لاہور میں نجی شعبے کے ایک بڑے ہسپتال، ڈاکٹرز ہاسپٹل نے یکم اپریل 2021 کو روس میں بنائی گئی کورونا ویکسین سپوتنک V لگانے کا آغاز کیا جو ایسے لوگوں کو لگائی جا رہی ہے جو کورونا وائرس سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں اور ویکسین کی قیمت ادا کرنے کی سکت بھی رکھتے ہیں۔ یہ ہسپتال اس ویکسین کی دو خوراکوں کے عوض ساڑھے 12 ہزار روپے وصول کر رہا ہے۔
کراچی کے دو نجی ہسپتالوں ساؤتھ سٹی اور او ایم آئی نے بھی یکم اپریل کو ہی ویکسین لگانا شروع کی اگرچہ ان کی قیمت لاہور کے ہسپتال سے قدرے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ساؤتھ سٹی ہسپتال اس ویکسین کی دو خوراکوں کی قیمت 17 ہزار 268 روپے وصول کر رہا ہے۔
یہ ویکسین کہاں سے آئی ہے؟
ڈاکٹرز ہاسپٹل کی انتظامیہ یہ نہیں بتانا چاہتی کہ ان کے ہسپتال نے یہ ویکسین کہاں سے لی ہے مگر اس کے عملے کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ: ''اس سلسلے میں اگر اہمیت ہے تو صرف اس بات کی کہ ہم نے ایک مجاز ادارے سے یہ ویکسین حاصل کی ہے''۔ دوسرے ہسپتال بھی اس موضوع پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ان ہسپتالوں میں ویکسین لگانے کا عمل شروع ہونے سے کچھ ہی گھنٹے پہلے سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک نجی کمپنی علی گوہر فارماسوٹیکلز کو مارکیٹ میں ویکسین کی ترسیل شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس کمپنی نے روسی ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں درآمد کر رکھی تھیں مگر اس کی قیمت پر اس کا حکومت سے تنازعہ شروع ہو گیا۔
ہائی کورٹ نے یہ تنازعہ عارضی طور پر سلجھاتے ہوئے فیصلہ دیا کہ کمپنی اس ویکسین کی دو خوراکیں 12 ہزار 268 روپے میں فروخت کر سکتی ہے اگرچہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے اسی ویکسین کی دو خوراکوں کی قیمت آٹھ ہزار 449 روپے مقرر کی ہوئی تھی۔ عدالت نے ڈریپ کو سات دن میں ویکسین کی قیمت کا دوبارہ تعین کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ''اس مرحلے پر کورونا وائرس کی ویکسین کی فروخت روکنا عوامی مفاد کے خلاف ہو گا''۔
عدالت نے علی گوہر فارماسوٹیکلز کو ویکسین کی فروخت کا مفصل ریکارڈ بھی رکھنے کو کہا اور اسے پابند کیا کہ وہ ڈریپ کی جانب سے ویکسین کی نئی قیمت مقرر کیے جانے کے بعد دونوں قیمتوں میں آنے والا فرق صارفین کو واپس کرنے کی پابند ہو گی۔
قیمت کا جھگڑا
ویکسین کی قیمت پر تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب علی گوہر فارماسوٹیکلز نے روسی ویکسین درآمد کرنے کے بعد حکومت کو اس کی قیمت مقرر کرنے کا کہا۔ اس سے پہلے حکومت نے فروری 2021 میں اعلان کیا تھا کہ نجی شعبہ کورونا ویکسین درآمد کر کے اس کی قیمت جو چاہے مقرر سکتا ہے۔ تاہم شدید عوامی تنقید کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا کیونکہ ناقدین کے مطابق سرکاری حد مقرر نہ کیے جانے کی صورت میں ویکسین کی قیمت بہت زیادہ بڑھ جاتی۔
لہٰذا 18 مارچ کو حکومت نے کہا کہ اب ویکسین کی قیمت ایک فارمولے کے تحت مقرر کی جائے گی جس کی رو سے درآمد کنندگان اسے اپنی قیمت خرید سے 40 فیصد زیادہ پر فروخت کر سکیں گے۔ چنانچہ ڈریپ نے اس فارمولے کے تحت ویکسین کی دو خوراکوں کی قیمت آٹھ ہزار 449 روپے مقرر کر دی۔
