منشیات بحالی مرکز ملتان: ' نشے کے عادی افراد کو ادویات کے بجائے کونسلنگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے'

postImg

سہیرہ طارق

postImg

منشیات بحالی مرکز ملتان: ' نشے کے عادی افراد کو ادویات کے بجائے کونسلنگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے'

سہیرہ طارق

 پینتیس سالہ ظفر (فرضی نام) دس سال قبل منشیات کی لت میں مبتلا ہوئے اور  آج تک اس سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ ان کی اہلیہ دو مرتبہ انہیں شہر کے منشیات بحالی مرکز میں چھوڑ کر آئیں مگر دونوں مرتبہ ظفر گھر لوٹ آئے۔

منشیات کی عادت میں مبتلا ہونے کے بعد ان کے معاشی حالات دن بدن خراب ہوتے گئے۔ اہل خانہ کے مطابق ان کا اچھا خاصا سپیئر پارٹس کا کاروبار نشے کی نذر ہو گیا۔ کچھ دکانیں کرائے پر دے رکھی تھیں، وہ بھی بیچ دیں۔

ظفر ملتان میں اپنی بیوی، 15 سالہ بیٹی اور 13 سالہ بیٹے کے ساتھ رہتے ہیں۔ایک نجی سکول میں پڑھانے والی ان کی بیوی بتاتی ہیں کہ ان کی قلیل تنخواہ کا زیادہ تر حصہ ظفر نشے میں اڑا دیتے تھے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ منشیات سے بحالی کے مراکز میں دیگر مریض بھی موجود ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح وہاں بھی منشیات کا استعمال جاری رہتا ہے۔

32 سالہ ناصر (فرضی نام) کا تعلق ملتان کے علاقے وہاڑی چوک سے ہے۔ انہیں منشیات کی لت سے چھٹکارا دلانے کے لئے منشیات بحالی مرکز میں علاج کی غرض سے داخل کرایا گیا تھا لیکن انہیں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔

ان کے والد کہتے ہیں کہ ناصر نے 25 سال کی عمر میں نشہ کرنا شروع کیا۔ بی کام کی تعلیم حاصل کی لیکن اس کے بعد منشیات کے استعمال نے انہیں مزید تعلیم یا ملازمت کے قابل نہ چھوڑا۔

بحالی مرکز کے انچارج محمد میثم نے بتایا کہ اس مرکز میں چار ماہ علاج کروانے کے بعد ناصر نے گھر جانے سے پہلے آئندہ نشے کو ہاتھ نہ لگانے کے وعدے کیے اور قسمیں بھی کھائیں۔
مگر ان کے والد کا کہنا ہے کہ "دوبارہ گلی محلے کے انہی دوستوں سے ملاقاتوں کے باعث وہ منشیات کو چھوڑ نہ سکا۔

منشیات کے عادی افراد کے لیے قائم کردہ بحالی مرکز سرکاری سطح پر ملتان کی سطح پر اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے۔

اس مرکز میں 50 مریضوں کی گنجائش ہے لیکن اس وقت وہاں صرف 24 مریض ہی زیر علاج ہیں۔

زہرہ سجاد زیدی اس مرکز کے مشاورتی بورڈ کی رکن ہیں اور ایسے مختلف مراکز میں نشے کے عادی افراد کے کونسلنگ سیشن لیتی ہیں۔ ان کے مطابق منشیات کے عادی افراد کے لیے اس کا استعمال ترک کرنا مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو علاج کے دوران پیش آنے والی چند اہم دشواریوں کے بارے میں بتایا۔

''سنٹر میں شروع کے ہفتے یا 15 دن تک کم مقدار میں ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد اگر دوائی نہ دینے پر مریض چیخے چلائے، شور مچائے اور توڑ پھوڑ بھی کرے تو ایسی صورت حال اس سمیت دیگر مریضوں کے علاج پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

چونکہ سینٹر میں مریضوں کو زبردستی باندھ کر نہیں رکھا جا سکتا اس لیے ایسے مریضوں کے مزید علاج کی ذمہ داری نہ لیتے ہوئے انہیں واپس لواحقین کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔"

ان کا کہنا ہے کہ دوران علاج اور منشیات استعمال نہ کرنے کی وجہ سے مریضوں کی بھوک بڑھ جاتی ہے اور بحالی مراکز میں کھانے پینے کا مناسب انتظام نہ ہونے یا خوراک میں کمی کے باعث مریضوں میں غم و غصّے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس رویے کے باعث وہ وقتی طور پر تو نشہ چھوڑنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں مگر باہر جاتے ہی دوبارہ منشیات کے عادی بن جاتے ہیں۔

میثم کا کہنا ہے کہ جنوری 2021ءسے مارچ 2023ء تک ادارے میں 1150 مریض علاج کی غرض سے آئے جن میں سے پانچ سو مریضوں نے مکمل علاج کروایا اور صحت یاب ہو کر واپس گئے۔

ان میں سے 200 کے قریب مریض ایسے تھے جو نشے کی عادت کو چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ لواحقین کی جانب سے داخل کروائے گئے وہ مریض چند روز کے اندر ہی ادارے سے بنا علاج کروائے واپس چلے گئے۔ دوبارہ نشہ شروع کرنے والوں کو ادارے کی جانب سے ایک بار پھر علاج کی پیشکش کی گئی لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔

