"ہر غیر مسلم کا فرض ہے کہ وہ مسلمان ہوجائے"، کیا پولیس، عدالتیں جبری تبدیلی مذہب کے رحجان کی سہولت کار ہیں؟

postImg

الویرا راشد

postImg

"ہر غیر مسلم کا فرض ہے کہ وہ مسلمان ہوجائے"، کیا پولیس، عدالتیں جبری تبدیلی مذہب کے رحجان کی سہولت کار ہیں؟

الویرا راشد

"میری عمر 14 سال ہے، اور  میں طبی معائنہ نہیں کروانا چاہتی۔ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اپنی مرضی اور رضامندی سے عمران شہزاد سے شادی کا معاہدہ کیا ہے۔"

زرویہ کے اس بیان کو راولپنڈی کی خاتون جوڈیشل مجسٹریٹ نے کافی سمجھا اور  ملزم عمران کو اغوا کے الزام سے بری کر دیا۔

زرویہ پرویز کو 30 اپریل 2022 کو راولپنڈی سے جب اغوا کیا گیا تو وہ سرکاری سکول میں چوتھی جماعت کی طالبہ تھیں۔

"ملزموں نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر عدالت میں یہ بیان نہ دیا تو تمہارے  دونوں بھائیوں کو قتل کر دیا جائے گا۔"

زرویہ کا تعلق پانچ افراد پر مشتمل مسیحی خاندان سے ہے۔ وہ راولپنڈی کی رہائشی ہیں۔ ان کے دو بھائی بڑے ہیں وہ سب سے چھوٹی ہیں۔ ان کے والد پرویز مسیح میونسپل کارپوریشن راولپنڈی میں ملازمت کرتے ہیں۔

ان کے خاندان نے اپنے گھر میں ایک مسلمان جوڑے، عمران شہزاد اور ادیبہ کو ان کے تین بچوں کے ساتھ ایسے وقت میں پناہ دی تھی جب وہ مالی مجبوریوں کا سامنا کر رہے تھے۔

عمران کا اکثر اپنی بیوی سے لڑائی جھگڑا رہتا تھا۔ ان کے اس رویے سے پریشان ہو کر زرویہ کے والدین نے انہیں گھر چھوڑنے کا کہا۔

زرویہ بتاتی ہے کہ گھر چھوڑنے کے ایک ہفتے بعد، عمران کی اہلیہ ادیبہ 30 اپریل 2022ء کو ان کے گھر آئی اور زرویہ سے کہا کہ وہ شاپنگ پر ان کے ساتھ چلے۔

"اس دن گھر میں کوئی نہیں تھا۔ والد، والدہ اور بھائی کام پر گئے تھے۔ جب میں شام تک گھر نہیں لوٹی تو میرے  گھر والوں نے مجھے ڈھونڈنا شروع کر دیا اور عمران اور ادیبہ کے رشتہ داروں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد عمران شہزاد نے واٹس ایپ کے ذریعے میری والدہ یاسمین کو ایک آڈیو میسج بھیجا کہ انہوں نے مجھے اغوا کر لیا ہے، اور وہ مجھے گھر والوں کو واپس نہیں کریں گے"۔

زرویہ کے اغوا کا مقدمہ یکم مئی 2022 کو راولپنڈی کے صادق آباد تھانے میں شہزاد، اس کی اہلیہ ادیبہ اور ان کے معاون لیاقت کے خلاف درج کرلیا گیا۔ایف آئی آر میں صرف اغوا کی دفعہ لگائی گئی۔

مقدمہ درج ہونے کے دو ہفتے بعد پولیس نے تینوں ملزمان کو گرفتار کر کے زرویہ کو فیصل آباد سے بازیاب کرالیا۔زرویہ کو راولپنڈی کے ویمن پولیس لاک اپ میں ملزمہ ادیبہ کے ساتھ ہی بند کردیا گیا۔

پولیس نے 14 مئی 2022 کو زرویہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جن کے حکم پر ملزموں کو  رہائی مل گئی اور مغویہ اغوا کاروں کے ساتھ بھیج دیا۔ تاہم جوڈیشل مجسٹریٹ صاحبہ نے کمسنی کی شادی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ سنوائی کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں بھیج دیا۔

زرویہ کے والدہ یاسمین نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کو لاہور ہوئی کورٹ کے راولپنڈی بنچ میں چیلنج کیا تاہم معزز جج صداقت علی خان نے کیس خارج کرتے ہوئے انہیں سیشن کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔

یاسمین نے سیشن کورٹ میں درخواست دی۔ان کے وکیل نے اس فون کال کی ریکارڈنگ عدالت کے سامنے رکھی جس میں زرویہ واضح طور پر  بتا رہی تھیں کہ انہیں اغوا کیا گیا ہے، زبردستی شادی اور جبری طور پر مذہب تبدیل کیا گیا ہے۔ وہ اپنے اغوا کاروں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔دوسری جانب ملزموں نے عدالت میں نکاح اور تبدیلی مذہب کے سرٹیفکیٹ پیش کیے تھے۔

عدالت نے زرویہ کے مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیان پر بھروسہ کیا اور مغویہ کے والدین کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے درخواست خارج کردی۔

