بیالیس سالہ اسرار احمد بلوچ ،صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 170 کلومیٹر جنوب مشرق میں ضلع کچھی کے رہائشی ہیں۔ وہ ان مویشی پالوں میں سے ایک ہیں جن کے جانور پچھلے سال سیلاب کی نذر ہو گئے تھے۔
اسرار بلوچ نے ایک ایکڑ رقبے پر اپنا کیٹل فارم بنا رکھا تھا جہاں انہوں نے100بھیڑ بکریاں، نو گائے اور چھ بھینسیں پال رکھی تھیں۔ یہی ان کا کل اثاثہ اور آمدنی کا واحد ذریعہ تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سال اگست میں رات کو ان کا خاندان سویا ہوا تھا کہ قریبی' شوران ڈیم' ٹوٹا اور پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔
"ہماری جانیں تو بچ گئی تھیں مگرمیرےسو سے زائد جانور بہہ گئےان میں دو بیل بھی شامل تھے،ایک بیل کی قیمت دو لاکھ سے زائد جبکہ ایک بکرے یا دنبے کی قیمت 20 ہزار سے 40 ہزار کے درمیان تھی، مگر حکومت نے وعدوں کے باوجود نقصان کا ازالہ کیا نہ آج تک ایک روپے کی امداد کی۔"
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملکی سطح پر لائیو سٹاک کا قومی پیداوار میں حصہ 14 فیصد ہے جس میں سے بلوچستان کا حصہ52 فیصد کے قریب ہے۔ جبکہ بلوچستان کی جی ڈی پی میں لائیوسٹاک کا مجموعی حصہ 47 فیصد سے زیادہ ہے۔
بلوچستان میں کل پانچ کروڑ سے زائد جانور ہیں۔ یوں فی گھرانہ ملکیت اوسطاً تقریباً 20 مویشی بنتے ہیں۔
لائیو سٹاک کے ماہر ڈاکٹرافضل عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت(ایف اے او) سے منسلک ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مال مویشی بلوچستان کے دیہی گھرانوں کےلیے بنیادی اثاثوں میں سے ایک ہے، صوبے کی 70 فیصدآبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ لائیو سٹاک سیکٹر سے وابستہ ہے۔
ایف اے او کے اندازوں کے مطابق بلوچستان میں ایک کروڑ 64 لاکھ 37 ہزار بھیڑیں،ایک کروڑ68 لاکھ بکریاں،56 لاکھ 60 ہزارگائے ،بارہ لاکھ کے قریب بھینسیں اور چار لاکھ کے لگ بھگ اونٹ ہیں۔
حکومت نے سیلاب کے نقصانات کا ازالے کرنے اور جانوروں کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 14 ستمبر 2022 ءکو متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، اس موقع پر چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے بریفنگ میں بتایا کہ صوبائی حکومت نے دیگر شعبوں کی طرح لائیوسٹاک کی بحالی کیلئے بھی 11 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کچھی بولان ہی کے علاقے گوکرد کے رہائشی 36 سالہ ظفر اللہ مویشی پالنے کے ساتھ سبزی بھی اگاتے ہیں، ان کی چار ایکڑ تیار فصل کے ساتھ بیس گائے بیل اور بھینسیں بھی سیلاب کھا گیا۔
" حکومت نے سروے کیا اور ہمیں نقصان کا معاوضہ دینے کی یقین دہانی کرائی مگر ایک سال گذر گیا کوئی پوچھنے بھی نہیں آیا۔ ذریعہ معاش نہ ہونے سے ہمارے لوگ زکوٰۃ اور خیرات مانگنے پر مجبور ہیں۔ "
کوئٹہ کے اسسٹنٹ کمشنر نثار احمد لانگو کا کہنا تھا کہ سیلاب کے نقصانات سے متعلق سروے رپورٹ وفاق کو بھیجی گئی ہے تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
" این ڈی ایم اے کے پاس فہرستیں ہیں، فیصلہ وفاق نے کرنا ہے چاہے پیسہ آئے یا گھر بنانے کا کوئی سسٹم۔"
