سنی سائمن 26 ستمبر 2019 کو لاہور میں داتا دربار کے قریبی علاقے ٹیکسالی چوک میں ایک ہوٹل کی دیوار سے خطرناک طریقے سے لٹکا ہوا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ وہ خود کو مار ڈالے گا۔ دیوار کے نیچے لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا جو اس سے التجا کر رہے تھے کہ وہ اس اقدام سے باز رہے۔ بالآخر منت سماجت کر کے انہوں نے اسے دیوار سے زندہ سلامت اتار ہی لیا۔
یہ تفصیلات اُس ابتدائی رپورٹ (ایف آئی آر) میں موجود ہیں جو داتا دربار تھانے نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 325 کے تحت سنی کے خلاف درج کی۔ اس دفعہ کے مطابق "خودکشی کی کوشش کرنے یا اس جرم کا ارتکاب کرنے والا فرد ایک سال قید یا جرمانے یا بیک وقت دونوں سزاؤں کا مستوجب ہے"۔
پولیس نے سنی کو اس ایف آئی آر کے تحت گرفتار کر کے اگلے دن لاہور کے ایک سینئر سول جج کی عدالت میں پیش کیا جس نے تیس ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی شرط پر اسے رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی ضمانت کے لیے درکار رقم کا انتظام کرنے میں ناکام رہا کیونکہ، اسے جاننے والے لوگوں کے مطابق، وہ بیروزگار اور نشے کا عادی تھا اور اس کے لیے یہ رقم اکٹھا کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے اسے جیل بھیج دیا گیا۔
اسی دوران سرکاری وکیل ثمر عباس نے 27 دسمبر 2019 کو سنی کے مقدمے کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ تیار کی جس میں انہوں نے لکھا کہ "استغاثہ کے پاس چشم دید گواہوں کے بیانات موجود ہیں اور ملزم کا جرم ثابت کرنے کے لیے دیگر مواد بھی موجود ہے"۔ اس بنا پر انہوں نے تجویز کیا کہ اس کے خلاف اقدام خودکشی کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
تاہم جنوری 2020 میں جب سنی پر فرد جرم عائد کی گئی تو اس نے اپنا جرم قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے اوپر لگے ہوئے الزامات کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے خلاف مقدمہ فروری 2020 میں شروع ہوا اور اکتوبر 2020 تک جاری رہا جب عدالت نے کہا کہ ''ملزم کے اعترافی بیان کی روشنی میں اس کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 325 کے تحت جرم ثابت ہو گیا ہے"۔
اس فیصلے کے تحت اس کو ایک سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
اس کے بعد کوئی نہیں جانتا کہ سنی کے ساتھ کیا ہوا۔ داتا دربار تھانے کی پولیس کو بھی معلوم نہیں کہ اس نے کتنا وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا اور اسے کب رہا کیا گیا۔ اب وہ لاہور کے علاقے قلعہ گجر سنگھ کی بڈھن شاہ نامی آبادی میں بھی نہیں رہتا جہاں وہ اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران مقیم تھا۔ اس کے رشتہ داروں اور ہمسایوں میں سے بھی کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں چلا گیا ہے۔
محمد وسیم کے حالاتِ زندگی بھی سنی سے مختلف نہیں۔ خودکشی کی ناکام کوشش کے نتیجے میں اس کے مسائل بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
اس کی ابتلا کا آغاز دسمبر 2018 میں اس وقت ہوا جب اس نے 31 سال کی عمر میں شمالی لاہور میں واقع راوی روڈ کے علاقے میں اپنے گھر کے قریب بریانی کی دکان کھولی۔ دکان کرائے پر لینے اور اس کے لیے فرنیچر اور دیگر سامان خریدنے کے لیے اس نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ڈھائی لاکھ روپے قرض لیا تھا۔ تاہم اس کا کاروبار چل نہ سکا جس کے بعد اسے کام جاری رکھنے اور گھر کا خرچ چلانے کے لیے مزید رقم ادھار لینا پڑی اور یوں اس کا قرض بڑھتے بڑھتے ساڑھے پانچ لاکھ روپے تک پہنچ گیا۔
جلد ہی قرض خواہوں نے اس کے گھر کے چکر لگانا شروع کر دیے تاکہ اس سے اپنی رقم کی واپسی کا تقاضا کر سکیں۔ ان میں بعض لوگ اسے دھمکیاں بھی دیتے کہ اگر اس نے ان کی رقم جلد واپس نہ کی تو اچھا نہیں ہو گا۔ اس دوران جب وسیم کے لیے گھر چلانا اور اپنے دو نوعمر بیٹوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو گیا تو اسے ذہنی دباؤ نے آ لیا۔
انہی حالات میں مارچ 2021 میں اس کا اپنی اہلیہ سے جھگڑا ہو گیا جس کے بعد وہ بچوں کو ساتھ لے کر میکے چلی گئی۔
اسی مہینے کی 19 تاریخ کو وسیم نے خودکشی کرنے کے لیے اپنے پیٹ میں پستول سے گولی مار لی جس کے بعد اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا۔ وہاں موجود ڈاکٹروں نے اس کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک سوال نامہ پُر کرنے کو کہا جس کا مقصد یہ اندازہ لگانا تھا کہ آیا وہ ذہنی طور پر صحت مند ہے یا نہیں۔
