سعید اللہ خان وادی تیراہ کے علاقے ورسک کے رہائشی ہیں۔ وہ تین ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں۔ انہوں نے ایک ایکڑ میں لوبیا اور سبزیاں جبکہ دو ایکڑ پر بھنگ کاشت کر رکھی ہے۔
سبزی کی کاشت سعید اللہ کا پہلا تجربہ ہے لیکن وہ خوش ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سبزیوں کی پیداوار اچھی ہوئی ہے۔ بھنگ کی فصل کے بیشتر حصے سے چونکہ چرس بنائی جاتی ہے جو غیر ممنوعہ اور نشہ آور ہے اس لیے اس کی کاشت سے کاشتکاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے سنا تھا حکومت بھنگ اگانے کی اجازت دے رہی ہے جس کے باعث تیراہ کے لوگ منتظر تھے کہ بھنگ کی کاشت نہ صرف قانونی ہو جائے گی بلکہ حکومت کسانوں کو سہولیتں بھی دے گی لیکن ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
خیبرپختونخوا کے تین قبائلی اضلاع یعنی خیبر کی وادیٔ تیراہ، اورکزئی اور کرّم کے کئی علاقوں میں بھنگ کاشت کی جاتی ہے۔ تاہم یہاں اس کی کاشت اور مجموعی پیداوار سے متعلق معلومات کسی سرکاری ادارے کے پاس موجود نہیں ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں بھنگ کے پودے کا استعمال ٹیکسٹائل، فیشن انڈسٹری اور تعمیراتی سامان کی تیاری میں ہوتا ہے۔ تاہم اس کی سب سے زیادہ کھپت طبی میدان میں نظر آتی ہے۔
بھنگ سے تیار کی جانے والی ادویات کئی بیماریوں پارکنسن (رعشہ یا کپکپی)، ایپی لپسی(مرگی)، سیکلروسس(صلابت عصبہ)، شدید درد، ایڈز اور کینسر کی بعض صورتوں، الزائمر و دیگر کے علاج میں مدد گار ثابت ہوئی ہیں۔
برطانیہ اور امریکا سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں ڈاکٹروں کو ان بیماریوں کے علاج کے لیے بھنگ سے تیار کردہ ادویات تجویز کرنے کی اجازت ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے منشیات و جرائم سے متعلعق دفتر نے اپنی رپورٹ 2022ء میں کہا تھا کہ شمالی امریکا میں بھنگ کو قانونی قرار دیئے جانے کے بعد یہاں ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کا استعمال کرنے والوں میں نفسیاتی امراض اور خود کشیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ 'فوربز میگزین' نے اکتوبر کی رپورٹ میں نیشنل کینابس(بھنگ) انڈسٹری ایسوسی ایشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ دنیا میں بھنگ کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے 2027ء میں بھنگ کی قانونی عالمی تجارت کا حجم 55 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اس میں امریکا کا حصہ اندازاً 43 ارب ڈالر ہو گا۔
پاکستان میں بھنگ کی کاشت کو قانونی بنانے پر بحث اپریل 2020 میں شروع ہوئی جب سابق وزیراعظم عمران خان نے وزارتِ انسداد منشیات کو بھنگ کی کاشت، ادویہ کی تیاری اور برآمد کے لیے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت سے مل کر لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی۔
چاروں وفاقی وزارتوں کے حکام نے مشاورت سے فیصلہ کیا کہ بھنگ پر عالمی تحقیق کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کی محدود پیمانے پر کاشت شروع کی جائے۔ انسداد منشیات فورس بھنگ کی کاشت کے علاقوں کی نگرانی کرے گی۔
خیبر پختونخوا حکومت نے 2021ء میں ضلع خیبر، اوکرزئی اور کرم میں بھنگ کی کاشت کا سروے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی ذمہ داری پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کو سونپی گئی تھی۔
اس منصوبے کے نگران پروفیسر فضل ناصر نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جون 2021ء میں تینوں اضلاع کے سروے کا آغاز ہوا اور چھ ماہ میں کام مکمل کر لیا گیا۔ جس پر ایک کروڑ 43 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
وہ کہتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد اور مقامی مارکیٹ سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق تینوں اضلاع میں 49 ہزار ایکڑ رقبے پر بھنگ کاشت کی جاتی ہے جس سے سالانہ 50 لاکھ کلوگرام (سوا لاکھ من ) چرس حاصل ہوتی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ رقبے کے لحاظ سے بھنگ کی سب سے زیادہ کاشت والا ضلع اورکزئی ہے۔ دوسرے نمبر پر ضلع خیبر کی وادی تیراہ اور تیسرے نمبر پر ضلع کرّم آتا ہے۔ تاہم بہترین پیداوار تیراہ میں ہوتی ہے۔
پروفیسر فضل ناصر کا کہنا تھا کہ بھنگ سے مختلف میٹیریل یا کیمیکلز کے حصول کے لیے حکومت کو دو کارخانے لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ ہر یونٹ پر لگ بھگ چھ سے آٹھ کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ پرائیوٹ سیکٹر کی مدد سے ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے والے چھوٹے یونٹ بھی لگائے جاسکتے ہیں۔