شمالی ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے توبہ اچکزئی سے تعلق رکھنے والے نیاز محمد اچکزئی گزشتہ 30 سالوں سے گلہ بانی کررہے ہیں۔
انہوں نے80 بھیڑبکریوں کے ساتھ 20 بھینسیں بھی پال رکھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی علاقوں میں سیلاب سے جو جانور بچ گئے تھے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوگئے،اس سے مزید نقصان ہوا۔
"رواں سال قربانی کے جانورمہنگے ہوں گے اور اگر اب مزید بارشیں یا کوئی نقصان ہوا تو پھر شاید ہم جیسے لوگ کبھی دوبارہ گلہ بانی نہیں کرسکیں گے۔"
وٹرنری ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جانور لنگڑا پن، سانس (بوٹولزم)، آنتوں ( بلیک لیگ) اور سوزش جیسی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
" طویل عرصہ نمی والے حالات اور خوراک کی کمی سے جانور کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔کاٹنے والے کیڑے بیماریوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔"
ڈائریکٹر محکمہ لائیو سٹاک بلوچستان علاؤالدین کہتے ہیں کہ جانوروں کی ہلاکتوں کا سروے اس لیے کیا گیا تھا کہ متاثرین کے نقصان کا ازالہ کیا جاسکے۔ فنڈز ملتے ہی مویشی پالوں کومعاوضے کی ادائیگی شروع کردی جائے گی تاہم یہ معلوم نہیں کہ فنڈز کا اجراء کب ممکن ہوسکے گا۔
لائیو سٹاک کے صوبائی وزیر حاجی اکبر آسکانی نے 'لوک سجاگ' کو بتایا کہ متاثرین کے گھروں کی دوبارہ تعمیر اور انفرانسٹرکچر کی بحالی حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔ تاہم متاثرہ مویشی پالوں اور گلہ بانوں کی بھی مالی معاونت کی جائے گی۔
صوبائی وزیر کہتے ہیں کہ بلوچستان حکومت کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے دس ارب روپے فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر وفاق نے وعدہ پورا نہیں کیا۔ جس پر بلوچستان حکومت نے شدید احتجاج کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
دادو میں سیلاب سے بچ جانے والے ہزاروں مویشی علاج معالجے کی عدم دستیابی، آلودہ پانی اور خوراک کی قلت سے ہلاک ہو رہے ہیں
"حال ہی میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے قومی اقتصادی کونسل میں شرکت سے انکار کیا تو وفاق سے مثبت ردعمل آنا شروع ہوا ہے۔ امید ہے جلد رقم مل جائے گی اور اس میں لائیو سٹاک کے لیے بھی فنڈز مختص کئے جائیں گے۔
عالمی بینک نے پچھلے ماہ کے آخری ہفتے میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کی بحالی کےلیے تقریبا61 ارب 24 کروڑ روپے(213 ملین ڈالرز ) کی منظوری دی تھی۔ منصوبےکا محور بلوچستان ہو گا۔
عالمی بینک کے 'انٹیگریٹڈ فلڈ ریزیلینس اینڈ اڈاپٹیشن پروجیکٹ' کے تحت تقریباً 35 ہزار ایک سو افراد کے گھروں کی تعمیر نو، چھوٹے کسانوں اور مویشی پالوں کے لیے خصوصی گرانٹ فراہم کی جائے گی، یہ منصوبہ 2028ء میں مکمل ہوگا۔
ورلڈ بینک کی پریس ریلیز کے مطابق دیگر شعبوں کی طرح سیلاب سے متاثرہ زرعی اور لائیو سٹاک کے شعبے کی بحالی کیلئے کل تین اعشاریہ سات ارب ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے۔
عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان کا کہنا تھا کہ ادارہ بلوچستان حکومت کے ساتھ مل کر متاثرین کی مدد کرے گا ۔
تاریخ اشاعت 5 جولائی 2023