اس کے خلاف عدالتی کارروائی مئی 2021 میں شروع ہوئی اور وہ پانچ بار عدالت میں پیش بھی ہوا۔ ان میں سے ایک پیشی کے دوران اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا جس میں اس نے اعتراف کیا کہ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس کے خلاف مقدمے کی کارروائی تاحال جاری ہے تاہم اس کے بھائی ندیم بشیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے مزید پیشیوں پر جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کارروائی پر اٹھنے والی مالی اخراجات کے باعث ان کے خاندان پر قرض بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "وسیم کی ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے جمع کرائے گئے پچاس ہزار روپے کے ضمانتی مچلکوں، مقدمے کے لیے وکیل کا انتظام کرنے اور ایک کے بعد دوسری پیشی پر عدالت جانے کے لیے درکار سفری اخراجات کی وجہ سے ان پر پہلے ہی برداشت سے زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے"۔
موت میں زندگی کا کھٹکا
عالمی بینک کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2017 میں پاکستان میں ہر ایک لاکھ لوگوں میں سے 9.1 نے خودکشی کی۔ اس سے اگلے سال یہ شرح 8.9 فیصد رہی۔ درحقیقت پچھلی دو دہائیاں سے کم و بیش یہی صورتحال چل رہی ہے۔ پاکستان جیسے کم اور متوسط آمدنی والے دیگر ممالک میں بھی تقریباً یہی رجحان دیکھنے کو ملتا ہے۔
تاہم کچھ عرصہ پہلے تک کراچی میں کام کرنے والی ماہر نفسیات عطیہ نقوی کا کہنا ہے کہ ملک میں خودکشی اور اس کی کوشش کرنے جیسے واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق ان کی اصل تعداد اس لیے سامنے نہیں آتی کہ ان میں بیشتر کی پولیس یا دیگر سرکاری محکموں کو اطلاع ہی نہیں دی جاتی۔ وہ کہتی ہیں کہ "جب کوئی فرد خودکشی کر لیتا ہے یا ایسی کوئی کوشش کرتا ہے تو اس سے جڑی بدنامی کے باعث اس کے اہلخانہ اس واقعے کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں"۔
پاکستان میں خودکشی کا رجحان ہر علاقے میں ایک سا بھی نہیں ہے۔ سندھ کے جنوب مشرقی اضلاع عمر کوٹ اور تھرپارکر میں اس کی شرح ملک کے تمام دوسرے ضلعوں سے زیادہ ہے۔ بعض غیرسرکاری اداروں کے مطابق 2021 میں عمرکوٹ میں 98 افراد نے خودکشی کی جبکہ تھرپارکر میں 79 افراد نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
اگرچہ پنجاب کے 37 اضلاع میں خودکشی کے سالانہ واقعات کی تعداد اس سے کافی کم ہے لیکن ان کی مجموعی تعداد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ صوبائی پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 2021 میں پنجاب کے تمام اضلاع میں خودکشی کی ناکام کوشش کرنے والے چار سو 57 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں سے 85 مقدمات میں لوگوں کو 'مجرم' ٹھہرایا گیا اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ 21 واقعات میں ملزموں کو بری کر دیا گیا جبکہ تین سو 51 مقدمات تاحال زیرسماعت ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان میں نمائندے سروپ اعجاز ان اعدادوشمار سے بہت ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ خود اپنی جان لینے کے در پے ہوتے ہیں ان کے خلاف مقدمہ چلانا اور انہیں سزا دینا ایک مجہول سی بات ہے۔ انہیں "یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ سزا کے ذریعے ایسے افراد کی ذہنی حالت کو مزید خراب کر کے انہیں خودکشی سے باز کیسے رکھا جا سکتا ہے"۔ وہ مزید سوال کرتے ہیں کہ "اگر ایسے لوگوں کو جیل بھیجا جائے اور وہ وہاں دوبارہ خودکشی کی کوشش کریں تو پھر کیا ہو گا؟ اس کی ذمہ داری کس پر آئے گی؟"
عطیہ نقوی بھی سمجھتی ہیں کہ خودکشی کی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور انہیں سزا دینے سے دوسرے لوگوں کو خودکشی کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ ان کے بقول اگر ایسا ہو رہا ہوتا تو پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ افراد میں سے نو کے لگ بھگ لوگ خودکشی نہ کر رہے ہوتے۔
مذہب اور موت
پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے رکن کریم احمد خواجہ نے 2017 میں سینیٹ میں نجی حیثیت میں ایک بل پیش کیا۔ اس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ''اپنی جان لینے کی کوشش کرنا فرد کی مایوسی کا آخری درجہ ہوتا ہے۔ فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے سے مشکلات میں مبتلا شہریوں کو مجرم قرار دینے کے بجائے ان کی مدد کرے''۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے "بحالی مراکز" قائم کیے جانے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب میں غیر مسلم قیدیوں سے امتیازی سلوک: 'مذہبی تعلیم کے حصول پر ہمیں قید میں رعائت نہیں ملتی'۔
