عبداللہ مجید ضلع ساہیوال کے قصبے ہڑپہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 145 نائن ایل کے ایک بڑے زمیندار ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی آلو کی فصل میں کھاد ڈالی ہے جس کی ہر بوری میں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکلا ہے۔ یہ کوئی عام کاغذ نہیں بلکہ ایک ٹوکن ہے جسے استعمال کر کے وہ پنجاب حکومت کی طرف سے دی جانے والی مالی امداد وصول کر سکتے ہیں۔
ایسے ٹوکن پچھلے دو سال سے کھاد کی بوریوں سے نکل رہے ہیں لیکن عبداللہ مجید کہتے ہیں کہ اس عرصے میں انہوں نے ایک پائی کی حکومتی امداد بھی وصول نہیں کی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تین سو ایکڑ اراضی کے مالک ہونے کے باوجود وہ صوبائی محکمہِ زراعت کے پاس ایک کسان کے طور پر رجسٹرڈ نہیں جبکہ امداد کی وصولی کے لئے یہ رجسٹریشن ضروری ہے۔
عبداللہ مجید پھر بھی ٹوکن اکٹھے کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق 'آج کل ہمارے علاقے میں کئی لوگ یہ ٹوکن خرید رہے ہیں'۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خریداری سرِ عام ہو رہی ہے جس میں ڈائی ایمونیا فاسفیٹ (ڈی اے پی) کھاد کی بوریوں سے نکلنے والے ٹوکنوں کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ وہ کئی وٹس ایپ گروپوں اور فیس بک کے کئی صفحوں کی نشان دہی کرتے ہیں جن پر ان 'ٹوکنوں کی بولی لگائی جاتی ہے'۔
عبداللہ مجید کے پاس اب تک 15 سو ٹوکن جمع ہو چکے ہیں جو سب کے سب ڈی اے پی کی بوریوں سے نکلے ہیں۔ محکمہِ زراعت کے پاس رجسٹرڈ ہونے کی صورت میں انہیں زیادہ سے زیادہ 20 ٹوکنوں پر فی ٹوکن پانچ سو روپے کے حساب سے دس ہزار روپے مل سکتے ہیں کیونکہ حکومت ہر رجسٹرڈ کسان کو ایک سال میں ڈی اے پی کی صرف 20 بوریوں پر ہی مالی امداد دیتی ہے۔ اس سے زیادہ پر نہیں۔ لیکن اگر وہ اپنے پاس موجود تمام ٹوکن سو روپے فی ٹوکن کے حساب سے بھی بیچیں تو انہیں ایک لاکھ پچاس ہزار روپے مِل سکتے ہیں۔
عبداللہ مجید نے ٹوکنوں کے بارے میں فیس بک پر ایک پوسٹ ڈال رکھی ہے جس پر مختلف شہروں سے کم از کم چھ لوگوں نے ان سے رابطہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ان میں سے ایک شخص نے ایک ٹوکن 80 روپے میں خریدنے کی پیش کش کی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ مجھے فی ٹوکن کم از کم تین سو روپے تو ملیں'۔
ان کو یہ پیش کش کرنے والے خریدار کا نام اجمل ورک ہے اور وہ جنوبی پنجاب کے ضلعے لودھراں کا رہنے والا ہے۔
جب سجاگ نے اجمل ورک سے پوچھا کہ وہ خریدے گئے ٹوکنوں کا کیا کرتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ ان کے بارے میں فیس بک پر ایک پوسٹ لگا دیتے ہیں جس کے بعد کچھ لوگ ان سے ہر ٹوکن دو سو روپے کے حساب سے خرید لیتے ہیں۔
اجمل ورک نے آخری بار جس شخص کو ٹوکن بیچے وہ بھی لودھراں کا رہنے والا ہے۔ سجاگ کے رابطہ کرنے پر اس نے بتایا کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے خریدے ہوئے ٹوکن بالآخر کہاں جاتے ہیں کیونکہ، اس کے مطابق، وہ انہیں بہاولپور کے ایک رہائشی کو فراہم کر کے اس سے اپنے پیسے وصول کر لیتا ہے۔ لیکن اس آخری شخص نے سجاگ کو بتایا کہ وہ آج کل ٹوکن نہیں خرید رہا کیونکہ 'ان دنوں سسٹم میں کچھ مسائل ہیں'-
سجاگ کا رابطہ ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور کے رہنے والے ٹوکنوں کے ایک بڑے خریدار سے بھی ہوا ہے۔ اس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ وہ اپنے پاس پہنچنے والے تمام ٹوکن ایک بڑے سرکاری آفسر کو دے دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے 'اس آفسر سے ایک دو بار پوچھا بھی کہ وہ ان ٹوکنوں کو کس طرح استعمال کرتا ہے لیکن اس نے جواب دیا کہ تم بس آم کھاؤ گٹھلیاں کیوں گنتے ہو'۔
پاکستان کسان اتحاد کے سیکرٹری جنرل میاں محمد عمیر مسعود بھی ایسے نیٹ ورکس کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے علاقے خانیوال میں کھاد کے ایک بہت بڑے ڈیلر اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ ان کے مطابق یہ ڈیلر 'کسانوں سے پچاس اور سو روپے میں ٹوکن خرید کر خود پوری مالی امداد حاصل کرلیتے ہیں'۔
