فیصل آباد میں 50 فیصد ٹیکسٹائل یونٹ بند ہو گئے، ملک کی سب سے بڑی صنعت میں لاکھوں لوگوں کے روزگار کو خطرہ

postImg

اجمل ملک

postImg

فیصل آباد میں 50 فیصد ٹیکسٹائل یونٹ بند ہو گئے، ملک کی سب سے بڑی صنعت میں لاکھوں لوگوں کے روزگار کو خطرہ

اجمل ملک

فیصل آباد کے علاقے غلام محمد آباد میں رہنے والے تیئس سالہ رفاقت علی پچھلے تین سال سے ایک فیکٹری میں کپڑا بننے کا کام کر رہے ہیں۔ یہاں انہیں ایک میٹر کپڑا تیار کرنے کا پانچ روپے معاوضہ ملتا ہے۔ وہ روزانہ آٹھ مشینوں (پاور لومز) پر دو سو میٹر کپڑا بنتے ہیں جس کے عوض انہیں ماہانہ تیس ہزار روپے اجرت حاصل ہوتی ہے۔ وہ 12 گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتے ہیں جس کے لیے یہ اجرت بہت کم ہے اور مہینے کے آخری ایام میں ان کے لیے روزمرہ اخراجات پورے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ 

رفاقت اپنے تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور گھر کا تمام بوجھ انہی کے کندھوں پر ہے۔ ان کے والد بھی فیکٹری میں ملازم تھے لیکن چند سال پہلے کام کے دوران ایک حادثے میں بازو ٹوٹ جانے کے باعث اب وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔ چونکہ رفاقت کی تنخواہ گھر چلانے کے لیے کافی نہیں ہے اس لیے ان کی والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے ان کا بوجھ بانٹنے کی کوشش کرتی ہیں۔ 

رفاقت بتاتے ہیں کہ پاور لومز پر کام کرنے والے مزدوروں کو بُنے گئے کپڑے کی لمبائی کے حساب سے اجرت ملتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی فیکٹری کے مالک نے مزدوروں کے معاوضے کم کر دیے تھے اور کئی لوگوں کو نوکری سے بھی نکال دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رفاقت نوکری بچانے اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے آٹھ پاور لومز چلاتے ہیں جبکہ عام حالات میں ایک مزدور چار پاور لومز چلاتا ہے۔ 

کچھ عرصہ پہلے رفاقت کو گھر کے بجلی کے بل کی مد میں چار ہزار روپے ادا کرنا ہوتے تھے لیکن اب یہ رقم بڑھ کر 13 ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ گھر کا کرایہ، بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات، والد کی دوا اور گھر سے فیکٹری تک آنے جانے کے لیے موٹرسائیکل کے پٹرول پر اٹھنے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ 

فیصل آباد میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ رفاقت جیسے لاکھوں مزدور انہی حالات میں جی رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی اجرت میں اضافہ چاہتے ہیں جبکہ مالکان خسارے کے باعث کارخانے بند کر رہے ہیں۔ معاوضوں میں اضافے کے لئے فیصل آباد میں مزدوروں کا احتجاج اور دھرنے معمول ہیں اور ضلع کونسل چوک سے ڈی سی آفس تک ایسے احتجاجی مظاہرے اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

گزشتہ دنوں مزدروں نے اجرتوں میں اضافے کے لیے جھنگ روڈ پر احتجاج کیا جہاں انہوں نے دو ہفتے تک دھرنا دیے رکھا۔ بہت سے مزدور اپنے بیوی بچوں کو بھی دھرنے میں لے آئے۔ بالاآخر ضلعی انتظامیہ نے مزدوروں اور فیکٹری مالکان کے مابین مذاکرات کروائے جس کے نتیجے میں ان کی اجرتوں میں تو اضافہ ہو گیا لیکن مالکان نے فیکٹریوں کی شفٹ کا دورانیہ کم کر دیا۔ اس طرح ان کی ماہانہ آمدنی اتنی بھی نہ رہی جتنی احتجاج سے پہلے تھی۔

مزدوروں کی تنظیم لیبر قومی موومنٹ (ایل کیو ایم) کے صدر اشفاق بٹ کہتے ہیں کہ اس سال عیدالاضحٰی کے بعد 30 فیصد صنعت بند رہی اور جتنے کارخانے چلے انہوں نے کام کی شفٹ کا دورانیہ کم کر دیا۔ اس طرح بہت سے مزدوروں کی دیہاڑی بھی کم ہو گئی یا وہ کام چھوڑ گئے اور اضافی مزدروں کو مالکان نے خود ہی نوکری سے نکال دیا۔ اس طرح شہر کی کام کے قابل آبادی میں بے روزگاری کی شرح 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

