خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

postImg

عمر باچا

postImg

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

عمر باچا

صلاح الدین، تورغر کے ضلعی صدر مقام جدبا کے نواح میں رہتے ہیں اور ان کا گاؤں آج بھی بجلی سے محروم ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے چار سال قبل کچھ سکولوں اور مساجد میں سولر سسٹم لگا دیے تھے مگر گھروں میں لوگ اپنی مالی حیثیت کے مطابق سولر پینلز لگا کر گزارا کر رہے ہیں۔

تورغر جو بجلی و پانی کے بڑے پراجیکٹ 'تربیلا ڈیم' سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہے اسے 2011ء میں ضلع بنایا گیا ۔ لیکن 2017ء تک اس ضلعے کے تقریباً 67 فیصد گھروں میں  بجلی جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں تھی۔

صلاح الدین کہتے ہیں کہ ضلع تورغر میں 2017ء کے بعد سرحد رورل سپورٹ پروگرام (ایس آر ایس پی) والوں نے پہاڑی نالوں پر آٹھ چھوٹے پن بجلی گھر بنائے مگر ان میں سے بیشتر غیر فعال ہیں۔

"حکومت نے پن بجلی گھر لگانے کے بعد ان کو پلٹ کر نہیں دیکھا جبکہ تورغر کے زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جن میں ان کی مرمت کرانے کی سکت ہی نہیں ہے۔"

کلین انرجی تک رسائی پروگرام

ایشیئن ڈیویلپمنٹ بینک نے 2016ء میں 'ایکسیس ٹو کلین انرجی انویسٹمنٹ پروگرام'  کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے ساڑھے 32 کروڑ ڈالر قرضہ منظور کیا تھا جس میں سے پنجاب کاحصہ آٹھ کروڑ 36 لاکھ 90 ہزار ڈالر تھا جبکہ باقی رقم خیبر پختونخوا کے لیے مختص کی گئی تھی۔

اس پروگرام کا مقصد بجلی سے محروم اور پسماندہ علاقوں میں کم قیمت پر کلین گرین انرجی فراہم کرنا تھا جس کے تحت چھوٹے پن بجلی گھروں اور سولرائزیشن کے منصوبے مکمل کیے جانے تھے۔

ایشیائی بینک کے اس قرض کے اہداف/نتائج کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں خیبر پختونخوا کے آف گرڈ علاقوں میں ایک ہزار چھوٹے پن بجلی گھروں کی تعمیر اور دونوں صوبوں کے 23 ہزار سکولوں کو 'روف ٹاپ'سولرائز کرنا شامل تھا۔

دوسرا ہدف خواتین کو با اختیار بنانا اور سولر منصوبوں کے ذریعے اُن کے روزگار کے لیے مواقع پیدا کرنا تھا۔تیسرا حصہ ان منصوبوں کی دیکھ بھال جبکہ چوتھا نیٹ میٹرنگ اور پبلک سیکٹر کی سرگرمیوں کو فروغ دینا تھا۔

معاہدے کے تحت ایشیائی ترقیاتی بینک  نے ساڑھے 32 کروڑ ڈالر قرض کے علاوہ سات کروڑ 86 لاکھ ڈالر مزید دینے تھے جبکہ دونوں صوبوں نے 48 لاکھ ڈالر اور کمیونٹیز نے 99 لاکھ ڈالر حصہ ڈالنا تھا۔ یوں کل 45 کروڑ 43 لاکھ ڈالر سے 2017ء اور 2021ء کے درمیان اہداف حاصل کیے جانا تھے۔

اس پروگرام سے خیبر پختونخوا میں 2021 ء تک 153 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے علاوہ دو لاکھ 40 ہزار خاندانوں اور آٹھ لاکھ طلبا و طالبات کو بجلی کی سہولت فراہم کی جانی تھی۔

کوہستان کے ضلع کولئی پالس کے ایم پی اے سردار ریاض بتاتے ہیں کہ یہاں 90 فیصد علاقے میں بجلی کے کنکشن نہیں ہیں۔ لوگوں نے چھوٹے شیشے (سولر پینل) لگائے ہوئے ہیں۔ کچھ دیہات کے باسیوں نے چندہ کرکے اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے پن بجلی گھر بنا لیے ہیں۔

