فیصل آباد کی ضلع کچہری میں پریشانی سے ادھر ادھر چکر کاٹتے آصف مسیح کی آنکھیں بتا رہی ہیں کہ وہ گزشتہ کئی راتوں سے سو نہیں سکے۔ ان کے چہرے پر امید اور خوف کے ملے جلے تاثرات ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی فرح شاہین، جو ان کے مطابق محض تیرہ سال کی ہے، کئی ماہ سے غائب ہے۔ ان کا الزام ہے کہ فرح شاہین کو خضر حیات نامی ایک 45 سالہ شخص نے اغوا کر کے اسے مسیحی سے مسلمان بنا لیا ہے اور اس سے زبردستی شادی بھی کر لی ہے۔
سجاگ سے بات کرتے ہوئے آصف مسیح نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو 25 جون 2020 کو اغوا کیا گیا جس کے اگلے دن وہ مقدمہ درج کروانے فیصل آباد کے ایک مقامی تھانے میں گئے لیکن وہاں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے مقدمے کے اندراج کے لئے ضلعی جج کی عدالت میں رٹ دائر کی جس نے 19 ستمبر 2020 کو خضر حیات کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا۔
وہ کہتے ہیں'میری بیٹی کو اغواء ہوئے چار ماہ ہو چکے تھے لیکن پولیس اس حوالے سے میری کوئی مدد نہیں کر رہی تھی میں جب بھی تھانے جاتا تھا مجھے گالیاں دی جاتی تھیں۔ پولیس والے کہتے تھے تم چوہڑے ہو، گٹر صاف کرنے والے ہو، یہاں سے بھاگ جاؤ'۔
وہ آج (11 نومبر کو) اس امید پر سینئر سول جج فیصل آباد کی عدالت میں آئے کہ شاید ان کی اپنی بیٹی سے ملاقات ہو جائے اور وہ اسے واپس گھر لے جا سکیں کیونکہ گزشتہ روز اسی عدالت نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ آج فرح شاہین اور ان کے مبینہ اغواکار کو عدالت کے سامنے پیش کریں۔
تاہم پولیس نے اس واضح حکم کے باجود دونوں کو عدالت میں پیش نہیں کیا بلکہ عدالت کو بتایا ہے کہ فرح شاہین اور خضر حیات کو ڈھونڈا نہیں جا سکا۔ اس کارروائی کے بعد بھی آصف مسیح کو امید تھی کہ عدالت ان کی بیٹی کی بازیابی کےلیے کوئی نیا حکم نامہ جاری کرے گی لیکن انہیں اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی درخواست خارج کر دی گئی اور انہیں کہا گیا کہ وہ ماتحت عدالت سے رجوع کریں جہاں ان کا مقدمہ پہلے سے چل رہا ہے۔
اغوا کی جانے والی فرح شاہین کی والدہ وفات پاچکی ہیں، ان کے والد اپنے چھ بچوں کے واحد کفیل ہیں اور رکشہ پر بار برداری کا کام کر کے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ 'انہیں عدالت کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے اور وہ پریشان ہیں کہ واپس گھر جا کر اپنے بچوں کو ان کی بہن کے بارے میں کیا بتائیں گے'۔
واقعے کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے آصف مسیح کا کہنا ہے کہ 'جب پولیس نے عدالتی حکم کے تحت خضر حیات کے خلاف مقدمہ درج کر کے اس کو گرفتار کر لیا تو اس نے فرح شاہین کو ایک مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے یہ بیان دلوا دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر کے خضر حیات سے شادی کر لی ہے'۔
عدالتی کارروائی
آصف مسیح کے وکیل تنویر اختر رندھاوا کے مطابق پولیس کے تفتیشی افسر نے ریکارڈ میں خود سے ہی فرح شاہین کی عمر 17 سال لکھ دی تھی جس کے بعد ان کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے یہ بیان بھی دلوا دیا گیا کہ وہ بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر رہی ہیں۔
تنویر اختر رندھاوا کا کہنا ہے کہ تفتیشی افسر کا یہ اقدام سراسر غلط اور خلاف قانون ہے کیونکہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈ کے مطابق فرح شاہین کی عمر 13 سال سے کچھ زیادہ بنتی ہے اور اسی بنیاد پر ان کے مؤکل نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ 'ہمارا یہ بھی مؤقف تھا کہ اگر عدالت اس ریکارڈ سے مطمئن نہیں ہے تو وہ فرح شاہین کی عمر کا میڈیکل ٹیسٹ کروا لے'۔
پولیس کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر مصدق ریاض کا اس حوالے سے کہنا ہےکہ 'انہیں عدالت کی طرف سے فرح شاہین یا خضر حیات کو عدالت میں پیش کرنے کا کوئی حکم موصول نہیں ہوا اور انہوں نے اس مقدمے کے حوالے سے پولیس ریکارڈ پہلے ہی عدالت میں جمع کروا دیا ہے'۔
فرح شاہین کی عمر زیادہ لکھنے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ 'لڑکی نے خود عدالت میں پیش ہو کر مجسٹریٹ کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ اس کی عمر 17 سال ہے اور اس نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر کے شادی کی ہے'۔
پنجاب کی وزارت انسانی حقوق کی طرف سے آج عدالت میں پیش ہونے والے وکیل عاطف جمیل پگان کے مطابق سینئر سول جج نے اپنے فیصلے میں آصف مسیح کی درخواست اس بنیاد پر خارج کی ہےکہ ان کی عدالت فرح شاہین کی عمر کا تعین کرنےکے لئے مناسب فورم نہیں ہے۔
ان کے مطابق 'عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عمر کے تعین کےلیے میڈیکل ٹیسٹ کروانا متعلقہ علاقے کے مجسٹریٹ کی ذمہ داری ہے اور یہ تب ہو گا جب مقدمے کا چالان مکمل ہو کر اس کی سماعت شروع ہو گی'۔
لیکن عاطف جمیل پگان کا کہنا ہے کہ 'مقدمے کا چالان مکمل ہونے میں چھ ماہ یا اس سےبھی زائد عرصہ لگ سکتا ہے اور اس دوران خضر حیات کی طرف سے فرح شاہین کے ساتھ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے'۔
لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سیشن کورٹ یا لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے تا کہ فرح شاہین کی عمر کا جلد سے جلد تعین کر کے اس کی بازیابی ممکن بنائی جا سکے۔
پولیس کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے یہ بیان بھی دلوا دیا گیا کہ وہ بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر رہی ہیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 11 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 28 فروری 2022