کھڈی سے پاور لوم تک کا سفر

لان اور لٹھے کا شہر سمجھے جانے والے فیصل آباد میں گلی کوچوں سے لے کر بڑی سڑکوں تک ہر جگہ کپڑے کی فیکٹریاں، گودام اور دکانیں دکھائی دیتی ہیں۔ اس شہر نے کھڈی سے پاور لومز تک سفر تقریبا چار دھائیوں میں طے کیا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب فیصل آباد کے بیشتر گھروں کے اندر ہی کھڈیاں لگی ہوتی تھیں۔ تب کپڑا سازی کی انڈسٹری کو کاٹیج انڈسٹری کا درجہ حاصل تھا۔ مرد و خواتین فرصت کے لمحات میں کھڈیاں چلاتے، بچے چرخہ کاتنے میں اپنی ماؤں کی مدد کرتے اور یوں دھاگہ اور کپڑا بننے سے اس کی رنگائی تک سارا کام گھر میں ہی مکمل ہو جاتا تھا۔ گھروں کے باہر اوپن ڈرین سسٹم میں رنگ دار پانی بہتا نظر آتا تو پورے محلے کو پتہ چل جاتا کہ کس رنگ کاکپڑا تیار ہو رہا ہے۔ 

جب ٹیکسٹائل کی صنعت میں جدت آئی تو کپڑے کی تیاری میں طرح طرح کا میٹیریل استعمال ہونے لگا جسے پراسیس کرنے کے لیے جدید مشینری اور بڑے کارخانوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس طرح یہ صنعت ترقی کر گئی۔

فیصل آباد شہر کے اندر اور باہر اس وقت کپڑے کے ہزاروں کارخانے ہیں جہاں لاکھوں مزدور کام کرتے ہیں۔ پاورلومز مالکان کی تنظیم کا دعوی ہے کہ فیصل آباد ڈویژن میں پاورلومز کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ روئی سے دھاگے کی تیاری اور دھاگے سے کورے کپڑے کی تیاری، رنگائی اور پھر مارکیٹ میں اس کی فروخت تک بہت سے مراحل سے لاکھوں لوگوں کا روزگار جڑا ہے۔

یہ لوگ اس صنعت کے چھ مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں جن میں جننگ، سپننگ، سائزنگ، پاور لومز، پراسیسنگ اور پیکنگ شامل ہیں۔ 

جننگ انڈسٹری میں روئی کو بیج سے الگ کیا جاتا ہے اور اس کی نمی کو ختم کر کے اسےصفائی کے مراحل سے گزارا جاتا ہے۔

سپننگ انڈسٹری میں روئی سے دھاگہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں دو یا زیادہ دھاگوں کو اکٹھا کر کے گھمایا جاتا ہے اور پھر مختلف اقسام کے کپڑوں میں استعمال ہونے والے دھاگے تیار کیے جاتے ہیں۔ 

سائزنگ انڈسٹری میں دھاگے کو مختلف کیمیائی مادوں سے گزار کر اس قابل بنایا جاتا ہےکہ اس کی بُنت میں ملائمت آسکے۔ 

پاور لومز میں دھاگے کو بُنا اور اس سے کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔

پراسیسنگ انڈسٹری میں کپڑے کی رنگائی اور ڈیزائننگ ہوتی ہے۔ 

ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد تیار شدہ کپڑا پیکنگ انڈسٹری میں آتا ہے جہاں اس پر برانڈز کے لیبل لگائے جاتے ہیں اور اسے تھانوں کی صورت میں لپیٹا جاتا ہے یا پیکٹوں اور ڈبوں میں بند کیا جاتا ہے۔

یارن مارکیٹ یا سوتر منڈی اس صنعت کا ایک اور اہم شعبہ ہے جہاں پنجاب اور سندھ کی سپننگ ملوں سے آنے والے دھاگے کا کاروبار ہوتا ہے۔ فیصل آباد کی سوتر منڈی ایشیا میں دھاگے کی سب سے بڑی مارکیٹ سمجھی جاتی ہے۔

