آصو ملنگ ہر وقت ایک ہی بات کہتے رہتے ہیں: "یہاں فیکٹری نہیں لگ سکتی۔ اگر ایسا ہوا تو ہم اور ہمارے مویشی بھوکے مر جائیں گے"۔
ان کا اصلی نام محمد آصف ہے اور وہ شمالی پنجاب کے ضلع چکوال کی تحصیل چوآسیدن شاہ کی جھنگڑ نامی وادی میں پچھلی تین دہائیوں سے بکریاں چَرا رہے ہیں۔ وہ بھروال نامی مقامی گاؤں کے باشندے ہیں لیکن نہ تو ان کی شادی ہوئی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی گھر بار ہے۔ چونکہ وہ ہر وقت اپنی ذات اور بکریوں میں مگن رہتے ہیں اس لیے مقامی لوگ انہیں ملنگ کہتے ہیں۔ جب سے انہوں نے سنا ہے کہ ان کے علاقے میں ایک سیمنٹ فیکٹری لگائی جا رہی ہے تب سے وہ پریشان ہیں کہ ان کی بکریوں کا کیا ہو گا۔
جھنگڑ وادی میں رہنے والے تقریباً سبھی لوگوں کو اسی قسم کے سوالوں کا سامنا ہے۔
محمد سلیم نامی ایک 45 سالہ مقامی کسان کو لگتا ہے کہ فیکٹری کی تعمیر سے ان کے خاندان کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک ہو جائے گا کیونکہ، ان کے مطابق، ان کی آٹھ ایکڑ اراضی ساری کی ساری اس کی مجوزہ حدود کے اندر آ رہی ہے۔ اس میں سے چار ایکڑ زمین ایک مقامی پہاڑ پر واقع ہے جہاں گھنا جنگل اگا ہوا ہے جبکہ باقی زمین وادی میں ہے جو قدرے ہموار ہے۔ اسے وہ خریف (خزاں) میں ایک نجی چراگاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ربیع (بہار) میں اس پر گندم کاشت کرتے ہیں۔
دو اگست 2022 کی دوپہر وہ اپنی بیوی کے ساتھ مل کر اپنے گھر سے متصل باڑے کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہیں جس میں تین بھینسوں اور چار گائیوں سمیت چھوٹے بڑے 15 مویشی باندھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے چھ افراد پر مشتمل کنبے کے گھریلو اخراجات اور ان کے چار بچوں کی تعلیم کا خرچہ دونوں انہی مویشیوں کے دودھ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پورے ہوتے ہیں۔ چونکہ ان مویشیوں کی خوراک کا انحصار ان کی چار ایکڑ ہموار اراضی پر ہے اس لیے انہیں معلوم نہیں کہ اس زمین سے ہاتھ دھو بیٹھںے کے بعد وہ اپنا گھر بار کیسے چلائیں گے۔
فیکٹری بمقابلہ عوام
تقریباً تین ہزار سات سو فٹ بلند چہل ابدال نامی پہاڑ کے دامن میں واقع جھنگڑ وادی ایک صحت افزا مقام ہے جہاں دوسرے علاقوں کے رہنے والے بہت سے لوگ سیر کے لیے آتے ہیں کیونکہ سخت گرمی میں بھی اس کا موسم خوشگوار رہتا ہے۔ اس میں جابجا گھنے جنگل اور سرسبز چراگاہیں ہیں جہاں مویشی آزادانہ گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔
لکی سیمنٹ (پرائیویٹ) لمیٹڈ نامی ایک نجی کاروباری ادارے نے مارچ 2022 میں پنجاب حکومت کے محکمہ معدنیات اور کان کنی کو درخواست دی کہ وہ اس علاقے میں تقریباً 25 ارب روپے کی لاگت سے ایک فیکٹری لگانا چاہتی ہے جو روزانہ 10 ہزار ٹن سیمنٹ تیار کرے گی۔ کمپنی کے مطابق یہ فیکٹری چہل ابدال پہاڑ کے شمال میں آٹھ سو 31 ایکڑ اراضی پر قائم کی جائے گی جبکہ اس کے لیے درکار خام مال (خاص طور پر چونے کے پتھر) کی کان کنی اس پہاڑ کے جنوب میں پانچ ہزار پانچ سو 85 ایکڑ اراضی پر کی جائے گی۔
کمپنی نے اس منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں ایک رپورٹ بھی تیار کی اور اسے اپنی درخواست کے ساتھ ہی صوبائی حکومت کو جمع کرایا۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فیکٹری کے قیام سے مقامی ماحول، معیشت اور معاشرت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا کیونکہ اس کی تنصیب اور اس کے خام مال کی کان کنی کے لیے درکار زمین کی اہمیت بنجر علاقے سے زیادہ نہیں ہے اور اس کے آس پاس کوئی بڑی آبادی بھی نہیں ہے۔
