محمد خلاص خان نے چار ایکڑ رقبے پر کپاس کی فصل کاشت کر رکھی ہے جس پر وہ اب تک ساڑھے چار لاکھ روپے خرچ کرچکے ہیں۔ چونکہ اب فصل چنائی کے مرحلے میں آگئی ہے تو انہیں یوں لگتا ہے کہ وہ اس فصل سے منافعے کے بجائے گھاٹا کھائیں گے اور اس کی ایک معقول وجہ ہے۔
خلاص کی عمر 35 سال ہے اور وہ میانوالی سے دس کلومیٹر مشرق میں واقع گاؤں مسلانوالہ میں رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے فی ایکڑ رقبے پر اب تک آںے والے اخراجات ایک لاکھ 12 ہزار روپے ہیں۔ فصل کی برداشت تک یہ بڑھ کر ایک لاکھ 40 ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔
چند دن پہلے انھوں نے پہلی چنائی کرائی ہے جو فی ایکڑ چار من رہی اور یہ ان کی توقعات سے تین من کم ہے۔
اب اگلی دو چنائیوں میں وہ زیادہ سے زیادہ 15 من کپاس حاصل کرلیں گے جو مجموعی طور پر 19 من ہو جائے گی۔ سرکاری اداروں کی اطلاعات کے مطابق میانوالی میں پچھلے تین سالوں کی اوسط فی ایکڑ پیداوار بھی 19 من ہی ہے۔
خلاص کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے مقرر کردہ 8500 روپے کے حساب سے 19 من پیداوار کی قیمت نکالی جائے تو یہ ایک لاکھ 61 ہزار 500 روپے کی بنتی ہے۔
اس قیمت میں سے فصل کی چنائی کے لیے دی جانے والی مزدوری فی کلو 20 روپے کے حساب سے 15 ہزار 200 روپے بنے گی۔
اگر موسمی حالات ٹھیک رہے اور فصل بیماری سے بچی رہی وہ فی ایکڑ سے 5800 روپے آمدن حاصل کرلیں گے جو ان کے بقول چھ ماہ کی محنت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
خلاص بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال بھی انہوں نے کپاس کی فصل کاشت کی تھی جو چھ ہزار روپے فی من تک فروخت ہوئی تھی۔ اس مرتبہ حکومت نے فصل کی کم از کم قیمت 8500 روپے مقرر کی تو یوں لگا کہ کسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہوجائے گا اسی لیے انہوں ںے ایک بار پھر یہ فصل کاشت کرلی لیکن بدقسمتی سے پچھلے پانچ چھ ماہ کے دوران زرعی مداخل کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے کہ اب اخراجات واپس مل جائیں تو بھی غنیمت ہے۔
خلاص خان کا تعلق ضلع میاںوالی کے ایسے علاقے سے ہے جہاں کسانوں کو نہری پانی کی سہولت میسر نہیں ہے بلکہ انہیں بجلی یا ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویل کی مدد سے فصلوں کو سیراب کرنا پڑتا ہے۔
صوبائی محکمہ زراعت کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ضلع میاںوالی میں کل زیر کاشت رقبہ 9 لاکھ 52 ہزار 202 ایکڑ ہے لیکن اس میں سے صرف دو لاکھ تین ہزار 691 ایکڑ رقبے کو ہی نہری پانی دستیاب ہے۔
خلاص بتاتے ہیں کہ پچھلے سال ٹیوب ویل کے پانی کے ایک گھنٹے کی قیمت 2200 روپے تھی جو اب 3600 تک پہنچ گئی ہے جبکہ کچھ علاقے میں تو یہ ریٹ 4200 روپے بھی ہے۔
محکمہ زراعت کے مطابق کپاس کی فصل کو آٹھ پانی لگانا پڑتے ہیں لیکن خلاص کے بقول بارشیں ہوتی رہیں تو یہ تعداد کم ہوجاتی ہے۔ عمومی طور پر اس علاقے میں فصل کو چھ بار پانی دینا پڑتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے اور آس پاس کے گاؤں میں زیر زمین پانی پانچ سو فٹ سے بھی نیچے چلا گیا ہے جسے نکالنے کے لے بجلی کی بڑی موٹریں لگانا پڑتی ہیں جو زیادہ یونٹ استعمال کرتی ہیں جس سے بل بھی زیادہ آتا ہے۔
اس کے علاوہ بعض زرعی ٹیوب ویل ٹریکٹر کی مدد سے چلائے جاتے ہیں جن میں ڈیزل استعمال ہوتا ہے۔ پچھلے سال کی نسبت ڈیزل کی قمیتوں میں بھی دوگنا اضافہ ہوگیا ہے۔
اس طرح یہاں کا کسان ایک گھنٹہ ٹیوب ویل چلانے کے لیے 3600 روپے معاوضہ دے رہا ہے اور ایک ایکڑ رقبے کو ایک بار پانی دینے میں تین گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ یعنی ایک پانی کی لاگت 10 ہزار 800 روپے اور چھ بار پانی دینے کی لاگت 64 ہزار 800 روپے بنتی ہے۔
"اسی طرح ڈی اے پی کھاد 8000 سے 12000، یوریا کھاد 2000سے 3800 روپے بوری تک چلی گئی ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے زمین کی تیاری کے لیے ٹریکٹر سے ایک بار ہل چلانے کا ریٹ 2100 سے بڑھ کر اب 3000 تک پہنچ چکا ہے۔ زرعی ادویات بھی لگ بھگ دوگنا قیمت پر مل رہیں ہیں۔"
خلاص کو اب افسوس ہورہا ہے کہ انھوں نے سرکاری اداروں کی بات مان کر کپاس کاشت کرلی ہے۔
