رواں سال دو مئی کو میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں پولیس نے تین نوجوانوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ عامر سہیل اور ان کے بھائی مصوراللہ اپنے کزن عنصر خان کے ساتھ شام کے وقت موٹر سائیکل پر اپنے گھر آ رہے تھے کہ متو خیل کے قریب ناکہ لگائے سی آئی اے پولیس کے اہلکاروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔
مقتول عامر سہیل پاک فوج میں حوالدار تھے، ان کے بھائی مصور نویں اور کزن عنصر خان دسوی جماعت میں پڑھتے تھے۔ مقتولین کا تعلق خٹک قبیلے سے تھا۔
پولیس نے تھانہ بانگی خیل کے ایس ایچ او کی مدعیت میں اس واقعے کا مقدمہ درج کیا جس کے مطابق پولیس اہلکاروں نے اشتہاری ملزموں کی گرفتاری کے لیے ناکہ لگا رکھا تھا۔
"اس دوران پولیس اور ملزموں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کی زد میں آ کر یہ تینوں راہگیر جاں بحق ہو گئے"۔
اس واقعے کے بعد مقتولین کے رشتہ دار محمد عارف خٹک نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پولیس نے تینوں کو براہ راست فائرنگ کر کے شہید کیا۔ انہوں نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
سات مئی کو خٹک قبائل اور گردونواح کے لوگوں نے ٹولہ چوک میں ایک گرینڈ جرگے کا انعقاد کیا جس میں اس مطالبے کو دہرایا گیا۔
جرگے کی جانب سے عدالتی تحقیقات کے مطالبے کے بعد سرگودھا ڈویژن کے ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) شارق کمال نے میانوالی کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مطیع اللہ خان کے ساتھ جرگے میں شرکت کی اور پولیس کی غلطی کو تسلیم کیا۔
اس موقع پر انہوں نے جرگے کے ارکان سے معافی بھی مانگی اور اعلان کیا کہ مدعی جو بھی ایف آئی آر درج کرانا چاہیں وہ درج کی جائے گی اور وہ کسی بھی اہلکار کو مقدمے میں نامزد کر سکتے ہیں۔
آر پی او نے مقتولین کے ورثا کو پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔
اس موقع پر 21 رکنی جرگے نے فیصلہ کیا کہ اگر مقتولین کے ورثا کو دیت ادا کی جائے تو اس واقعے کو قتل خطا قرار دے کر معاف کیا جا سکتا ہے۔
پولیس افسروں نے جرگے کے اس مطالبے کو تسلیم کیا اور 80 لاکھ روپے دیت ادا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ رقم ناکے پر فائرنگ کرنے والے نو اہلکاروں نے ادا کی۔ جرگے میں تصفیہ ہونے کے بعد پولیس نے تین بیلوں کی قربانی بھی دی اور یوں یہ معاملہ انجام کو پہنچا۔
اس واقعے کے بعد یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ آر پی او نے پولیس شہدا فنڈ سے مقتولین کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے ادا کیے جبکہ یہ رقم پولیس شہدا کے ورثا کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔ جب اس اطلاع کی تصدیق کے لیے آر پی او آفس سرگودھا کے فنانس ڈیپارٹمنٹ سے استفسار کیا گیا تو ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے وضاحت دی کہ آر پی او نے یہ رقم شہدا فنڈ سے جاری نہیں کروائی بلکہ کئی طرح کے دیگر فنڈز سے جمع کر کے مقتولین کے ورثا کو دی گئی تھی۔
میانوالی میں سی آئی اے پولیس کے ایک افسر نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ایسے واقعات میں عام طور پر دیت کی ادائیگی کے بدلے صلح ہو جاتی ہے۔
"دیت پولیس کی جانب سے ادا نہیں کی جاتی بلکہ اس کا انتظام ملزم اہلکار کرتے ہیں۔ پولیس کا محکمہ صرف اتنا کرتا ہے کہ ملزم اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی اور انہیں عہدوں پر بحال کر دیا جاتا ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ اس واقعے میں بھی صلح کے بعد ملزم اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
"البتہ چند روز کے بعد ان اہلکاروں کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ بعض اشتہاری ملزموں کے ساتھ موسیقی کی محفل میں پائے گئے۔ اسی ویڈیو کی بنیاد پر ان تمام اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا"۔
تعزیزاتِ پاکستان کی دفعہ 319کے تحت قتل خطا کی سزا دیت ہے۔ تاہم اگر یہ قتل کسی غیرذمہ دارانہ فعل کے سبب ہوا ہو تو ملزموں کو پانچ سال تک قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
ڈسٹرکٹ کورٹس میانوالی میں پریکٹس کرنے والے وکیل اسحاق اعوان کہتے ہیں کہ ایسے واقعے کے بعد اگر ایف آئی آر درج ہو گئی ہو اور مقتولین کے ورثا دیت کے بدلے صلح کرنے پر راضی ہوں تو عدالت میں تمام مدعین کو بلایا جاتا ہے جہاں مقتولین کے تمام قانونی ورثا جج کے سامنے تحریری معافی نامے پر دستخط کرتے اور تبھی معافی کا عمل مکمل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ملتان مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے ہلاکتیں: پولیس ایسے واقعات روکنے میں ناکام کیوں ہے؟
تاہم، ایف آئی آر درج نہ ہوئی ہو تو لواحقین ملزموں کو زبانی طور پر بھی معاف کر سکتے ہیں۔
"چونکہ اس واقعے میں پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج ہی نہیں کی گئی تھی اسی لیے ماورائے عدالت غیر تحریری طور پر صلح ہو گئی"۔
ڈسٹرکٹ کورٹس میانوالی میں انسانی حقوق سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل عبدالحمید اعوان کہتے ہیں کہ پولیس یا دوسرے سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کا قتل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے لیکن پاکستان میں جب بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو مدعی حکومت کے ساتھ صلح کرنے کو بہتر آپشن تصور کرتے ہیں۔
"عموماً دیت کے بدلے قتل معاف کر دیا جاتا ہے اور جب مدعی اور پولیس میں سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو عدالت بھی اس کو تسلیم کرتی ہے"۔
وہ کہتے ہیں "چونکہ اس قانونی سہولت کے ہوتے ہوئے کڑی سزا کا ڈر نہیں رہتا اس لیے ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہتے ہیں"۔
تاریخ اشاعت 20 جولائی 2023