منیر حسین لاہور کے نواحی دیہات بھماں جھگیاں کے رہائشی ہیں۔ ان کا گھر شہر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہ گاؤں ہی میں پھلوں کی ریڑھی لگاتے ہیں اور اسی سے ان کے خاندان کی روزی روٹی چلتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ چار ماہ قبل ان کے تیسرے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ رات کو اچانک ان کی اہلیہ کو تکلیف شروع ہوئی تو وہ انہیں فوری طور پر مقامی مڈوائف کے پاس لے گئے جو نجی ہسپتال میں ملازمت کرتی ہیں اور گھر میں کلینک بنا رکھا ہے۔
" مڈوائف کے گھر میں اہلیہ کی زچگی ہوئی لیکن چند منٹوں بعد ہی نوزائیدہ بچی پیدائش کے بعد دم توڑ گئی۔مجھے بہت دکھ ہے تاہم خدا کا شکر ہے کہ میری بیوی کی جان بچ گئی"۔
منیرحسین کا کہنا تھا کہ بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو) ان کے گھر سے سات کلومیٹر دور ہے۔ لیکن دوپہر ہی میں بند ہو جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے وہاں سے اپنی اہلیہ کا ایک بار الٹرا ساؤنڈ کرایا تھا۔ وہ دوسری بار بھی بیوی کو لے کر ہسپتال گئے لیکن عملے نے بغیر چیک اپ پرچی تھما کر ٹال دیا تھا۔ اس لیے حمل میں کوئی پیچیدگی سامنے نہیں آئی تھی۔
نواحی گاؤں اتوکے اعوان کی رہائشی بشریٰ بی بی بتاتی ہیں کہ وہ جب بھی دوا لینے اپنے علاقے میں موجود بی ایچ یو آتی ہیں انہیں یہاں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پھر ڈسپنسر سب کو ایک جیسی گولیاں اور سیرپ دے دیتا ہے۔ اگر حاملہ خاتون آ جائے تو اسے بازار سے خریدنے کے لیے دو، ڈھائی ہزار کی دوا لکھ دی جاتی ہے۔
بشریٰ بی بی کے ساتھ موجود کرن فاطمہ بتاتی ہیں کہ چند ماہ قبل ان کی زچگی اسی بی ایچ یو میں ہوئی تھی۔ انہیں شکایت ہے کہ ہسپتال کے فی میل عملےکا رویہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔ اب وہ صرف نزلہ بخار کی دوائی کے لیے ہی یہاں آتی ہیں۔
صرف بشریٰ بی بی، کرن یا منیرحسین ہی نہیں، دیہی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت کو علاج کے لیے اس طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ جس کے نتیجے میں اتائیت بھی فروغ پا رہی ہے۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق پنجاب کی 12 کروڑ 76 لاکھ سے زائد آبادی میں سے 59.30 فیصد لوگ دیہات میں رہائش پذیر ہیں۔ اس حساب سے لاہور ڈویژن کی لگ بھگ دو کروڑ27 لاکھ آبادی میں سے ایک کروڑ 39 لاکھ لوگ دیہات میں رہتے ہیں۔
محکمہ صحت (سپیشلائزد ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکشن) پنجاب کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ صوبہ بھر کے قصبات و دیہات میں 293 دیہی مراکز صحت اور دوہزار 461 بنیادی مراکز صحت موجود ہیں۔ ان میں سے لاہور ڈویژن میں 34 دیہی (آر ایچ سی)اور 246 بنیادی مراکز صحت کام کر رہے ہیں۔
موضع سنسس 2020ء بتاتا ہے کہ لاہور ڈویژن کےکل ایک ہزار 566 مواضعات میں سے تقریباً 34 فیصد میں بنیادی یا دیہی مرکز صحت موجود ہیں۔ ڈویژن میں دیہات کا طبی مرکز سے اوسط فاصلہ سات سے آٹھ کلومیٹر ہے۔ جبکہ 30 فیصد سے زائد دیہات 10 کلومیٹر سے زائد فاصلے پر واقع ہیں۔
سنسس کے مطابق لاہور ڈویژن کے دیہات میں دس کلو میٹر سے کم فاصلے پر ڈاکٹر کا نجی کلینک تو کیا کوئی تربیت یافتہ دائی بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس کے باوجو یہاں سرکاری مراکز صحت دوپہر کو ہی بند ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل احمد پندرہ سال سے واہگہ ٹاؤن کے بنیادی مرکز صحت ڈوگرائے کلاں میں تعینات ہیں۔ یہاں روزانہ اوسطا 70 سے 80 افراد علاج کے لیے آتے ہیں۔ ڈوگرائے کلاں کا لاہور شہر سے فاصلہ 16 کلو میٹر اور یونین کونسل کی آبادی 50 ہزار سے زائد ہے۔
ڈاکٹرشکیل تصدیق کرتے ہیں کہ بی ایچ یو میں عملہ اور سہولیات ناکافی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے مریضوں کی آن لائن رجسٹریشن لازم قرار دے رکھی ہے۔ موبائل /ٹیبلٹ پر مریض، مرض اور دوائی کی تفصیل درج کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ اس لیے یہاں آنے والے مریضوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بی ایچ یو میں آؤٹ ڈور کی سہولت دوپہر دو بجے تک ہوتی ہے جبکہ زچگی کی سہولت 24 گھنٹے میسر ہے۔ ایک ایل ایچ وی، مڈوائف اور چوکیدار رات کو بھی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ یہاں بنیادی تشخیصی ٹیسٹوں کی سہولت موجود ہے لیکن ان کی الگ سے فیس لی جاتی ہے۔
