہیں "اس بات کا احساس ہے کہ یہاں پہلے ہی 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین رہ رہے ہیں"۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں مستقل قیام کے لیے نہیں آئے بلکہ یہاں سے امریکہ جانا چاہتے ہیں جس کے لیے انہوں نے تمام ضروری کاغذات اکٹھے کر رکھے ہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت "ویزوں کی منظوری تک ہمیں کوئٹہ میں ہی رہنے دے اور افغانستان واپس نہ بھیجے"۔

تاریخ اشاعت 8 نومبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.