جب ٹریفک پولیس کے ایک اہل کار نے محمد فاروق کو بتایا کہ ان کی گاڑی کو بند کیا جا رہا ہے تو وہ بہت پریشان ہو گئے کیونکہ پچھلے تین سال سے ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ان کی گاڑی ہی ہے جسے وہ ٹیکسی کے طور پر چلاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اکتوبر 2020 میں وہ کچھ مسافروں کو لاہور کے کلمہ چوک سے والٹن لے جا رہے تھے جب فیروزپور روڈ پر ایک ٹریفک وارڈن نے انہیں روکا اور ان کا ڈرائیونگ لائنسس طلب کیا۔ لائسنس کی جانچ پڑتال کے بعد وارڈن نے ان سے کہا کہ جون 2019 سے مختلف ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ان کی گاڑی کے پانچ چالان ہو چکے ہیں لیکن 'کیونکہ آپ نے ان چالانوں کا جرمانہ جمع نہیں کرایا اس لئے آپ کی گاڑی کو بند کیا جا رہا ہے'۔
محمد فاروق کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس عرصے میں ہونے والے صرف ایک چالان کے بارے میں معلوم تھا جس کی کاپی بذریعہ ڈاک ان کے گھر پر بھیجی گئی تھی اور جس کا جرمانہ انہوں نے ادا کر دیا تھا۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ باقی چالان کب اور کہاں ہوئے تھے۔
لہٰذا انہوں نے وارڈن سے پوچھا کہ یہ چالان انہیں گھر پر کیوں موصول نہیں ہوئے تو اس نے انہیں بتایا کہ 'ان چالانوں کے بارے میں جاننے کے لئے اب آپ کو ایک ویب سائٹ (http://echallan.psca.gop.pk/) پر اپنی گاڑی کا نمبر، اپنا شناختی کارڈ نمبر اور گاڑی کا انجن نمبر ڈال کر خود معلومات اکٹھا کرنا پڑیں گی'۔
لاہور ہی کے رہائشی آفتاب احمد کو بھی حال ہی میں اسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وہ گزشتہ دو برس سے اپنی گاڑی کو ٹیکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ 12 جنوری 2021 کی شام ایک ٹریفک وارڈن نے انہیں برکت مارکیٹ کے پاس روکا اور ان سے ڈرائیونگ لائنسس اور قومی شناختی کارڈ طلب کیا۔ یہ دستاویزات دیکھنے کے بعد وارڈن نے ان سے کہا کہ 'آپ کی گاڑی کے گزشتہ چند ماہ میں پندرہ چالان ہو چکے ہیں لیکن آپ نے ابھی تک ان میں سے ایک کا جرمانہ بھی جمع نہیں کرایا لہٰذا آپ کا قومی شناختی کاڑد اس وقت تک ہماری تحویل میں رہے گا جب تک آپ یہ جرمانہ جمع نہیں کراِئیں گے'۔
چونکہ آفتاب احمد کو ان میں سے کسی ایک چالان کی کاپی بھی گھر پر موصول نہِیں ہوئی اس لئے وارڈن نے انہیں بتایا کہ 'آپ http://echallan.psca.gop.pk/ پر جا کر ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں'۔
تاہم گھر پہنچ کر جب انہوں نے یہ معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تو متعلقہ ویب سائٹ پر ان کے کوائف کے سامنے 'کوئی ریکارڈ موجود نہیں' کا پیغام درج تھا۔ جب انہوں نے ویب سائٹ پر شکایات کے اندراج کے لیے دیے گئے ای میل ایڈریس (etclhr@psca.gop.pk) پر پیغام بھیجا تو ایک دن بعد
انہیں یہ جواب موصول ہوا: 'محترم صارف برائے مہربانی ہمیں اپنی گاڑی کی تفصیلات مہیا کریں جس کے بعد ہم آپکو ان چالانوں کی تمام تر معلومات فراہم کریں گے'۔
سہولت یا تکلیف
الیکٹرانک چالان 2018 میں اس وقت رائج کیے گئے جب تین سال پہلے قائم کی جانے والی پنجاب سیف سٹی اتھارٹی نے لاہور میں مختلف مقامات پر آٹھ ہزار کیمرے نصب کیے۔ ان کیمروں کا مقصد ایک طرف شہر میں ہونے والے جرائم پر نظر رکھنا ہے اور دوسری ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کر کے ان کے ذمہ دار افراد کو سزا دینا تھا۔