پنجاب میں کھاد پر ملنے والی مالی امداد کی کل مالیت چار ارب روپے سالانہ ہے۔ اگرچہ سابق صوبائی وزیرِ زراعت نعمان احمد لنگڑیال کا کہنا ہے کہ اب تک 35 لاکھ کسان یہ امداد حاصل کرنے کے لئے رجسٹرڈ ہو چکے ہیں لیکن کسانوں کی تنظیموں اور کسانوں سے درجنوں انٹرویو کرنے پر سجاگ کو پتہ چلا ہے کہ رجسٹرڈ کسانوں کی ایک بڑی تعداد بھی امداد کی وصولی میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ کچھ غیر مصدقہ اندازوں کے مطابق مالی سال 2019-20 میں اب تک پنجاب بھر میں صرف تین لاکھ کسانوں کو یہ امداد ملی ہے۔
حکومتی دعوے اور زمینی حقائق
محکمہِ زراعت (توسیع) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر انجم علی بٹر ٹوکنوں کی سرِ عام خریدو فروخت پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کھاد پر امداد دینے کے حوالے سے جو طریقہِ کار بنایا گیا ہے اس میں فراڈ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'یہ امداد حاصل کرنے کے لئے صرف رجسٹرڈ کسان ہی محکمہ زراعت سے رابطہ کرسکتے ہیں اور رجسٹرڈ صرف انہی کسانوں کو کیا جاتا ہے جو خود زمین کے مالک ہیں یا جن کے پاس زمین کاشت کرنے کا تصدیق شدہ ثبوت ہے'۔ مزید براں 'پنجاب ٹیکنالوجی بورڈ صرف انہی کسانوں کو رجسٹریشن کے لیے اہل قرار دیتا ہے جن کے فراہم کردہ کاغذات سرکاری کمپیوٹروں میں موجود ریکارڈ سے مطابقت رکھتے ہیں'۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے باوجود جہاں کہیں شکوک و شبہات موجود رہتے ہیں انہیں دور کرنے کے لیے موقع پر جا کر تحقیقات کی جاتی ہیں۔
لیکن ڈاکٹر انجم علی بٹر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ 'اگر کسی جگہ پر جعلی رجسٹریشن ہو گئی ہے تو اس کی نشاندہی ہونی چاہیئے' اگرچہ اس کے بارے میں بھی ان کا مزید کہنا ہے کہ 'محکمہ زراعت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ رجسٹریشن کا سارا کام ریونیو بورڈ کے پٹواریوں اور تحصیلداروں کی مدد سے کیا جاتا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں
کھاد پر امداد دینے کا پیچیدہ سرکاری طریقہ کار: پریشان حال کسان سبسڈی کے ٹوکن فروخت کرنے پر مجبور۔
نعمان احمد لنگڑیال، جن کے دورِ وزارت میں مالی امداد کے حالیہ نظام کا آغاز کیا گیا، کا بھی کہنا ہے کہ اس کا غلط استعمال نا ممکن ہے۔ لیکن جب انہیں ٹوکنوں کی آن لائن خرید و فروخت کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: 'ایسا ہو سکتا ہے کہ ہمارے کچھ کسان بھائی لالچ میں آکر یا امداد کے نظام سے عدم واقفیت کے باعث اپنے ٹوکن سو پچاس روپے میں فروخت کر رہے ہوں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اس طرح ٹوکن خریدنا اور بیچنا غیر قانونی ہے'۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایڈیشنل سیکرٹری کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس کام کر رہی ہے جو ٹوکنوں کی غیر قانونی خرید و فروخت پر ضرور ایکشن لے گی۔
پاکستان کسان اتحاد کی صوبہ پنجاب کی شاخ کے صدر چودھری رضوان اقبال ان سرکاری وضاحتوں سے مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'حکومت نے کھاد پر مالی امداد دینے کے نظام میں اتنی الجھنیں پیدا کر دی ہیں کہ عام کسان اس سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ جبکہ دوسری طرف بہت سے لوگ اس نظام میں چور راستے نکال کر کسانوں کے حق پر سرِ عام ڈاکا ڈال رہے ہیں'۔
ان کے مطابق پانچ سو روپے والے ٹوکن کی سو دو سو روپے میں خرید و فروخت بظاہر ایک چھوٹا سا فراڈ نظر آتا ہے لیکن 'درحقیقت اس کی وجہ سے کسانوں کے کروڑوں روپے سرکار کی زیرِ سرپرستی ایک مافیا کی جیب میں جارہے ہیں'- لیکن اس کے باوجود 'حکومتی اہل کار اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے جو نہایت افسوس ناک امر ہے'۔
نوٹ: کسانوں کو کھاد پر دی جانے والی سرکاری مالی امداد کے حصول میں درپیش مسائل پر سجاگ کے تحقیقی سلسلے کی یہ دوسری رپورٹ ہے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 14 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 12 فروری 2022