حکومت پنجاب نے اس مرتبہ زیر کاشت رقبہ بڑھانے کے لیے" کپاس اگاؤ معیشت بچاؤ مہم" چلائی۔ جس میں ایک تو فصل کی کم از کم امدادی قیمت 8500 روپے مقرر کی گئی، دوسرا انہیں نہری پانی کی فراہمی اور کنٹرول ریٹ پر کھادیں اور معیاری زرعی ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا گیا جس سے متاثر ہو کر خلاص خان جیسے میاںوالی اور پنجاب کے کئی کاشت کاروں نے زیر کاشت رقبے میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ کردیا۔
میانوالی میں کپاس کے زیر کاشت رقبے کی بات کی جائے تو وہ پچھلے سال 2022 میں ایک لاکھ 43 ہزار تھا جبکہ رواں سال یہ ایک لاکھ 54 ہزار 490 ایکڑ پر چلا گیا ہے۔
اس طرح پنجاب اور پورے پاکستان میں بھی کپاس کے زیر کاشت رقبے میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی محکمہ زراعت میں بیرون ملک زرعی خدمات کے شعبے نے 28 اگست 2023 کو پاکستان میں کپاس کی صورتحال کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق رواں سال ملک میں کپاس کے زیر کاشت رقبے کا اندازہ 2.5 ملین ہیکٹر (61 لاکھ 75 ہزار ایکڑ) ہے جو پچھلے سال کی نسبت 28 فیصد اور سال 18-2017 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ پیداوار کا تخمینہ 6.5 ملین بیلز لگایا گیا ہے جو پچھلے سال سے 67 فیصد زیادہ ہے۔ زیر کاشت رقبے اور پیداوار میں اضافہ پاکستان میں کپاس کی قیمت میں اضافے کے امکانات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ ستمبر عام طور پر کپاس کی فصل کے لیے انتہائی اہم مہینہ ہوتا ہے اور حالیہ چند برس کے دوران اس مہینے اوسط سے کم درجہ حرارت اور ہوا میں زیادہ نمی کے اثرات ظاہر ہوئے ہیں جو فصل کے نقصان دہ کیڑوں کے لیے سازگار ہیں۔ اس لیے اس مہینے میں کسانوں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
خلاص کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے کاشت کار محمد ایوب خان تین ایکڑ رقبے کے مالک ہیں اور انہوں نے بھی اس پر کپاس کاشت کر رکھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کپاس کی کاشت کے وقت بارشوں اور آندھیوں نے کاشتکاروں کا نقصان کیا۔ اب جب فصل تیار ہوگئی ہے تو ملی بگ اور تھرپس بیماری نے حملہ کر دیا ہے جس سے اوسط پیداوار پہ فرق پڑے گا۔
ان کے بقول سوائے امدادی قیمت بڑھانے کے "کپاس اگاؤ، معیشت بچاؤ" مہم کے لیے حکومت کی طرف سے کسانوں کے ساتھ کیا گیا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں
'کپاس اگاؤ معیشت بچاؤ'، بہاولپور ڈویژن کے کسان زیادہ کپاس اگا کر بھی پریشان
امدادی قیمت کیوں بڑھائی گئی تھی اس بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ملک میں ڈالر اور عالمی منڈی میں کپاس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہوا ہے جس کا پاکستان کے کسانوں کو بھی کچھ فائدہ پہنچا ہے کیوں کہ اس مرتبہ کپاس ساڑھے آٹھ ہزار سے ساڑھے نو ہزار روپے میں فروخت ہورہی ہے۔
انٹرنیشنل مارکیٹ میں 21 ستمبر 2022 کو کپاس کی فی من قیمت ساڑھے 22 ہزار روپے رہی ہے۔
کسان اتحاد نامی غیر سرکاری تنظیم کے میانوالی میں ضلعی صدر عبدالقادر خان کہتے ہیں کہ رواں سال مہاڑ ایریا (جہاں خلاص خان اور ایوب کا گاؤں ہے) میں ٹیوب ویل کا اوسطاً بجلی بل جو پچھلے سال 8 لاکھ سے 10 لاکھ تک تھا وہ اب 14 لاکھ سے 18 لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے خلاف ان کی تنظیم نے 13 ستمبر کو ڈی سی آفس میانوالی کے باہر احتجاج بھی کیا تھا۔
ان کے کہنا ہے کہ بجلی کے بل جمع کرانے کے لیے کسان اپنے مویشی بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ کپاس کے مقررہ ریٹ پر نظر ثانی کرے اور کم سے کم ریٹ 13 سے 14 ہزار فی من مقرر کرے تاکہ کسان کو بھی منافع مل سکے۔
جب میانوالی کے ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت (توسیع ) ملک محمد نواز سے کسانوں کی شکایات کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ سرکاری قیمت کے علاوہ حکومت پنجاب نے کپاس کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے نقد انعامات بھی رکھے ہیں۔ صوبائی سطح پر جو کاشت کار سب سے زیادہ پیداوار لے گا اسے 15 لاکھ روپے انعام ملے گا۔ اسی طرح دوسرا انعام 12 لاکھ اور تیسرا انعام 10 لاکھ روپے ہے۔ ضلعی سطح پر بھی کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایسے انعامات رکھے گئے ہیں جن میں پہلا انعام 8 لاکھ، دوسرا انعام 6 لاکھ جبکہ تیسرا انعام 5 لاکھ مقرر کیا گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 23 ستمبر 2023