معروف پالسی، کوہستان کے علاقے پالس کے رہائشی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ضلعے میں 2012ء میں دوبیر ہائیڈرو پاور اور 2017ء میں رانولیا پاور پراجیکٹ مکمل ہوا۔ اس کے بعد یہاں (داسو میں) ایک بڑے ہائیڈل پاور پراجیکٹ (ساڑھے چار ہزار میگاواٹ) نے پیداوار شروع کی۔

"مگر ان تینوں پاور پراجیکٹس سے مقامی آبادی کو بجلی نہیں دی گئی۔ یہاں تک کہ کوہستان میں قراقرم ہائی وے سے کچھ کلومیٹر پر واقع آبادیاں بھی بجلی سے محروم ہیں۔"

چھوٹے پن بجلی منصوبے

معروف پالسی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن ( پیڈو)کے فنڈز سے ضلع کولئی پالس میں ایس آر ایس پی نے آٹھ منی پن بجلی گھر بنانا شروع کیے تھے لیکن اُن میں سے صرف ایک 'پالس شراکوٹ' والا ہی فعال ہے جبکہ باقی سات ادھورے چھوڑ دیے گئے۔

انجینئر محمد آصف ایس آر ایس پی کوہستان کے ایک سابق ملازم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2020ء سے پہلے کوہستان میں انہوں نے 35 منی پن بجلی گھر بنائے تھے جن میں سے گیارہ سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔

"پیڈو کے قیام کا مقصد ہی صوبے کے لوگوں کو سستی بجلی بنا کر دینا تھا مگر اس ادارے کے پراجیکٹس کی بجلی وفاق کو فروخت کی جا رہی ہے۔ حالانکہ ان منصوبوں کے لیے قربانیاں مقامی لوگوں نے دیں جن کے ذاتی پن بجلی گھر اور پن چکیاں ختم ہو چکی ہیں۔"

دوبیر کوہستان لوئر کے رہائشی ملک اسد خان دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ضلع کی بھی بیشتر آبادی بجلی کے بغیر زندگی گزار رہی جبکہ حکومت نے کچھ مساجد کے سوا کسی گاؤں میں کوئی سولر سسٹم نہیں لگایا۔

"2022ء سیلاب سے پہلے یہاں جو منی پن بجلی گھر بنائے گئے ان کے حفاظتی پشتے تک تعمیر نہ نہیں کیے گئے جس کے باعث سارے ہی سیلاب میں بہہ گئے۔"

پیڈو کی سالانہ  رپورٹ 2023ء کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ہائیڈل کے سات بڑے منصوبے مکمل اور آپریشنل ہیں۔ چھ ہزار 662 مساجد ، آٹھ ہزار187 سکولوں و مراکز صحت، دو ہزار 870 دفاتر اور چھ ہزار 650 گھروں کو سولر منصوبوں کے ذریعے بجلی فراہم کی جا چکی ہے۔

پیڈو کا کہنا ہے کہ سولرائزیشن کے گھریلو منصوبے زیادہ تر جنوبی اور سابق فاٹا کے اضلاع میں دیے گئے ہیں جبکہ صوبے کے تمام اضلاع کی مساجد، سکولوں، ہسپتالوں کو سولر پر منتقل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ سول سیکرٹریٹ پشاور اور سی ایم سیکرٹریٹ میں بھی سسٹم لگائے گئے۔

رپورٹ ظاہر کرتی ہے کی ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں پہاڑی نالوں اور جھرنوں پر 2023ء تک 316 منی مائیکرو پائیڈل (چھوٹے پن بجلی گھر) انسٹال کیے گئے جہاں 28 ہزار 905 کلوواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ ہائیڈل بجلی کے سب سے زیادہ یعنی 58 منصوبے ضلع بٹگرا م میں مکمل کیے گئے۔

تاہم پیڈو اعتراف کرتی ہے کہ 17 میگاواٹ کا رانولیا پاور پراجیکٹ 2022ء کے سیلاب میں کافی متاثر ہوا تھا اور وہ تب سے ہی غیر فعال پڑا ہے جس کی بحالی کے لیے ایشیائی بینک سے پروپوزل کی منظوری ابھی تک نہیں آئی۔