یہ قیمت علی گوہر فارماسوٹیکلز کی طرف سے منگوائی گئی ویکسین کی کراچی آمد سے ایک روز بعد مقرر کی گئی تھی۔
علی گوہر فارماسوٹیکلز نے اسے بلا تاخیر مسترد کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ حکومت نے ویکسین کی دو خوراکوں کی قیمت خرید 20 امریکی ڈالر (تین ہزار ایک سو روپے) فرض کی ہے جبکہ اس کی اصل قیمت خرید 45 امریکی ڈالر (چھ ہزار 975 روپے) ہے۔
کمپنی نے حکومت کو انتباہ کیا کہ اگر اسے مناسب قیمت نہ ملی تو وہ ویکسین واپس بھیج دے گی یا کسی ایسے گاہک کو فروخت کر دے گی جو اس کی بہتر قیمت دینے پر تیار ہو۔
جلد ہی یہ تنازعہ سندھ ہائی کورٹ میں پہنچ گیا جہاں علی گوہر فارماسوٹیکلز کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ ڈریپ کی مقرر کردہ قیمت کا اطلاق ان کے موکل کی ویکسین پر ہوتا ہی نہیں کیونکہ جب یہ قیمت مقرر کی گئی تو یہ ویکسین پہلے ہی ملک میں داخل ہو چکی تھی۔
اسی دوران سرکاری اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی کو سامنے لانے والی غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (ٹی آئی پی) نے نیشنل ہیلتھ سروس کی وزارت کو خط لکھا کہ عالمی مارکیٹ میں اس ویکسین کی دو خوراکیں 20 ڈالر میں دستیاب ہیں۔ اس تنظیم نے الزام لگایا کہ علی گوہر فارماسوٹیکلز ان خوراکوں کی قیمت خرید 45 ڈالر بتا کر بدعنوانی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
اس خط میں یہ بھی کہا گیا کہ انڈیا میں سپوتنک V ویکسین کی دو خوراکوں کی قیمت 1464 ہندوستانی روپے (یا 3063 پاکستانی روپے) ہے، لہذا ڈریپ کی مقرر کردہ قیمت (8449 پاکستانی روپے) بھی 2.75 گنا زیادہ ہے۔ خط میں مزید کہا گیا کہ یہ اقدام 2018 میں دواؤں کی قیمت مقرر کرنے کے لیے بنائی گئی سرکاری پالیسی کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت پاکستان میں ادویات کی قیمتیں مقرر کرتے وقت بنگلہ دیش اور انڈیا میں انہی دواؤں کی قیمتیں مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
ٹی آئی پی نے دعویٰ کیا کہ اس پالیسی کے تحت ویکسین کی دو خوراکوں کی قیمت 4800 روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس قیمت کا تعین عالمی منڈی میں ویکسین کی قیمت، اس کی ترسیل پر اٹھنے والے اخراجات اور قیمت خرید پر 40 فیصد منافعے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
محکمہ نیشنل ہیلتھ سروسز کے سیکرٹری عامر اشرف خواجہ نے ٹی آئی پی کو اس کے خط کا جواب تو لکھا لیکن اس میں ان کا زور اس بات پر رہا کہ حکومت کتنی کامیابی سے کورونا وائرس کے خلاف لڑ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ویکسین کی خوردہ قیمت مقرر کرتے ہوئے نجی درآمد کنندگان کے مابین مقابلے کا امکان کھلا رکھا ہے (اگرچہ اب تک مارکیٹ میں اس حوالے سے کوئی مقابلہ بازی دیکھنے میں نہیں آئی کیونکہ صرف ایک کمپنی نے ہی ویکسین درآمد کی ہے) انہوں نے یہ بھی کہا کہ شروع میں حکومت کی طرف سے ویکسین کی قیمت مقرر نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اس کے پاس حوالے کے لیے کوئی غیر ملکی قیمت موجود نہیں تھی لیکن جب حکومت کو پتا چل گیا کہ عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کیا ہے تو پھر دواؤں کی قیمت مقرر کرنے کی پالیسی کے تحت ایک فارمولا وضع کر کے مقامی قیمت بھی مقرر کر دی گئی۔