زرویہ نے اپنے ساتھ ہونے والے ہولناک سلوک کے بارے میں بتایا کہ انہیں بہت زیادہ نشہ دیا گیا تھا، اور جب وہ نشے کی حالت سے  باہر نکلیں تو وہ ایک خالی کمرے میں اکیلی تھیں۔

"اغوا کے پہلے دن سے عمران شہزاد نے بار بار مجھے جسمانی طور پر مارا پیٹا، عصمت دری اور بدفعلی کی۔ مجھے  بھوکا رکھا گیا اور اینٹوں کے بھٹے پر سخت محنت اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے پر بھی مجبور کیا گیا"۔

زرویہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے کئی بار فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن ہر بار  عمران شہزاد یا ادیبہ پکڑ کر سزا کے طور پر تشدد کا نشانہ بناتے، بڑی مقدار میں شراب پینے پر مجبور کرتے، سگریٹ سے جلاتے، لاٹھیوں اور ہتھوڑوں سے مارتے، یہاں تک کہ انہیں بجلی کا کرنٹ لگاتے تھے۔

زرویہ کو اس قدر جسمانی، جنسی اور ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے اپنی کلائی کاٹ کر خودکشی کی کوشش بھی کی۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے اس کیس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 11 اکتوبر 2022 کو سماعت کی اور شواہد کا جائزہ لیا۔ این سی ایچ آر کے مطابق اس کیس میں پنجاب چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2015ء کے سیکشن 4، 5، اور 6 کے تحت درج جرائم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پینل کوڈ کے دیگر سیکشنز کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ این سی ایچ آر کمشنرز نے سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) راولپنڈی کو کیس کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دینے کی سفارش بھی کی۔

زرویہ کو اپنے اغوا کے چھ ماہ بعد نومبر 2022ء میں کچھ سماجی کارکنوں کی کووششوں سے اغوا کاروں سے رہائی نصیب ہوئی۔

زرویہ کی والدہ یاسمین پرویز کہتی ہیں کہ اقلیتوں کو انصاف تک رسائی کا مساوی اور مکمل حق حاصل نہیں ہے۔

"پولیس اور عدالتیں کمسنی کی شادی اور جنسی تشدد کے متعلق قوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے مجرموں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ تفتیش اور مقدمے میں امتیازی سلوک مجرموں کو حوصلہ دیتا ہے کہ وہ نابالغ اقلیتی لڑکیوں کو ان کے والدین سے چھین لیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

مذہب کی جبری تبدیلی اور شادی کا مقدمہ: کمسن مسیحی لڑکی کے والدین پولیس اور عدالت دونوں سے مایوس۔

وائس فار جسٹس کی ایک رپورٹ میں جنوری 2019ء سے اکتوبر 2022ء کے درمیان پاکستان بھر میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور خواتین کے اغوا، جبری مذہب کی تبدیلی اور جبری شادی کے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار سال کے دوران ملک بھر میں اغوا، جبری تبدیلی مذہب اور مسیحی لڑکیوں کی جبری شادیوں سے متعلق کل 100 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 86 کیس صرف پنجاب کے ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 67 فیصد کیسز صرف پانچ اضلاع میں رپورٹ ہوئے، جن میں صوبہ پنجاب سے لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، اور شیخوپورہ، اور کراچی شامل ہیں۔

وائس فار جسٹس کے چیئرپرسن جوزف جانسن نے کہا کہ تبدیلی مذہب کے بارے میں عمومی رویہ یہ ہے کہ مسلمان بننا ہر غیر مسلم کا فرض ہے۔

" زرویہ کے کیس میں پولیس اور عدالتوں کا کردار سہولت کار کا رہا ہے۔اسے ہر جگہ سے مسترد کیا گیا۔ لڑکی نے بازیابی کے بعد جا کر پولیس اور ججز کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں بتایا، لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ میری رائے میں یہ امیتنازی سلوک اس لیے روا رکھا گیا کہ وہ بچی غریب اور مسیحیی خاندان سے ہے"۔

انہوں نے  کہا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کی شکایات کو ایکشن لیے بغیر نہیں چھوڑنا چاہیے اور اسے جرم قرار دینے کے لیے قانون متعارف کروانا چاہیے۔

انسانی حقوق کے کارکن اشکناز کھوکھر کہتے ہیں کہ جبری تبدیلی مذہب کے رحجان کو پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ حالانکہ اپنی تقاریر میں مسلم علما یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ دین میں جبر نہیں ہے۔

زرویہ نے اس واقعے کے بعد سکول جانا چھوڑ دیا۔ وہ اس اذیت ناک صورت حال سے باہر نہیں آ پا رہی ہیں۔

انہوں نے راولپنڈی کی  فیملی کورٹ میں اپنے اغواکاروں کے خلاف کیس کر رکھا ہے۔

"ہمیں امید  کہ کبھی تو ہمیں انصاف ملے گا۔ میرا بس ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملزموں کو گرفتار  کر کے  انہیں سزا دی جائے"۔

تاریخ اشاعت 16 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

الویرا راشد کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ پچھلے دس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ شہری مسائل اور زراعت ان کی دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.