سعید الرحمٰن کو جب ٹرین کا انتطار کرتے ہوئے تین گھنٹے گذر گئے تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ وہ اپنے 25 سالہ بھائی بلال کے گردوں کا ڈائلیسز کروا کر خان پور سے واپس اپنے گھر لیاقت پور آرہے تھے۔
خان پور سے لیاقت پور کا فاصلہ 50 کلو میٹر ہے۔سردی بڑھتی جارہی تھی اور سعید کی فکر بھی۔ انہوں نے لیاقت پور میں اپنے دوست کو فون کرکے مدد مانگی۔
ان کے بھائی کو گردوں کے مرض کی تشخیص 2021ء کے اوائل میں ہوئی اور مرض اتنا بڑھ گیا کہ اسی سال مارچ میں ان کا ہفتے میں ایک اور پھر دو مرتبہ ڈائلیسسز ہونے لگا۔
ان کے اپنے شہر کے سرکاری ہسپتال میں ڈائلیسز سنٹر کی بلڈنگ کی تعمیر لگ بھگ دس سال پہلے مکمل ہو گئی تھی لیکن اس وقت سے یہ صرف دھول اکٹھی کر رہی ہے۔
سعید الرحمٰن لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ میں گریڈ 14 کے اہلکار اور یونین کونسل نمبر 125 کچی محمد خان میں بطور سیکرٹری فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سعید الرحمن بتاتے ہیں کہ مریض کے ساتھ ایک آدمی کا ہونا لازم ہوتا ہے اور کرائے بھاڑے پر بھی خاصے اخراجات ہوتے ہیں۔ ابتدا میں تو وہ کرائے کی گاڑی کا انتظام کرتے رہے مگر پانچ ماہ بعد ہی یہ ان کے لیے ممکن نہ رہا تو انہوں نے ٹرین کا سفر اختیار کیا۔
"بھائی کے ڈائلاسیز پر ایک سال کے دوران پانچ لاکھ سے زائد اخراجات ہوئے۔ میں ایسے خاندانوں کو بھی جانتا ہوں جو اپنے مریضوں کو سفر کی اذیت سے بچانے کے لیے عارضی طور پر بڑے شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں"۔
ہفتے میں دو بار ڈائلاسیز کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے والا سعیدالرحمن کا بھائی محمد بلال زیادہ دیر زندگی کی جنگ نہ لڑ سکا اور اپریل 2022ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
عمارت تیار، عملہ ندارد
2017ء کی مردم شماری کے مطابق جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کی آبادی 12 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن کی اکثریت زراعت پیشہ ہے۔ یہاں صنعتیں ہیں نہ بڑے کاروباری مراکز۔
دس سال پہلے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں دو کروڑ روپے کی لاگت سے ڈائلیسز سنٹر کی عمارت تو کھڑی کر دی گئی مگر آج تک اسے فعال نہیں کیا گیا۔
ڈائلیسز جیسے اذیت ناک عمل سے گزرنے کے لیے مریضوں کو لیاقت پور سے سو کلومیٹر دور بہاولپور کے وکٹوریہ ہسپتال یا پھر اتنے ہی فاصلے پر واقع رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ کچھ مریضوں کو کبھی کبھار خان پور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بنے خیراتی ڈائلاسز سنٹر میں بھی وقت مل جاتا ہے۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیاقت پور میں ڈائلاسیز سنٹر کا منصوبہ 11-2010ء میں چیف منسٹر ساؤدرن پنجاب ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت شامل کیا گیا تھا۔
سالوں گزر جانے کے بعد بھی ڈائلاسیز سنٹر میں نہ تو کوئی عملہ تعینات کیا گیا نہ ہی مشینری پہنچی ہے
بیس بیڈ پر مشتمل اس ڈبل سٹوری عمارت کو ڈائلاسز بلاک کا نام دیا گیا۔ ساڑھے پانچ ہزار مربع فٹ سے بڑے اس بلاک میں مجموعی طور پر 16 کمرے ہیں۔منصوبے پر 2011ء میں کام کا آغاز ہوا اور دسمبر 2014ء میں محکمہ بلڈنگز نے عمارت مکمل کرکے محکمہ ہیلتھ کے حوالے کردی۔
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال نے 27 فروری 2015ء کو اس بلاک کے لیے 35 افراد کی بھرتی کا ڈیمانڈ لیٹر بھجوایا تھا مگر محکمہ نے اس خط کا جواب چھ سال بعد دیا اور اپریل 2021ء میں صرف پانچ اسامیاں منظور کیں جس میں نفرالوجسٹ، میڈیکل آفیسر اور ٹیکنیشن کی ایک ایک جبکہ چارج نرس کی دو اسامیاں رکھی گئی ہیں۔
دو سال سے سٹاف کی منظوری کے باوجود بھی تاحال نہ تو عملہ تعینات کیا گیا نہ ہی مشینری پہنچی ہے۔
سپیشلسٹ سٹاف یہاں آنے پر کیوں تیار نہیں؟