ٹی آئی پی نے اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا۔ چنانچہ اس نے وزارت قومی صحت کو دوبارہ خط لکھا جس میں کہا گیا کہ نئے سال کے آغاز کے ارد گرد دوسرے ملکوں میں ویکسین کی قیمتیں طے ہو چکی تھیں مگر اس کے باوجود ڈریپ نے انہیں نظر انداز کیا۔ روس کے سرکاری ادارے رشین ڈائریکٹ انویسٹمنٹ فنڈ (آر ڈی آئی ایف) نے نومبر 2020 اعلان کیا تھا کہ سپوتنک V کی ایک خوراک کی قیمت 10 امریکی ڈالر اور دو خوراکوں کی قیمت 20 امریکی ڈالر کے برابر ہو گی۔ اسی طرح 13 جنوری 2021 کو انڈیا نے اعلان کیا کہ اسی ویکسین کی ایک خوراک کی خوردہ قیمت 734 ہندوستانی روپے ہو گی۔
وبا اور امتیازی سلوک
پاکستان کا شمار ان معدودے چند ممالک میں ہوتا ہے جو نجی شعبے کے ذریعے کورونا ویکسین درآمد کر رہے ہیں۔ ایسے دوسرے ممالک میں لبنان، انڈونیشیا اور فلپائن شامل ہیں۔ بہت سے دیگر ممالک میں ویکسین کی درآمد یا اس کی تیاری کی ذمہ داری حکومتوں نے خود اٹھائی ہے۔
لیکن بیشتر غریب ممالک کوویکس نامی ایک عالمگیر پروگرام کے تحت درآمد کی جانے والی کورونا ویکسین پر انحصار کر رہے ہیں۔ یہ پروگرام عالمی ادارہ صحت، غریب ممالک کو ویکسین کے حصول میں مدد دینے والے عالمگیر اتحاد گاوی اور سوئزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک ادارے کے اشتراک سے چلایا جا رہا ہے جو وباؤں کے مقابلے کی تیاری کے حوالے سے اختراعی اقدامات اٹھاتا ہے۔
کوویکس کے تحت پاکستان کو ویکسین کی ایک کروڑ 46 ہزار خوراکیں ملنا ہیں۔ یہ اس پروگرام کے ذریعے کسی بھی ملک کو دی جانے والی ویکسین کی سب سے بڑی مقدار ہے۔ اس کے بعد نائیجیریا کا نمبر آتا ہے جسے ایک کروڑ 36 لاکھ خوراکیں ملیں گی۔ اسی طرح یہ پروگرام انڈونیشیا کو ایک کروڑ 17 لاکھ، بنگلہ دیش کو ایک کروڑ نو لاکھ اور برازیل کو 91 لاکھ خوراکیں دے گا۔
تاہم اس پروگرام کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے تحت تیار کی جانے والی بیشتر ویکسین انڈیا میں بن رہی ہے۔ جہاں ادویہ ساز کمپنیوں کے مطابق ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے ملک کی حکومت کو ویکسین فراہم کریں گے کیونکہ انڈیا کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تین ممالک میں شامل ہے۔ ان ممالک میں امریکہ پہلے اور برازیل دوسرے نمبر پر ہے۔ چنانچہ انڈیا کو اپنی ایک ارب 20 کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی کو کورونا سے بچانے کے لیے ویکسین کی کروڑوں خوراکیں درکار ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی تجارت میں رکاوٹوں کے باعث کمپنیوں کو ویکسین کی تیاری میں استعمال ہونے والے کئی طرح کے خام مال کی کمی کا سامنا ہے۔
چونکہ کوویکس پروگرام کے تحت ویکسین ابھی دستیاب نہیں ہے اس لیے پاکستان کے پاس ویکسین کے حصول کا دوسرا ذریعہ چین ہے جو اسے پانچ لاکھ خوراکیں مفت دے چکا ہے اور مزید 50 لاکھ دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔ اسی عطیے کی بدولت حکومت طبی کارکنوں اور 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ویکسین لگا رہی ہے۔
