گلگت میں آبادی اور کھیتوں کو سیراب کرنے والا پہاڑی نالہ رحمت سے زحمت بن گیا

postImg

فہیم اختر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

گلگت میں آبادی اور کھیتوں کو سیراب کرنے والا پہاڑی نالہ رحمت سے زحمت بن گیا

فہیم اختر

loop

انگریزی میں پڑھیں

گلگت کے گنجان علاقے بسین کے لوگ آج کل ہر وقت سیلاب سے بچاؤ کی تیاری کئے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں سیلاب آنے کی پیش گوئی ہے بلکہ علاقے میں بہنے والے ایک قدیم پہاڑی نالے کے کنارے جگہ جگہ سے کمزور ہو گئے ہیں۔ نالے کا پانی اکثر اپنے بند توڑ کر باہر نکل آتا ہے جس سے لوگوں کے گھروں اور کھیتوں کو متواتر نقصان ہو رہا ہے۔

اس نالے کو سردار کوہل واٹر چینل کہا جاتا ہے جس کی لمبائی تقریباً ساڑھے چودہ کلومیٹر ہے۔ یہ نالا سیاحتی مقام کارگاہ سے شروع ہو کر بسین، نپورہ، کھر اور نائیکوئی سے ہوتا ہوا آئی جی ہاؤس کے قریب ایسے ہی ایک اور نالے کوہل بالا میں شامل ہو جاتا ہے۔

گلگت میں زرعی مقاصد کے لئے پانی کی ضرورت پہاڑی نالوں کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ اس علاقے میں سردار کوہل سمیت آٹھ بڑے نالے ہیں جنہیں قیام پاکستان سے پہلے ڈوگرہ راج کے دوران پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ پہاڑوں سے آنے والے پانی کو ان نالوں کے ذریعے مخصوص اطراف میں موڑا گیا اور اس طرح مختلف علاقوں میں پانی کی دستیابی ممکن بنائی گئی۔

بسین کے رہائشی عرفان صدیق کا گھر اسی علاقے میں ہے جہاں سے سردار کوہل واٹر چینل گزرتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس آبادی کی آبی ضرورت اسی نالے سے پوری ہوتی ہے لیکن گزشتہ چند سال سے زوردار بارشوں اور سیلاب نے اس کے کنارے توڑ دیے ہیں۔ چونکہ نالے کی سالانہ صفائی کا کوئی اہتمام نہیں اس لئے جب پانی کے راستے میں رکاوٹیں جمع ہو جاتی ہیں تو اس میں سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جسے نالے کے کمزور بند روک نہیں پاتے۔

بسین کے کشمیری محلہ میں رہنے والے حسین شاہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ عیدالفطر سے دو روز پہلے نالے کا پانی آبادی میں داخل ہو گیا تھا۔ چونکہ اسے وہاں روکنے کا کوئی انتظام ممکن نہیں تھا اس لئے اہل نالے کارگاہ میں نالے کے منبع کی جانب دوڑے اور وہاں رکاوٹیں کھڑی کر کے پانی کے بہاؤ کو سست کرنے کی کوشش کی۔ جب یہ لوگ واپس آئے تو علاقے کی گلیاں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں اور سیلابی ریلا لوگوں کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہو چکا تھا۔ 

حسین شاہ کا کہنا ہے کہ یہ نالا بسین اور گردونواح کی آبادی کے لئے نعمت تھا جو اب زحمت بن چکا ہے۔ مقامی لوگوں نے بیسیوں مرتبہ سرکاری اداروں کو اس کے کناروں کی مرمت کرنے کے لئے درخواستیں دیں اور احتجاج کیا لیکن انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

گگلت میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نالے کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہے۔ اس ادارے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شہزاد احمد کہتے ہیں کہ ان کی تعیناتی کے دوران پانی کے آبادی میں داخل ہونے کا واقعہ پہلی مرتبہ پیش آیا ہے جس کی رپورٹ اور متعلقہ سفارشات واٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو جمع کرا دی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہےکہ نالے کے کناروں کی تعمیرومرمت ان کے محکمے کام کام نہیں۔