مقامی شہری محمد ابوہریرہ نے جنوری 2021ء کو وزیراعظم پورٹل اور وزیر اعلی پنجاب شکایات سیل میں عرضیاں ڈالیں تو سیکریٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ لاہور نے وزیر اعظم پورٹل پر دیئے گئے جواب میں لیاقت پور کے ڈائلاسیز بلاک میں سہولتیں فراہم نہ کرنے پر معذرت بھی کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ آئندہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں مشینری اور عملہ فراہم کر کے اس منصوبے کو فعال کر دیا جائے گا مگر اس وعدے کو بھی دو سال گذر گئے ہیں۔
حال ہی میں صوبائی اسمبلی سے سبکدوش ہونے والے ایم پی اے چودھری مسعود احمد ڈائلاسیز بلاک فعال نہ ہونے کی ذمہ داری بیوروکریسی پر ڈالتے ہیں۔"میں نے بار بار متعلقہ حکام سے درخواست کی مگر وزیر اعلیٰ کی سفارش بھی کام نہ آئی"۔
انہوں نے بتایا کہ تحصیل ہسپتال میں ڈاکٹروں اور معاون عملہ کے لیے قائم پرانی رہائشی عمارتیں ناقابل استعمال قرار دی جا چکی ہیں اور نئی رہائش گاہیں موجود نہیں ہیں۔ "سپیشلسٹ سٹاف یہاں تعینات ہونے پر تیار نہیں ہوتا، بلاک کے فعال نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے"۔
تاہم چودھری مسعود نے بتایا کہ انہوں نے 20 کروڑ روپے کی لاگت سے رہائشی بلاک کا منصوبہ منظور کروایا تھا جس پر تعمیرات جاری ہیں۔"شاید اس منصوبے کی تکمیل سے عملہ یہاں آنے پر مائل ہوجائے"۔
کیا مسئلے کا کوئی حل ہے؟
محلہ شیخ مظہر حسین کے محمد عامر علوی کپڑے کے تاجر ہیں۔ ان کی 23 سالہ بیٹی عائشہ عامر گزشتہ پانچ سال سے ڈائیلائسز کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ عائشہ بارہویں جماعت کی طالبہ تھیں جب انہیں گردوں کا مرض لاحق ہوا۔ پھر وہ ڈائلاسیز کروانے پر مجبور ہو گئیں۔انہیں بھی ہفتے میں دو دن رحیم یار خان جانا پڑتا ہے۔
عائشہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر بیماری کے ساتھ ساتھ ہفتے میں دو مرتبہ سفر کی اذیت سے گذرتی ہیں۔
محمد عامر بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال سے بیٹی کو لانے لے جانے اور دوائیوں پر ان کا ماہانہ خرچ پچاس سے ساٹھ ہزار روپے ہے جو گزشتہ چھ ماہ کے دوران مزید بڑھ چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
مہنگا اور غیر معیاری علاج: ہیپاٹائٹس کے غریب مریض سرکاری ہسپتالوں میں خوار۔
عامر علوی نے تو اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیٹی کو رحیم یار خان لے جانے کے لیئے گاڑی اور ڈرائیور کا انتظام کر رکھا ہے لیکن بیشتر لوگ اتنے خوش قسمت نہیں۔
عامر ہی کے محلے کے دکاندار شیخ شوکت علی کا 27 سالہ شادی شدہ بیٹا خرم بھی ملتان سے محض دو بار ڈائلاسز کروانے کے بعد چند روز قبل چھ فروری کو زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیاقت پور کے ایم ایس ڈاکٹر ارشاد ندیم نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے رحیم یار خان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ کو دو کروڑ روپے کے فنڈز منتقل کر دیئے ہیں۔
"مشینری کی خریداری کے بعد ہسپتال ہی کے موجودہ عملہ کی ٹریننگ کروا کے ڈائلاسیز کا باقاعدہ کام شروع کر دیا جائے گا"۔
ڈاکٹر شاہد اقبال رانا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ڈپٹی میڈیکل سپریٹنڈنٹ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ تحصیل لیاقت پور کے بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی میں آرسینک اور مرکری کی مقدار بہت زیادہ ہے لمبا عرصہ تک ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر مسلسل ادویات لینا اور کھانے پینے میں بد پرہیزی گردے فیل ہونے کا عام سبب ہیں۔
مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ڈائلاسز بلاک کی عمارت شکستگی کی طرف گامزن ہے۔ اگر اس کو جلد کام میں نہ لایا گیا تو شائد کچھ ہی عرصہ میں اسے متروک قرار دے دیا جائے۔
تاریخ اشاعت 14 فروری 2023