نبیل خان منشیات بحالی مرکز میں گزشتہ آٹھ برسو سے بطور مینیجر منسلک ہیں۔ ان کے مطابق نشے کے عادی افراد کو ادویات کے بجائے کونسلنگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام ماہر نفسیات انجام دیتے ہیں۔ ادارے میں ایک ہی ماہر نفسیات تعینات ہیں جو ہفتے میں دو بار تمام مریضوں کے ساتھ کونسلنگ سیشن کے دوران انہیں منشیات کے نقصانات اور خطرات سے آگاہ کرتی ہیں۔

ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ لوگ اس مرکز سے مکمل صحت یاب ہو کر گئے اور اب بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ تیس سالہ محمد احسن نے بری صحبت اور بے روزگاری کے باعث ہیروئن، افیم، چرس سمیت دیگر اقسام کا نشہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ دو سال تک منشیات کا استعمال کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

علاج یا نشہ: کنٹرولڈ آئٹمز میں شامل کیٹامین دوا کی ضرورت سے زیادہ درآمد کے پیچھے کیا راز ہے؟

احسن کے بڑے بھائی کو جب سرکاری مرکز کا پتا چلا تو انہوں نے انہیں وہاں داخل کرا دیا جہاں کونسلنگ کی بدولت احسن کو نشے سے نجات مل گئی۔ اب وہ موبائل فون کی دکان چلا رہے ہیں اور نشے سے پاک زندگی گزار رہے ہیں۔

ملتان میں منشیات بحالی کے نجی مراکز بھی موجود ہیں مگر ان کی فیسیں بہت زیادہ ہوتی ہیں جنہیں  غریب طبقہ عموماً ادا نہیں کر سکتا۔

ان نجی علاج گاہوں میں منشیات کے عادی افراد  کو الگ الگ کمرے فراہم کرنے سمیت دیگر کئی سہولیات  میسر ہیں۔

ڈاکٹر نثار چوہدری ایسی ہی ایک علاج گاہ نجات سنٹر میں ماہر نفسیات کی حیثیت سے تعینات ہیں اور گزشتہ 15 برس سے منشیات کا استعمال کرنے والوں کا علاج کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ منشیات کی عادت جسمانی بیماری نہیں بلکہ اس کا تعلق دماغ سے ہے۔ منشیات میں دوبارہ مبتلا ہونے کی مختلف وجوہات ہیں۔ مریض کے دوبارہ نشہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کا مکمل علاج نہ ہوا ہو اور وہ علاج ادھورا چھوڑ کر ادارے سے چلا گیا ہو۔ اس کے علاوہ علاج گاہ کی جانب سے اگر مریض کا فالو اپ نہ ہو تو تب بھی وہ دوبارہ نشے کا شکار ہو سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت 9 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سہیرہ طارق گزشتہ 7 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ مختلف قومی و علاقائی نیوز چینلز میں سماجی، سیاسی، معاشرتی و دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

'اینوں پڑھا کے کیہہ کرنا جے؟' پنجاب کی اعلیٰ تعلیم میں پنجابی زبان

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ

ساہیوال: پاشی دی یاد وچ 'پاشی رھس میلہ'

thumb
سٹوری

'یہ سندھی بولنے والوں پر ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی ماں بولی کتنی استعمال کرتے ہیں، کمپنیوں کو تو بس صارفین چاہئیں'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک کو پشتو بولنا سکھانے کی جانب ایک پیش رفت؛ پشتو کے اے آئی کی دنیا میں داخلے کے لیے 'پشتو پال' کی کاوشیں

arrow

مزید پڑھیں

علی ارقم
thumb
سٹوری

لوک سجاگ جائزہ: خیبر پختونخوا کے سکولوں میں پانچ مادری زبانوں کی تعلیم کا اقدام کتنا موثر ثابت ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی

پیرس معاہدہ: امریکہ 'دی گریٹ' انوائرمنٹ سے نہیں پیسے سے بنے گا

thumb
سٹوری

'ہم نے 71ء میں ملک کے لیے اپنا گاؤں چھوڑا اور اب تک پریشان ہیں' گلگت بلتستان کا سرفہ رنگا داس احتجاج کا میدان کیوں بنا رہتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

ذاکر بلتستانی

کتاب میلہ: کتاب سے تعلق کمزور سہی مگر ابھی باقی ہے

thumb
سٹوری

'تین سال ہوگئے ہیں ہم نے ٹکے کا کام نہیں کیا، نہ اختیارات ہیں، نہ فنڈز': خیبرپختونخوا کا برائے نام بلدیاتی نظام

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جبہ ڈیم: پانی دوسرے علاقوں کو ملے گا، مقامی لوگ کرائے پر رہیں گے

چینی بنانے سے پہلے ہی شوگر ملز 25 ارب روپے کما لیتی ہیں

اس کے بال دھاگے کے تھےمگر ماں کے ہاتھ کی بنی گڑیا بیش قیمت تھی

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.