گلگت میں واٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری برہان آفندی کا کہنا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے یہ واٹر چینل ان کی حدود میں نہیں آتا کیونکہ یہ شہری علاقے میں ہے اور ان کا کام شہری علاقوں سے باہر ہوتا ہے۔

دوسری جانب میونسپل کارپوریشن گلگت کے چیف افسر عابد حسین بھی اپنے محکمے کو نالے کی مرمت اور دیکھ بھال سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میونسپل کارپوریشن کا کام صرف پانی کی چوری کو روکنا ہے جس کے لئے انہوں نے نالے پر ایک چوکیدار بٹھا رکھا ہے۔

پچھلے سال جون میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے گلگت ڈویلپمنٹ اتھارٹی، میونسپل کارپوریشن اور ضلعی انتظامیہ کو تمام نالوں کی دیکھ بھال اور مرمت کیلئے جامع پالیسی ترتیب دینے اور اسے کابینہ اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کرنے کو کہا تھا۔ ان احکامات کو ایک سال ہونے والا ہے لیکن حکومتی ترجمان علی تاج بتاتے ہیں کہ تاحال اس حوالے سے کابینہ میں کسی قسم کی تجاویز پیش نہیں کی گئیں۔

ان کا کہنا ہے کہ واٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے نالوں کی صفائی و مرمت کے حوالے سے پی سی ون تیار کرکے متعلقہ فورم میں پیش کر دیا تھا تاہم اسے منظوری نہ مل سکی۔ اسی لئے جب تک سیوریج کا منصوبہ مکمل نہیں ہوتا ہے ہم اس پر کام نہیں کر سکتے۔

برہان آفندی کہتے ہیں کہ گلگت میں سیوریج کا باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ عام طور پر لوگ سیوریج کا پانی زمین میں گہرے گڑھے کھود کر تلف کرتے ہیں۔ اس پانی کی کچھ مقدار زمین میں جذب ہو جاتی ہے اور کچھ بہہ کر آبپاشی کے نالوں میں شامل ہو جاتی ہے۔ کئی آبادیوں میں سیوریج کا پانی براہ راست ان نالوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ اس طرح نالوں کی تہہ میں گندگی جمع ہوتی رہتی ہے جو پانی کے بہاؤ کو متاثر کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"آسمان پر بادل دیکھ کر فکر ہوتی ہے کہ کہیں اُچھار نالے میں سیلاب سے راستے بند نہ ہو گئے ہوں"

ان کا کہنا ہے کہ جب تک گلگت میں سیوریج کا باقاعدہ نظام نہیں بن جاتا اس وقت تک نالوں میں سیلابی کیفیت پیدا ہونے اور ان کے بند ٹوٹنے کا خطرہ موجود رہے گا۔

گلگت میں سیوریج کا نظام بچھانے کے لئے وفاقی حکومت نے 2019ء میں ایک مںصوبہ تیار کیا تھا جس کی مالیت تین ارب 50 کروڑ تھی۔ تاہم خدشہ ہے کہ اب اس کی لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا ٹینڈر مکمل ہو چکا ہے اور متوقع طور پر جولائی سے اس پر کام شروع ہو جائے گا۔

ڈپٹی کمشنر گلگت اسامہ مجید چیمہ اس صورتحال کا حل یہ بتاتے ہیں کہ مقامی آبادیاں نالوں کی صفائی کے عمل میں انتظامیہ کی معاونت کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم دور سے بھل صفائی کا کام مقامی لوگ ہی کرتے آئے ہیں جسے 'ہلہ شیری' بھی کہا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند سال سے یہ سرگرمی ختم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے نالوں میں گنجائش کم ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب عوام نالوں کی صفائی میں اپنا کردار ادا کریں گے تو تب ہی ایسے مسائل کے حل کی امید رکھی جا سکتی ہے۔

تاریخ اشاعت 9 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فہیم اختر گلگت بلتستان کے مقامی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے میڈیا اور کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.