طبی معائنہ ہوا نہ میڈیکل بورڈ بنا: ساہیوال میں جنسی زیادتی کا شکار مسیحی بچی کو انصاف کے لیے کڑی جدوجہد کا سامنا

postImg

الویرا راشد

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

طبی معائنہ ہوا نہ میڈیکل بورڈ بنا: ساہیوال میں جنسی زیادتی کا شکار مسیحی بچی کو انصاف کے لیے کڑی جدوجہد کا سامنا

الویرا راشد

loop

انگریزی میں پڑھیں

"میری بیٹی مغرب کے وقت دکان سے چیز لینے گئی مگر واپس نہ آئی۔ گاؤں میں تلاش کرنے پر وہ نہ ملی تومیں لوٹ آیا۔ کچھ دیر کے بعد گھر کے باہر مجھے اپنی بچی کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ زخمی حالت میں کھڑی تھی۔ وہ وقت میرے لیے انتہائی اذیت ناک تھا۔ اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔"

یہ کہنا ہے ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی کے گاؤں 40/12 ایل  کے جاوید مسیح کا۔ وہ محنت مزدوری کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ متاثرہ بیٹی کی عمر سات سال ہے۔

وہ بیٹی کو فوراً تحصیل ہسپتال چیچہ وطنی لے گئے۔ ڈاکٹروں نے اسے ضلعی ہسپتال ساہیوال ریفر کر دیا جہاں سے اسے جلد ہی گھر واپس بھیج دیا گیا۔

جاوید کے مطابق ان کی بیٹی خوف کا شکار ہے۔ وہ بول نہیں پا رہی اور اس کی ذہنی حالت بھی ٹھیک نہیں رہی۔"

تحصیل ہسپتال چیچہ وطنی کے ایم ایس ڈاکٹر کاظم کہتے ہیں کہ بچی کو جب ہسپتال لایا گیا تو اس کی حالت خراب تھی اور اس کا خون بہہ رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے اسے ابتدائی طبی امداد دی۔ بچی کو خون بھی لگایا گیا۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد بچی کو ساہیوال کے ضلعی ہسپتال ریفر کر دیا گیا کیونکہ چیچہ وطنی کے ہسپتال میں بچوں کی سرجری کی سہولت موجود نہیں ہے۔

ولسن رضا ایک نجی صحافتی ادارے میں بطور رپورٹر کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس واقعے کو تین ہفتے ہو چکے تھے، نہ تو طبی رپورٹ سے کچھ واضح ہو سکا تھا اور نہ ہی پولیس نے عدالت میں بچی کا بیان دلوایا تھا۔ مسیحی فلاحی تنظیموں کے تعاون سے ہی بچی کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس کا بیان ریکارڈ ہوا۔

ولسن بتاتے ہیں کہ متاثرہ بچی کے خاندان کو دباؤ کا سامنا ہے۔ انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ کیس کی پیروی نہ کریں۔ ملزموں کو بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کے مطابق ایسے واقعات میں بالخصوص مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے لگوں کو انصاف کے لیے طویل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

تھانہ صدر چیچہ وطنی کے انچارج ڈی ایس پی وسیم کا کہنا ہے کہ بچی سے زیادتی کے ملزم شہیر کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

محمد امین اس کیس کے تفتیشی افسر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ زیرحراست ملزم سے تفتیش کا عمل جاری ہے اور میرٹ کی بنیاد پر اس کیس کا فیصلہ کیا جائے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات میں متاثرہ فرد کا طبی معائنہ جلد از جلد ہونا چاہیے۔ بچی کو تحصیل ہسپتال چیچہ وطنی لے جایا گیا جہاں سے اسے ضلعی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ضلعی ہسپتال کے ڈاکٹر نے ابھی اپنی حتمی رائے دینی ہے۔ اس کے بعد ہی کیس آگے چل سکے گا۔

بچی کے وکیل ندیم حسن بتاتے ہیں کہ تحصیل ہسپتال چیچہ وطنی کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ خون زیادہ بہہ رہا تھا اس لیےبچی کے سویب کے نمونے نہیں لیے گئے۔ ڈاکٹروں نے اپنی رپورٹ میں زیادہ خون بہنے کی وجہ نہیں لکھی اور بچی کو ٹانکے لگا کر ضلعی ہسپتال ریفر کر دیا گیا۔ دوسری طرح ضلعی ہسپتال کی رپورٹ سے معلوم نہیں ہوتا کہ بچی کے ساتھ کیا ہوا۔

انہوں نے ہسپتال سے بچی کے علاج کا ریکارڈ مہیا کرنے کی درخواست دے رکھی ہے۔ اس کے بعد ہی وہ میڈیکل بورڈ بنانے کے لیے درخواست دیں گے۔

وہ بتاتے ہیں کہ قانون کے مطابق، ایسے واقعات میں 24 گھنٹوں میں طبی معائنہ ہو جانا چاہیے۔ اس بچی کے کیس میں 22 دن گزر جانے کے باوجود ابھی تک میڈیکل رپورٹ ہی واضح طور پر سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے تاحال ملزم کی گرفتاری ہی نہیں ڈالی اور نہ ہی اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔

ان کا الزام ہے کہ غیر مسلم متاثرین کے بارے میں پولیس کا رویہ عموماً منفی ہوتا ہے۔ مذکورہ کیس میں بھی متاثرہ بچی کے خاندان کو انتہائی دباؤ کا سامنا ہے۔ پولیس کی طرف سے بچی کے خاندان والوں کو بلاوجہ تنگ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ کیس کی پیروی چھوڑ دیں۔"

سماجی کارکن اشک ناز کا کہنا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ملزموں کو سزا ملنے کی شرح کم ہے۔ ایسے مقدمات عام طور پر تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے سبب لوگ ان کی پیروی کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ملک میں قانونی چارہ جوئی کرنا بھی ایک مہنگا کام ہے جسے غریب لوگ برداشت نہیں کر سکتے۔

وائس آف جسٹس کے چیئرمین جوزف جانسن کا کہنا ہے کہ جاوید کی بیٹی کی طرح مذہبی اقلیتوں کی لڑکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ انصاف کی تلاش میں انہیں پولیس اور دیگر محکموں کے اہلکاروں سے تعاون ملنے کا امکان کم ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

وڈیو ثبوت کے باوجود خیرپور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والا کیسے بری ہو گیا؟

مس شمسہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود اقلیتی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک ایسا خطرہ ہے جو معاشرے میں چاروں طرف منڈلا رہا ہے اور مذہب سے قطع نظر تمام بچیاں اس خطرے کے سامنے غیرمحفوظ ہیں۔

دو برس سے بھی کم عرصے میں ساہیوال میں مسیحی بچی کے ساتھ زیادتی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔

قبل ازیں گاؤں 134 نائن ایل کی آٹھ سالہ مسیحی بچی "ع" کے ساتھ 2 ستمبر 2021ء کو جنسی زیادتی کا نشنانہ بنایا گیا۔ متاثرہ بچی کا خاندان بصد کوشش اعلیٰ عدالتوں سے انصاف لینے میں کامیاب ہوا جس کے نتیجے میں اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ملزم محمد بوٹا کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم ملزم کے خاندان کی جانب سے دباؤ کے باعث متاثرہ بچی کے اہلخانہ دوسرے گاؤں میں منتقل ہو گئے تھے۔

تاریخ اشاعت 9 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

الویرا راشد کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ پچھلے دس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ شہری مسائل اور زراعت ان کی دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.