کونسل آف لوم اونرز ایسوسی ایشن کے مطابق پنجاب کی 90 فیصد پاور لومز انڈسٹری فیصل آباد ڈویژن میں ہے جہاں اس کے تقریباً دو لاکھ یونٹ قائم ہیں جن پر روزانہ ایک کروڑ میٹر سے زیادہ کپڑا تیار ہوتا ہے۔ صنعت کے دیگر شعبوں کے مالکان کی تنظیموں کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق فیصل آباد میں ٹیکسٹائل سائزنگ کے 110 کارخانے کام کر رہے ہیں جبکہ پراسیسنگ کے 150 یونٹ قائم ہیں جہاں روزانہ تقریباً ایک لاکھ میٹر کپڑا تیار ہوتا ہے ہے۔ 

صنعتی زوال

اس سال جنوری میں فیصل آباد میں ٹیکسٹائل فیکٹریوں کے مالکان نے بجلی کے یونٹ کی قیمت 34 روپے تک پہنچنے پر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔ آج سات ماہ بعد اس صنعت کو ملنے والی بجلی کا یونٹ 42 روپے کا ہو گیا ہے اور فیکٹری مالکان ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آ گئے ہیں۔

لوم اونرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین وحید خالق رامے کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہر سال کپاس کی ایک کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اندرون ملک 80 لاکھ گانٹھیں ہی تیار ہوتی ہیں اور بقیہ کپاس درآمد کرنا پڑتی ہے۔ یہ خریداری ڈالر میں ہوتی ہے اور ڈالر کی قدر میں بے لگام اضافے سے اس صنعت میں ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

فیصل آباد میں کپڑا بُننے کی برقی کھڈیوں کی بندش: ایک عہد تھا جو تمام ہوا۔

سائزنگ ایسوسی ایشن کے صدر شکیل انصاری کہتے ہیں کہ  بجلی کے فی یونٹ ریٹ بڑھنے سے خام مال مہنگا ہو گیا ہے۔ چونکہ کپڑے کی قیمت نہیں بڑھ رہی اس لیے پاور لومز انڈسٹری کو نقصان ہو رہا ہے اور شہر میں سائزنگ کی صنعت تقریباً ختم ہونے کو ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بجلی پر ریلیف دیا تھا جسے موجودہ حکومت نے ختم کر دیا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو سائزنگ کے باقی ماندہ یونٹ بھی بند ہو جائیں گے۔ 

پراسیسنگ ایسوسی ایشن کے سابق چئیرمین رضوان اشرف کہتے ہیں کہ فیصل آباد میں پراسیسنگ کے 150 یونٹ قائم ہیں۔ ایک یونٹ پر روزانہ اوسطاً ایک لاکھ میٹر کپڑا تیار ہوتا ہے اور پراسیسنگ میں استعمال ہونے والے کیمیکل اور رنگوں سمیت تمام سامان درآمد کیا جاتا ہے۔ چونکہ ڈالر کی قدر اور بجلی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے اس لیے ان یونٹوں پر پیداواری لاگت تقریباً 45 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔

دوسری جانب حالیہ عرصہ میں صارفین کی قوت خرید میں کمی آئی ہے جس کے باعث فیکٹریوں کو تیار شدہ کپڑا مسلسل سٹاک کرنا پڑ رہا ہے۔ رضوان اشرف کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر بہت سے کارخانوں کو ملازمین کی تعداد میں کمی لانا پڑی جبکہ 50 فیصد یونٹ بند ہو گئے ہیں۔ 

شہر میں آٹو لومز، شٹل لیس لومز، ہوزری، امبرائیڈری، کینوس، سلک اور صوفہ و پردہ کلاتھ کی صنعتوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے اور ان سے وابستہ لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ 

دو سال پہلے تک فیصل آباد کے شہریوں کو اچھے لباس کے لیے درکار کپڑا چار سے پانچ سو روپے میں مل جاتا تھا اور خواتین اتنی رقم سے معیاری پرنٹڈ اور ڈیجیٹل لان بھی خرید لیتی تھی جبکہ بچوں کے کپڑے اس سے آدھی قیمت پر دستیاب تھے۔ تاہم اب کپڑے کے دام تقریباً دو گنا بڑھ گئے ہیں جس کے باعث کپڑے کی طلب میں کمی آ گئی ہے۔ حالات یہی رہے تو خدشہ ہے کہ اس شہر میں کپڑے کی صنعت پاور لوم سے دوبارہ کھڈی کی جانب سفر شروع کر دے گی۔

تاریخ اشاعت 19 دسمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

پنجاب کے صنعتی شہر فیصل آباد سے تعلق ہے۔ گذرے دو عشروں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.