سینیٹ نے ستمبر 2017 میں ان کا پیش کردہ یہ بل منظور کر لیا لیکن قومی اسمبلی سے اس کی منظوری ہونے سے پہلے ہی 2018 کے وسط میں اس وقت کی قومی اسمبلی کی مدت پوری ہو گئی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے 2019 میں ایک نیا نجی بل پیش کیا جس کا مقصد بھی دفعہ 325 کی اصلاح کرنا تھا۔ تاہم اس پر نہ تو اب تک کوئی پارلیمانی بحث ہوئی ہے اور نہ ہی اس کی منظوری دی جا سکی ہے۔
اس بل میں اس بات پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے کہ یہ دفعہ ذہنی طور پر بیمار افراد کے لیے غیرمنصفانہ ہے۔
ریاض فتیانہ نے اس کے دیباچے میں لکھا ہے کہ "نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا افراد عموماً خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں اور انہیں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا نے انہیں اکیلا چھوڑ دیا ہے اور نظرانداز کر دیا ہے۔ اس لیے ایسے افراد اپنے قریبی لوگوں سے مدد حاصل کرنے کے بجائے خودکشی میں اپنی نجات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں"۔
تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل اسد جمال کا کہنا ہے کہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کے اقدامات کو مجرمانہ دائرے سے باہر رکھنے کے لیے کسی نئے قانونی اقدام کی ضرورت نہیں کیونکہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 84 کے تحت اقدام خودکشی تو ایک جانب ذہنی مسائل سے دوچار افراد کے خلاف کوئی بھی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی انہیں کوئی سزا دی جا سکتی ہے۔
جب پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے ایک اور رکن شہادت اعوان نے 27 ستمبر 2021 کو اسی موضوع پر سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تو بظاہر ان کے پیش نظر یہی بات تھی۔ اسی لیے انہوں نے براہِ راست دفعہ 325 کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
لیکن ان کے اسی مطالبے کی وجہ سے 27 دسمبر 2021 کو اس بل پر بحث کے دوران سینیٹ کے بعض ارکان نے ان پر زور دیا کہ وہ اسے واپس لے لیں۔ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے تو اسے "نامناسب" قرار دے دیا۔ ان کے مطابق، خودکشی کی کوشش کرنا قابل سزا جرم ہونا چاہیے کیونکہ اسلام میں اس کی ممانعت کی گئی ہے۔
اس عدم اتفاق کے نتیجے میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے اس ہدایت کے ساتھ یہ بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بھیج دیا کہ اس معاملے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی لی جائے۔ کمیٹی نے اس ہدایت کی تعمیل کی۔
6 جنوری 2022 کو اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک خط کے ذریعے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ''خودکشی کرنے کی کوشش قابل سزا ہی ہونی چاہیے کیونکہ اسلام کی رو سے یہ ایک بڑا گناہ ہے اور معاشرے میں اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ جب یہ اقدام قابل سزا ہو گا تو اس سے خودکشی کے واقعات سے بچاؤ میں مدد ملے گی''۔ تاہم کونسل نے یہ تجویز بھی دی کہ دفعہ 325 میں ایک شرط کا اضافہ کر کے صرف انہی افراد کے خلاف اقدام خودکشی کا مقدمہ درج کیا جائے جو ذہنی طور پر صحت مند ہوں۔
سینیٹ کمیٹی کے ارکان نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی طور پر بیمار لوگوں کو پہلے ہی ہر طرح کی قانونی کارروائی اور سزا سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اسی لیے انہوں نے تجویز دی کہ سینیٹ کو شہادت اعوان کا پیش کردہ بل اپنی اصل حالت میں ہی منظور کر لینا چاہیے۔
سروپ اعجاز بھی کہتے ہیں کہ خودکشی سے متعلق قوانین کو محض اسلامی نکتہ نظر سے دیکھنے سے غیرمسلم پاکستانی اس پر ہونے والے بحث مباحثے سے خارج ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''خودکشی کے حوالے سے اسلامی احکامات کا اطلاق دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ اس حوالے سے ایک الگ نکتہ نظر کے حامل ہیں''۔
اگر پاکستان میں رہنے والے غیرمسلم افراد کو دفعہ 325 کے اطلاق سے یہ استثنا حاصل ہوتا تو یقیناً سنی کو ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو اسے اپنے خلاف ہونے والی قانونی اور عدالتی کارروائی کے نتیجے میں پیش آئیں۔
تاریخ اشاعت 11 اپریل 2022