اس طریقہِ کار کی ایک اہم خاصیت یہ تھی کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والا چالان ڈاک کے ذریعے گاڑی کے مالک کے گھر پر بھیجا جانے لگا تا کہ ٹریفک پولیس کے اہل کار قوانین کی خلاف ورزیوں کو بنیاد بنا کر لوگوں سے رشوت نہ بٹور سکیں اور لوگوں کو چالان کے حصول اور جرمانے کی ادائیگی کے لئے سرکاری دفاتر کے دھکے بھی نہ کھانا پڑیں۔ اس کام کے لئے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ ریجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور صوبائی محکمہ ایکسائز (جو گاڑیوں کی رجسٹریشن کا ذمہ دار ہے) کی مدد سے گاڑیوں کے مالکان اور ان کے گھر کے پتے کا سراغ لگایا جاتا تھا۔
لیکن ایک سال بعد ہی یہ سارا انتظام افسر شاہی کی روائتی بد انتظامی کا شکار ہو گیا ہے۔
حیدر علی نامی ڈرائیور کہتے ہیں کہ انہیں چھ ماہ تک پتہ ہی نہیں چلا کہ ان کی گاڑی کے آٹھ چالان ہو چکے ہیں اور ان پر واجب الادا جرمانے کی رقم اٹھارہ ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے: 'جب ٹریفک وارڈن نے ایک ماہ پہلے مجھے روکا تو اس نے میری گاڑی بند کرنے کی دھمکی دی کیونکہ چالان جمع کروانے کی تاریخ کئی ماہ پہلے گزر چکی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے تو کسی چالان کی کاپی موصول نہیں ہوئی'۔
لاہور میں گاڑیاں چلانے والے بہت سے دیگر افراد کا بھی کہنا ہے کہ الیکٹرانک چالان ان کے لئے وبالِ جان بن چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب، کیسے اور کہاں ان سے کوئی ایسی خلاف ورزی ہوئی جس پر انہیں جرمانہ کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کو اس وقت تک معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے کتنے چالان ہو چکے ہیں جب تک ٹریفک پولیس کے اہل کار انہیں سڑک پر روک کر ان کے کاغذات کی چھان بین نہ کریں۔ اس لاعلمی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انہیں یک مشت کئی ہزار روپے جرمانے میں دینا پڑتے ہیں جس کا فوری طور پر انتظام کرنا ایسے افراد کے لئے اکثر بہت مشکل ہوتا ہے جو ٹیکسی چلا کر گزارا کرتے ہیں۔
تاہم سٹی ٹریفک پولیس ان شکایات کو درست نہیں سمجھتی۔
اس کے افسر برائے عوامی رابطہ کا اصرار ہے کہ ان کا محکمہ ابھی بھی تمام چالان متعلقہ افراد کے گھر کے پتے پر بذریعہ ڈاک بھجوا رہا ہے۔
جب ایسے لوگوں کے نام لے کر ان سے پوچھا گیا جنہیں چالان گھر پر موصول نہیں ہوئے تو انہوں نے پہلے تو یہ کہا کہ یہ 'ایک حساس مسئلہ ہے لہٰذا وہ اسکے متعلق کسی قسم کی معلومات مہیا نہیں کر سکتے'۔ لیکن بعد میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ 'ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا'۔
البتہ انہوں نے یہ ضرور تسلیم کیا کہ کچھ لوگوں کو چالان کی وصولی میں معمول سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن ان کے مطابق 'صرف انہی افراد کو یہ چالان ایک دو ہفتے کی تاخیر سے ملتے ہیں جن کی گاڑی ان کے اپنے نام پر رجسٹر نہیں ہوتی'۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 14 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 14 جنوری 2022