زبیر توروالی، ریسرچر ہیں اور سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ رانولیا پاور پراجیکٹ اور اکثر چھوٹے بجلی گھر2022ء کے سیلاب میں بہہ چکے ہیں ۔ جبکہ 36 میگاواٹ کے درال خوڑ پراجیکٹ کی بجلی نیشنل گرڈ کو دی جا رہی جس کا مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

زیر تعمیر پن بجلی منصوبے

خیبر پختونخوا میں اس وقت کل 10 ہائیڈل کے بڑے منصوبے زیر تعمیر ہیں جن میں سات صوبائی حکومت کے فنڈز اور تین منصوبے بیرونی قرضوں سے تعمیر کیے جارہے ہیں۔ تاہم یہ سارے منصوبے کئی سال سے التواء کا شکار ہیں۔

پیڈو نے اپنی ویب سائٹ پر ان منصوبوں میں تاخیر کی وجوہات کرونا وائرس، سکیورٹی معاملات، مقامی لوگوں کا احتجاج، عدالتی کیسیز اور چینی انجینئرز کی عدم دستیابی وغیرہ بتائی ہیں۔

زیر التوا منصوبوں میں شانگلہ کا 11.8 میگاواٹ کا کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بھی شامل ہیں جو تکمیل کے قریب پہنچ چکا تھا مگر دو سال سے چینی انجنیئرز کی غیرموجودگی کے باعث کام رکا ہوا ہے۔

انجینئر سعود خان مختلف پاور پراجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پیڈو کے نامکمل منصوبوں کے پیچھے بنیادی عوامل میں پیڈو کی غیر فعال مانٹیرنگ اور نا تجربہ کار کنٹریکٹرز کو ٹھیکہ دینا شامل ہیں۔

"اگر یہ منصوبے بروقت مکمل ہو جاتے تو صوبےکو بجلی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

کاسا-1000: کرغزستان اور تاجکستان سے بجلی لانے والی ٹرانسمشن لائن کا کام کب شروع ہو گا؟

بونیر کے رہائشی احسان اخونذادہ بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں چغرزئی میں 2014ء میں منی پن بجلی گھر پر کام شروع ہوا مگر ٹھیکدار منصوبہ ادھورا چھوڑ گیا۔ علاقے کے لوگوں نے احتجاج کیا اور ڈپٹی کمشنر کو بھی درخواست دی مگر مسئلہ تاحال حل نہیں ہوا۔

چکیسر شانگلہ سے تعلق رکھنے والے نیاز خان نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں پٹئی خوڑ پر بجلی گھر بنے کافی عرصہ ہو چکا۔ لائنیں اور پول بھی لگ چکے ہیں مگر مقامی آبادی کو بجلی نہیں ملی جبکہ سرکاری کاغذات میں یہ منصوبہ مکمل ہے۔

نئی پالیسی

انجینئر محمد ریاض خان ہائیڈل انرجی کے کئی بڑے چھوٹے منصوبوں پر کام کرچکے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹے پن بجلی گھروں کی تعمیر میں پہلے بینیفیشری (مقامی آبادی) کو منصوبے کی لاگت میں حصہ دینا ہوتا تھا مگر اس پروگرام کے دوسرے مرحلے میں پالیسی تبدیل کر دی گئی ہے۔

"اب چھوٹے پن بجلی گھروں کے لیے کمیونٹی سے پیسے نہیں لیے جا رہے بلکہ واپڈا آدھی قیمت پر ان بجلی گھروں سے مقامی آبادی کو بجلی فراہم کرے گا۔ منصوبے کی انتظامی ذمہ داری بھی کمیونٹی کی بجائے پیڈو کے پاس ہو گی۔"

ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ کمیونٹی کو مفت بجلی ملتی تھی مگر وہ بجلی گھر کی منٹیننس کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے۔ اب جب پیڈو ذمہ داری سنبھالے گا تو لوگوں کو بل بھی دینا ہوں گے۔

مساجد میں سولر سسٹمز کی مینٹیننس کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ تورغر سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے لوگ بتاتے ہیں کہ مساجد کی زیادہ تر بیٹریاں خراب ہو چکی ہیں جنہیں تبدیل کرنا کمیونٹی کی ذمہ داری تھی۔ اب وہاں دن کو تو سولر سسٹم صحیح کام کرتے ہیں مگر مغرب کے بعد لائٹیں نہیں جلتیں۔

تاریخ اشاعت 19 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.