تاہم اس ویکسین سے ملک کی مجموعی آبادی کا 0.25 فیصد سے بھی کم حصہ مستفید ہو گا۔
دوسری طرف اگر پاکستان کی آبادی میں صرف 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ہی دیکھا جائے تو ان کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان تمام لوگوں کو ویکسین لگانے کے لیے اس کی تین کروڑ خوراکیں درکار ہوں گی۔ اس طرح پاکستان میں کورونا وائرس کے خلاف مجموعی قوت مدافعت پیدا کرنے کے لیے ملکی آبادی کے 60 فیصد سے زیادہ حصے کو ویکسین لگانا ضروری ہے۔ یہ آبادی قریباً 14 کروڑ بنتی ہے جس کے لیے ویکسین کی 28 کروڑ خوراکیں درکار ہیں۔
کیا نجی شعبہ ویکسین کی یہ تمام مقدار درآمد کر سکتا ہے؟ اگر یہ شعبہ فوری طور پر بہت بڑی تعداد میں ویکسین درآمد کرنا شروع کر دے تب بھی اس کی قیمت فروخت ملک کی بہت بڑی اکثریت کی قوت خرید سے باہر ہو گی۔
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس نامی سرکاری ادارے کے مطابق 2019 میں پاکستان میں اوسط ماہانہ گھریلو آمدنی 41 ہزار 545 روپے تھی جبکہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں ہر گھرانہ اوسطاً 6.7 افراد پر مشتمل ہے، یوں 12 ہزار 268 روپے فی فرد کے حساب سے ہر گھرانے کے تمام افراد کو ویکسین لگانے پر 82 ہزار 195 روپے خرچ ہوں گے جو ہر گھرانے کی دو ماہ کی مجموعی آمدنی کے برابر ہے۔
امریکہ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کی تنظیم 'اپنا' ایسے 17 ہزار معالجین کی نمائندگی کرتی ہے جو اس وقت امریکہ اور کینیڈا میں کام کر رہے ہیں۔ اس تنظیم نے بھی وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر ویکسین کی قیمت کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں چھ کروڑ افراد خط غربت سے نیچے رہتے ہیں جنہیں ویکسین سے محروم رکھے جانے کی صورت میں پاکستان میں کورونا وبا بد ترین شکل اختیار کر سکتی ہے۔
یہ بات بہرحال طے ہے کہ نجی شعبے کے ذریعے ویکسین فروخت کرنے کی حکومتی پالیسی بہت جلد ملک میں ایک تقسیم پیدا کرے گی جس کے ایک طرف وہ چھوٹی سی اقلیت ہو گی جو ویکسین کی قیمت دے سکتی ہے اور دوسری طرف بہت بڑی اکثریت ہو گی جو مفت ویکسین کا انتظار کرتی رہے گی۔
اسی لیے ٹی آئی پی نے اس پالیسی کو ''ناکارہ'' قرار دیا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ نجی شعبے کو ویکسین کی درآمد اور اپنی مرضی کی قیمت پر اس کی فروخت کی اجازت دینا ''بدنیتی پر مبنی اقدام'' ہے۔
کیا ہو سکتا ہے؟
نجی شعبے کو ویکسین کی درآمد کی اجازت دینے والے بقیہ تین ممالک نے پاکستان سے بالکل الگ حکمت عملی اختیار کی ہے۔، انڈونیشیا، فلپائن اور لبنان تینوں نے نجی کاروباری اداروں کو صرف ان کے ملازمین کے لیے ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دی ہے جسے مارکیٹ میں فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں
کورونا وبا سے فیکٹریوں کی بندش: لاہور کی سینکڑوں مزدور خواتین نوکریوں سے نکال دی گئیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا بھر کی حکومتیں اپنے خزانے سے ہر خاص و عام کے لیے ویکسین خرید رہی ہیں۔ ابتدائی طور پر پاکستان نے بھی ویکسین خریدنے کے لیے 24 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اس سال مارچ میں وزارت قومی صحت کے سیکرٹری عامر اشرف خواجہ نے کہا کہ حکومت کا کم از کم 2021 میں تو ویکسین خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ پاکستان ویکسین لگانے کے معاملے میں اپنے ہمسایہ ممالک سے کہیں پیچھے ہے۔ عالمگیر پالیسی امور پر کام کرنے والے آن لائن ادارے 'آور ورلڈ ان ڈیٹا' کے مطابق ویکسین تک لوگوں کی رسائی کے اعتبار سے پاکستان جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔
تاہم اگر پاکستان سرکاری خزانے سے ویکسین کی خریداری شروع کر دے تو تب بھی 24 ارب روپے اس مقصد کے لیے بہت کم رقم ہے۔ اسلام آباد میں سرکاری فنڈز سے چلنے والے ایک تحقیقی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 24 ارب روپے سے ملکی آبادی کے ایک معمولی سے حصے کو ہی ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان کو 18 سال سے زیادہ عمر کے 13 کروڑ 70 لاکھ افراد کے لیے ویکسین کی 27 کروڑ 40 لاکھ خوراکیں درکار ہیں۔
فی خوراک 10 ڈالر کے حسااب سے اتنی ویکسین حاصل کرنے کے لیے حکومت کو 2.74 ارب ڈالر خرچ کرنا ہوں گے، لیکن اس کے برعکس اس نے ویکسین کے لیے جو رقم مختص کرنے کا اعلان کیا ہے وہ محض ایک کروڑ 58 لاکھ امریکی ڈالر بنتی ہے۔
علی گوہر فارماسوٹیکلز میں ڈائریکٹر کمیونیکیشنز کے عہدے پر کام کرنے والے عمیر مختار کہتے ہیں کہ نجی شعبہ اس میں سے کچھ نہ کچھ تو بوجھ ہلکا کر ہی سکتا ہے لہٰذا جو لوگ ویکسین کی قیمت ادا کر سکتے ہیں انہیں اسے لگوانے کا موقع ضرور ملنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ''اگر مجموعی ملکی آبادی کا صرف تین فیصد حصہ ویکسین کی قیمت ادا کر سکتا ہے تو ان لوگوں کو ویکسین لگانے کے نتیجے میں کورونا سے محفوظ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو گا''۔
نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت میں انفارمیشن افسر کے عہدے پر کام کرنے والے ساجد شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت یہ بات یقینی بنانے کے لیے اقدام کر رہی ہے کہ اس سال کے آخر تک پاکستان کی آبادی کی اکثریت کو ویکسین لگا دی جائے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ شدید عوامی تنقید کے باوجود حکومت نے وبا کے آغاز میں طبی کارکنوں کے لیے کورونا سے بچاؤ کا سازوسامان مہیا کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی حالانکہ اس وقت اس سامان کی سپلائی بہت محدود تھی۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ حکومت کورونا کے قریباً تمام مریضوں کا مفت علاج کر رہی ہے حالانکہ ناقدین کا خیال تھا کہ یہ ایسا نہیں کر پائے گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ویکسین کا مسئلہ بھی بر وقت حل کر لیا جائے گا۔
ان کا یہ بے باکانہ دعویٰ حیران کن ہے کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت تین دہائیوں میں بھی ملک کی 100 فیصد آبادی کو پولیو ویکسین لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 8 اپریل 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 2 جون 2022