بھنگ کی کاشت کے کل رقبے اور چرس کی سالانہ پیدوار پر مبنی یہ رپورٹ دسمبر 2021ء میں خیبر پختونخوا اکنامک زونز ڈیویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کارپوریشن ( کے پی ایزمک) کو جمع کرا دی گئی تھی۔
کے پی ایزمک کے چیف ایگزیکٹو آفسر جاوید اقبال خٹک بتاتے ہیں کہ بھنگ سے متعلق ابتدائی رپورٹ سمال اندسٹریز ڈیویلپمنٹ بورڈ اور محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیوپلیمنٹ کو نظرثانی کے لئے بھیجی گئی ہے۔ ان اداروں اور ایزمک کی تجاویز کو یکجا کرکے حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی۔ سرمایہ کاری کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کیے جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ بھنگ سے حاصل ہونے والے میٹیریل کے لیے عالمی منڈی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جس کے لیے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ مجوزہ خیبر اکنامک کاریڈور کے قریب ایک ہزار ایکڑ زمین موجود ہے۔ جہاں بھنگ کے پراسیسنگ یونٹس اور افغانستان جانے والی بڑی گاڑیوں کے لیے ٹرمینل بنایا جا سکتا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ جب بھنگ سے قانون کے مطابق مواد کا حصول شروع ہو جائے گا تو تیراہ، اورکزئی اور کرّم کے کاشت کاروں کو بہتر معاوضہ ملے گا۔ متعلقہ علاقوں میں بھی چھوٹے یونٹ لگانے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
تیراہ مشروم ایگریکلچر ڈویلپمٹ آرگنائزیشن چار سال سے وادیٔ تیراہ میں بھنگ کے متبادل بہتر آمدنی دینے والی قانونی فصلوں کی کاشت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔
تنظیم کے صدر فضل ربی بتاتے ہیں کہ ان علاقوں میں کسان نوے فیصد زمین پر بھنگ کاشت کرتے رہے ہیں۔ ڈھائی سے تین لاکھ آبادی کے روزگار کا انحصار زراعت پر ہے لیکن قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد یہاں چرس کا کاروبار بہت مشکل ہوگیا ہے اور اس کا ریٹ بھی بہت کم ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'اب ہماری زمینوں پر کیکر اور جھاڑیاں ہی اگتی ہیں'، منڈہ ڈیم نے لوئر کرم کی زراعت اجاڑ دی
وہ کہتے ہیں کہ یہاں کی آب و ہوا بھنگ کی فصل کے لیے سازگار ہے اور کسان اس کی کاشت میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر تجرباتی بنیاد پر بھنگ کی کاشت شروع کر نی ہے تو حکومت ان علاقوں کو ترجیح دے تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو اور وسائل کا بھی درست استعمال ہو۔
فضل ربی کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے محکمہ زراعت کی مدد سے علاقے میں بھنگ کے بجائے دوسری فصلوں مشروم ( کھمبیاں) اور آف سیزن سبزیوں کی کاشت کے لیے 120 کاشتکاروں کو تربیت اور آلات فراہم کیے ہیں۔ پہلی بار دس مقامی خواتین کو بھی ایک امدادی ادارے کی مدد سے تربیت دی گئی ہے۔
صوبائی محکمہ زراعت نے وادیٔ تیراہ میں رواں سال دس ایکڑ زمین پر زعفران کاشت کرایا ہے اور 310 ایکڑ پر باغات لگائے ہیں جبکہ 35 ہزار جنگلی زیتون کے پودوں کو اعلیٰ قسم کے قلم (گرافٹنگ) لگائے ہیں۔
محکمہ زراعت ضلع خیبر کے ڈائریکٹر ضیاء اسلام داوڑ بتاتے ہیں کہ خیبر میں ایک کروڑ سے زائد جنگلی زیتون کے درخت ہیں۔ آئندہ پانچ سال میں ڈیڑھ لاکھ درختوں کی قلم کاری کا عمل مکمل کر لیا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ محکمہ، وادی تیراہ میں بھنگ کی بجائے دیگر فصلوں کی کاشت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
"رواں سال مقامی کاشتکاروں میں اعلیٰ قسم کے آلو، پانچ سو ایکڑ زمین کے لیے سورج مکھی اور ٹماٹر کے بیج فراہم کیے گئے۔ اس کے علاوہ اخروٹ کے 20 ہزار پودے تقسیم کیے گئے ہیں تاکہ وہ بھنگ یا پوست کاشت نہ کریں"۔
ضیاء اسلام داوڑ کا کہنا تھا کہ وادی تیراہ میں بھنگ کی کاشت سے متعلق محکمہ زراعت سے مشاورت نہیں کی گئی۔ تاہم بھنگ اگانے کی صورت میں مقامی لوگ سال میں ایک ہی فصل اٹھا پاتے ہیں جبکہ پانچ مہینے زمین خالی پڑی رہتی ہے۔ دوسری فصلوں کے لیے یہاں کے کسانوں کو معاونت کی شدید ضرورت ہے۔
وادی تیراہ کے کاشت کار سید محمد پچھلے دو سال سے بھنگ کے بجائے دوسری فصلیں اگا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ رواں سال انہوں نے شلجم اور آلو کاشت کیے تھے اور بہت اچھی آمدن ہوئی تھی۔ تیراہ میں سورج مکھی، ٹماٹر، مٹر، لوبیا، اخروٹ بھی بہتر پیدوار دیتے ہیں۔ لیکن یہاں جنگلی جانور بھنگ کے سوا تمام فصلوں کابہت نقصان کرتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 5 دسمبر 2023