English
English
sujag-logo
sujag-logo
ویڈیوز
کمیونٹی
ہوم
postImg

'ابھی تک مدد نہیں پہنچی'،کیچ میں سیلاب سے نقصان اٹھانے والے کھجور کے کاشتکار اور مزدور ازالے کے منتظر

شاہ میر مسعود

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'ابھی تک مدد نہیں پہنچی'،کیچ میں سیلاب سے نقصان اٹھانے والے کھجور کے کاشتکار اور مزدور ازالے کے منتظر

شاہ میر مسعود

loop

انگریزی میں پڑھیں

مکران ڈویژن کے اضلاع پنجگور اور کیچ کھجور کی پیداوار کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن گزشتہ برس آنے والی بارشوں اور سیلاب میں یہاں کھجور کے باغات کو بہت نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے ان علاقوں میں کھجور کی پیداوار بھی معمول سے بہت کم رہی۔

حکومت نے موسمی آفات سے متاثر ہونے والے کسانوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے اعلانات تو کیے لیکن کاشت کاروں کا کہنا ہےکہ اس ضمن میں کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔

کیچ کے ایک متاثرہ کسان شعیب میاں کہتے ہیں کہ سیلاب میں ان کا کھجوروں کا باغ تباہ ہو گیا تھا۔ محکمہ زراعت کے حکام نے علاقے کا دورہ کر کے ہمارے نام اور نقصان کی تفصیلات تو جمع کر لیں لیکن عملی طور پر ان کے نقصان کا کوئی ازالہ نہیں ہوا۔

کھجوروں کی پراسیسنگ کا کام کرنے والی ایک کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مقبول عالم نوری کا شمار مکران ڈویژن کی کھجوریں عالمی سطح پر متعارف کروانے والوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پورے ڈویژن بالخصوص کیچ میں دیگر زرعی اجناس کی نسبت کھجور کی پیداوار زیادہ متاثر ہوئی ہے۔

2022ء میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کے سبب ضلع کیچ میں 140,000 ٹن کھجوریں ضائع ہوئیں جن میں آوار (مکس) اور بیگم جنگی کھجور بھی شامل ہیں۔ ان کا شمار اعلیٰ ترین معیار کی کھجور میں ہوتا ہے اور عالمی منڈی میں ان کی فی ٹن قیمت 800 سے 1000 امریکی ڈالر ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کی طرف سے مقامی کسانوں کو کسی قسم کی مدد فراہم نہیں کی گئی۔

 تربت کے تیئس سالہ عرفان منیر کھجور کی کاشت اور فروخت کے کام سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بارشوں اور سیلاب میں پورے کے پورے باغات تباہ ہو گئے۔ کسانوں کو اس پورے سیزن میں ایک روپے کی آمدنی بھی نہیں ہوئی جس سے ان کے مالی حالات خراب ہو چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سیلاب قبل انہیں کھجوروں کے اپنے باغات سے اچھی پیداوار ہوتی تھی جسے فروخت کے لیے کراچی اور دیگر شہروں کو بھیجا جاتا تھا لیکن امسال ان کا کام بند رہا۔

ضلع کیچ میں محکمہ زراعت کے افسر صحبت خان نے بتایا کہ گزشتہ سال کسانوں کے نقصان کے ازالے کے لیے انہیں گندم کی 8,500 گندم کی بوریاں مفت تقسیم کی گئیں۔ یہ مدد وصول کرنے والوں میں ضلع کیچ کی چاروں تحصیلوں کے کسان شامل تھے۔ رواں برس مئی، جون اور جولائی میں زمینوں کو ہموار کرنے کے لیے کسانوں کو ٹریکٹر کے تقریباً 14 ہزار مزید گھنٹے دیے گئے۔

ضلع کیچ کے علاقے کلاتک نوکہن کے کاشت کار فدا احمد نے بتایا کہ رواں سال کے آغاز پر ہونے والی بارشوں سے کھجور کی پیداوار کو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ امسال پیداوار بہتر تو ہے مگر گزشتہ سال کے بھاری نقصان کا ازالہ نہ ہونے سے کاشت کاروں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے جو کھجور کی فروخت کے عمل میں کھل کر سامنے آئیں گی۔

محکمہ زراعت کے افسر ڈاکٹر نادل شاہ بتاتے ہیں کہ ضلع کیچ میں تقریباً 24 ہزار 800 ہیکٹر رقبے پر کھجوروں کے باغات ہیں جن سے عموماً ایک لاکھ 50 ہزار ٹن سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے تاہم اس سال کھجور کی پیداوار میں بہتری آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بڑا ہی زور ہے اس بار مینہ کے قطروں میں: 'اس سال خیرپور میں کھجور کے کاشت کار قرض کیسے اتاریں گے، مزدور گھر کیسے چلائیں گے؟'

انہوں نے بتایا کہ کھجوروں کی پیداوار اور فروخت کے مختلف مراحل میں کسانوں اور زمینداروں کو کئی طرح کے نقصانات کا خدشہ رہتا ہے۔ شہر میں دکان داروں کو کھجور کی سپلائی، اس کی نقل و حمل اور ذخیرہ کرنے کے دوران بالترتیب 5.7 فیصد، 2.3 فیصد اور 2.5 فیصد پیداوار ضائع ہو جاتی ہے۔

کیچ اور پنجگور میں موزاتی، شکری، پیژناہ، بیگم جنگی، وش شکر، گوک ناہ، پشپاک، ایلینی، آوار اور جدگالی کھجور اپنے ذائقے کی بنا پر خاص شہرت رکھتی ہیں جنہیں بڑی مقدار میں اندرون و بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔ کیچ کی مقامی آبادی کے لیے کھجور اور لسی ایک مرغوب غذا ہے۔

ان علاقوں کی آبادی کے ایک نمایاں حصے کا روزگار کھجور کی کاشت اور فروخت سے وابستہ ہے۔ گزشتہ سال سیلابی آفت کے نتیجے میں جہاں باغات کے مالکان کو نقصان ہوا ہے وہاں ایسے بے شمار گھرانوں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑ گئے ہیں جو کھجور کی کاشت، اترائی، صفائی، پیکنگ اور نقل و حمل کے کام سے روزی کماتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 27 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شاہ میر مسعود کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے ہے۔ وہ نیوز چینل کیلئے رپورٹنگ کے ساتھ مختلف موضوعات پر لکھتے بھی ہیں۔

آخر کب تک اپنے بے گناہ بچوں کی لاشیں اٹھائیں گے

نہ دیکھنے کی اتنی سخت سزا نہ دی جائے