"بی ایچ یو میں ایک ڈاکٹر، ایل ایچ وی، مڈوائف، ڈسپنسر، چوکیدار اور ٹی بی پروگرام وغیرہ کا عملہ ہوتا ہے۔ جبکہ رورل ہیلتھ سنٹرز (آرایچ سی ) میں ڈاکٹر اور سٹاف کی صورت حال نسبتاً بہتر ہے۔ وہاں مریضوں کے لیے 20 بستر کے وارڈ کی سہولت بھی میسر ہے۔"
ڈاکٹرشکیل احمد کا کہنا تھا کہ بی ایچ یو اور آر ایچ سی 1970ء کی دہائی میں پرائمری ہیلتھ پروگرام کے تحت بنائے گئے تھے۔ اس وقت پانچ سے دس ہزار آبادی کے لیے ایک بی ایچ یو بنا تھا۔ اب آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے لیکن سٹاف کی تعداد نہیں بڑھائی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ لاہور ڈسٹرکٹ کے دیہات میں بی ایچ یو کے ساتھ چھ آر ایچ سی کام کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ دو قصبات کاہنہ اور مناواں میں دو سرکاری ہسپتال موجود ہیں۔ جنہیں انڈس نامی این جی او چلا رہی ہے۔ تاہم یہ اضافی سہولت ہر ضلعے کے دیہات میں دستیاب نہیں ہے۔
ہر بی ایچ یو اور آر ایچ سی میں ڈاکٹروں کے لیے رہائش گاہیں بھی بنائی گئی تھیں۔ ان میں سے بیشتر اب کھنڈر بن چکی ہیں۔ ان کی کھڑکیاں اور دروازے تک غائب ہوچکے ہیں۔ ویسے بھی ڈاکٹرز یہاں کبھی رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔
ڈاکٹر شکیل کے مطابق اب تو بنیادی اور دیہی مراکز صحت کی عمارتیں بھی اپنی عمر پوری کر چکی ہیں۔
واہگہ ٹاؤن کی یونین کونسل کے سابق چیئرمین رانا اعجاز احمد بتاتے ہیں کہ واہگہ گاؤں سے آر ایچ سی اعوان ڈھائی والہ کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہوتی۔ اس لیے کچھ لوگ مریضوں کو مناواں کے سرکاری ہسپتال لے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں بیشتر لوگ نجی ہسپتال کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لیے یہیں اتائیوں سے کام چلا لیتے ہیں۔
"دیہات میں کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر کلینک نہیں بناتا۔ قریبی قصبات جلوموڑ، باٹاپور، مناواں، برکی وغیرہ میں ڈاکٹرز موجود ہیں لیکن کوئی بھی دو سو روپے سے کم فیس نہیں لیتا۔ وہ بھی سرشام کلینک بند کر چلے جاتے ہیں۔"
رانا اعجاز کا کہنا ہے کہ زیادہ مسئلہ رات کو ایمرجنسی کے وقت بنتا ہے۔ تب گاؤں میں بیٹھے اتائی کام آتے ہیں۔ یہ 50 روپے میں دوا دے دیتے ہیں اور بوقت ضرورت گھر جا کر انجیکشن بھی لگا دیتے ہیں۔
خواتین اور بچوں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم (آسرا) کی نمائندہ علینا اظہر بتاتی ہیں کہ باقی صوبے کے دیہات میں لاہور ڈویژن سے زیادہ خراب صورت حال ہے۔ دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کے لیے بی ایچ یو بہترین ماڈل ہے لیکن بدقسمتی سے ان مراکز کو بڑھتی آبادی کی ضروریات کے تناسب سے اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔
ان کا ماننا ہے کہ دیہی مراکز صحت میں اگر ڈاکٹروں کی کم از کم دو شفٹیں کر دی جائیں، عملہ بڑھا دیا جائے۔ اسی طرح یہاں ادویات اور تشخیصی سہولیات مفت فراہم کی جائیں تو لوگوں کے مسائل میں کمی آئے گی اور اتائیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں
'جعلی ڈاکٹر، جعلی دوائیں'، نارووال میں تین محکمے مل کر بھی اتائیوں پر قابو نہ پا سکے
بنیادی اور دیہی مراکز صحت سے متعلق نگران صوبائی وزیر اور سیکرٹری پرائمری ہیلتھ نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ تاہم ترجمان محکمہ صحت سہیل جنجوعہ بتاتے ہیں کہ صوبے کے 855 بنیادی مراکز صحت میں گائنی سروس کے لیے 24 گھنٹے سہولت مہیا کر دی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گائنی سروس کے لیے ایک ہزار ڈاکٹر بھرتی کر لیے گئے ہیں۔ جبکہ مزید 400 لیڈی ڈاکٹرز بھرتی کی جا رہی ہیں۔ بی ایچ یو اور آر ایچ سی ہر ماہ باقاعدگی سے رپورٹ جمع کراتے ہیں اور آن لائن سسٹم سے عملے کی حاضری چیک کی جاتی ہے۔
"ان اقدامات سے مراکز صحت کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے"۔
عالمی بینک کی رواں سال کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان نے 2020ء میں صحت پر38.18 ڈالر فی کس خرچ کئے تھے۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کم از کم 44 ڈالر فی کس خرچ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔
اکنامک سروے آف پاکستان 23-2022ء کے مطابق پنجاب میں مالی سال 2023ء کے لیے صحت کا ترقیاتی بجٹ پچھلے برسوں کے مقابلے میں 50 فیصد کم کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کے بجٹ میں بھی تین فیصد کٹوتی کر دی گئی تھی۔
تاریخ اشاعت 30 نومبر 2023