اگست کی 20 تاریخ کو میانوالی کی مسلم کالونی میں سدرہ نیازی نامی ڈاکٹر کو ان کے والد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا جو چند روز بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئیں۔
سدرہ مسلم بازار میں میٹرنل اینڈ چائلڈ سینٹر ہاسپٹل میں تعینات تھیں۔ وقوعہ کے روز اتوار کی چھٹی تھی اور وہ گھر پر موجود تھیں جب ان کی اپنے والد عبدالصمد سے تلخ کلامی ہو گئی۔ جھگڑا بڑھا تو باپ نے بیٹی پر فائرنگ کر دی۔ سدرہ کو ایک گولی ٹانگ کے نچلے حصے پر اور دوسری بائیں کان کے اوپر سر میں لگی۔وہ شدید زخمی ہو کر گر گئیں۔ اہلخانہ نے انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میانوالی پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی تشویشناک حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں اسی روز ہی راولپنڈی منتقل کر دیا گیا۔
وہ ڈی ایچ کیو ہسپتال راولپنڈی کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں دس روز زندگی موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد 30اگست کو دم توڑ گئیں۔
پولیس نے ڈاکٹر سدرہ کے بھائی اور ملزم عبد الصمد خان کے بیٹے محمد عبد الوہاب خان کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں ملزم کیخلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 324 لگائی گئی ہے۔تاہم پولیس ملزم کو ابھی تک گرفتار نہیں کر سکی۔
ایف آئی آر کے مطابق ڈاکٹر سدرہ گھر سے ہاسٹل میں منتقل ہونا چاہتی تھیں۔اسی وجہ سے ان کی ملزم والد سے تلخ کلامی ہوئی۔جس پر ملزم نے ان پر 30 بور پستول سے فائرنگ کر دی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دفعہ 324کے تحت اسی صورت میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے جب صرف قتل کی نیت سے حملہ کیا جائے۔
ڈاکٹر سدرہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وجہ تنازع مقتولہ کا ہاسٹل شفٹ ہونا نہیں بلکہ چچا زاد کے ساتھ شادی کرنے سے انکار تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ملزم مقتولہ کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کرنا چاہتا تھا اس لیے اس واقعے میں دفعہ 311 کے تحت غیرت کے نام پر قتل کا مقدمہ درج ہونا چاہیے اور ایسا قتل ناقابل معافی ہے۔
تاہم تھانہ صدر کے انویسٹی گیشن آفیسر سب انسپکٹر جاوید اقبال اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ مدعی نے وجہ عناد ہاسٹل میں رہائش رکھنا بیان کی ہے۔ یہ کسی صورت غیرت کے نام پر قتل کے زمرے میں نہیں آتی۔اس لیے پولیس نے بھی دفعہ 311کو شامل نہیں کیا۔
ضلع میانوالی میں رائے عامہ اس بات پر متفق ہے کہ ڈاکٹر سدرہ نیازی کو انصاف ملنا چاہیے۔تاہم یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ قاتل کو دیت قانوں کے تحت معاف کر دیا جائے گا۔
پاکستان میں قصاص و دیت آرڈیننس مجریہ 1990ء کے تحت قصاص سے مراد جرم کا بدلہ ہے یعنی قتل کا بدلہ موت کی سزا ۔ لیکن دیت کے تحت اگر مدعی کچھ رقم کے بدلے مجرم کی معافی قبول کر لے تو جرم معاف کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں اکثر قاتل اس قانون کا فائدہ اٹھا کر سزا سے بچ نکلتے ہیں۔ اگر مدعی اور ملزم دونوں مقتول/مقتولہ کے قریبی رشتہ دار ہوں تو دیت کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ بار میانوالی کے رکن اطہر یار اعوان بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر سدرہ کے کیس میں صرف قتلِ عمد کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔مقدمہ بھی ان کے بھائی کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔اس لیے یہ قتل کسی بھی وقت معاف کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر اس مقدمے میں غیرت کے نام پر قتل کی دفعات شامل ہوتیں۔مدعی بھی ریاست ہوتی اور گواہان بھی ریاست کے ہوتے تو قاتل کا سزا سے بچنا تقریبا ناممکن تھا۔
سماجی رہنما ڈاکٹر طارق مسعود خان کہتے ہیں کہ ڈاکٹر سدرہ نیازی کا مقدمہ ریاست کی مدعیت میں درج کیا جانا چاہئے۔مدعی خود ملزم کے بیٹے ہیں وہ کسی بھی وقت والد کو معاف کر سکتے ہیں۔مجرم کو سزا ضرور ملنی ہی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں
قبائلی اضلاع میں بڑی تعداد میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کیوں سامنے آنے لگے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ دیت کے قانون کے تحت دفعہ 302 کے مقدمے میں بھی صلح ہو سکتی ہے۔ اس کیس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے ساتھ 311 کو بھی شامل کیا جانا چاہئے تاکہ مدعی معاف بھی کر دے تو ملزم کی سزا برقرار رہے۔
مگر پولیس اپنے موقف پر قائم ہے۔ تھانہ صدر کے انویسٹی گیشن آفیسر بتاتے ہیں کہ پولیس مدعی کے بیان پر من و عن مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے۔ اس لیے اس کیس میں مقتولہ ڈاکٹر سدرہ نیازی کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا کیونکہ وہ خود مدعی بنے۔ پولیس قریبی ورثا کی موجودگی میں مدعی نہیں بن سکتی۔
پاکستان ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بھی چاہتی ہےکہ اس کیس کا ریاست کی مدعیت میں مقدمہ کا اندراج کیا جائے ۔ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن یوتھ فورم کے چیئرمین ڈاکٹر حامد خان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈاکٹر سدرہ کے قتل کا از خود نوٹس لے۔
ان کا کہنا ہے کہ دس دن بھی قاتل کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔یہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر میانوالی اور پولیس کی ناکامی ہے۔ اگر ملزم کوایک ہفتہ میں گرفتار نہ کیا گیا تو ڈاکٹر ملک بھر میں احتجاج کریں گے۔
تاریخ اشاعت 5 ستمبر 2023