تاہم محمد سلیم جھنگڑ وادی کو بنجر قرار دیے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین موجود ہے جس پر گندم، دالیں اور چارہ جات اگائے جاتے ہیں۔ وہ رپورٹ میں کیے گئے اس دعوے کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ فیکٹری کا مجوزہ علاقہ بے آباد ہے۔ اس کے برعکس ان کا کہنا ہے کہ اس میں بھروال، ڈیرہ راجگان، لہڑی شاہنواز، وگھوال بالا، کھلوٹ، لہڑی پٹھان، بشارت گاؤں اور بشارت بازار، لہڑی ہجیال، چندو اور لہڑ سلطان نامی متعدد دیہات واقع ہیں جن کی آبادی کئی ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ تازہ ترین سرکاری مردم شماری کے مطابق یہ دیہات قانون گوئی سرکل جھنگڑ کا حصہ ہیں جس کی کل آبادی 74 ہزار چھ سو 99 افراد پر مشتمل ہے۔
پنجاب کے محکمہ معدنیات اور کان کنی کے ڈائریکٹر جنرل کے نام لکھی گئی ایک درخواست میں بھی مقامی لوگوں نے کہا ہے کہ فیکٹری کی تنصیب اور اس کے لیے خام مال کی کان کنی سے متعدد مقامی بستیاں، سینکڑوں ایکڑ زرعی زمین، بازار، قبرستان اور چراگاہیں برباد ہوجائیں گے اور مقامی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونا پڑے گا۔
محمد سلیم اس نقل مکانی کی ایک اور ممکنہ وجہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جھنگڑ وادی کے بیشتر گھروں میں مقامی جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی بطور ایندھن استعمال ہوتی ہے۔ لیکن، ان کے مطابق، سیمنٹ کی فیکٹری کے لگنے اور چلنے سے ان جنگلات کا ایک بڑا حصہ ختم ہو جائے گا جس کے باعث اس لکڑی کا حصول تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
مردم شماری کے اعدوشمار بالواسطہ طور پر ان کے خدشات کی توثیق کرتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ، ان کے مطابق، ضلع چکوال میں 70 فیصد گھرانے لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں جبکہ باقی پنجاب میں مجموعی طور پر ایسے گھرانوں کی شرح 58 فیصد ہے۔
عوامی سماعت کا سرکاری طریقہ کار
بھروال کے پڑوس میں واقع کوٹ بہادر شاہ نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیور محمد خرم جھنگڑ وادی کو "جنت کا ٹکڑا" سمجھتے ہیں اور اس میں فیکٹری لگانے کا منصوبہ بنانے اور اس میں ان کی مدد کرنے والوں کو "غاصب اور مفاد پرست" قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کا راستہ روکنے کے لیے ان کے علاقے کے سرکردہ افراد نے ایک ایکشن کمیٹی بنا رکھی ہے جو فیکٹری کے قیام کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھا رہی ہے۔
اس کمیٹی میں مقامی یونین کونسلوں کے سابق سربراہ، کونسلر، لمبر دار، مقامی وکیل اور سماجی کارکن شامل ہیں جو مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے 2 اگست 2022 کو بشارت نامی مقامی گاؤں کے ایک سرکاری سکول میں جمع ہوئے۔ اس اجتماع کے کچھ شرکا کا خیال تھا کہ انہیں فوری طور پر عدالت سے رجوع کرنا چاہیے جبکہ باقی لوگ کہہ رہے تھے کہ حکومتی ایوانوں تک اپنی بات پہنچانے کا سب سے موثر ذریعہ ایک بھرپور احتجاجی مظاہرہ ہے۔
اس کمیٹی کے کنوینر چوہدری عمران گل کہتے ہیں کہ انہیں درپیش سب سے بڑی رکاوٹ "فیکٹری مالکان کا اثرورسوخ" ہے جس کے سامنے "سرکاری اہل کار بے بس نظر آتے ہیں"۔ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے وہ پنجاب حکومت کے محکمے، ادارہ برائے تحفظ ماحول، کی جانب سے یکم جولائی 2022 کو منعقد کی گئی ایک عوامی سماعت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس ادارے نے ابتدائی طور پر اعلان کیا تھا کہ یہ سماعت مقامی قصبے چوآ سیدن شاہ کے ایک ہوٹل میں ہو گی لیکن پھر کوئی وجہ بتائے بغیر اس کی جگہ تبدیل کر دی گئی تاکہ "مقامی لوگ اس میں شامل ہو کر فیکٹری کی مخالفت نہ کر سکیں"۔
چنانچہ، ان کے مطابق، سرکاری حکام اور فیکٹری مالکان نے چوری چھپے یہ سماعت چوآگنج علی شاہ نامی گاؤں کے سکول میں کرنا شروع کر دی جہاں "انہوں نے بعض مقامی لوگوں کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش بھی کی"۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "جیسے ہی اہلِ علاقہ کو اس کے بارے میں خبر ہوئی تو وہ بڑی تعداد میں اس سکول میں پہنچ کر احتجاج کرنے لگے جس کی وجہ سے یہ سماعت مکمل نہ ہوسکی"۔
ایکشن کمیٹی کے ارکان کا خیال تھا کہ اس واقعے کے پیشِ نظر سرکاری حکام آئندہ انہیں فیکٹری کے قیام کے سلسلے میں ہونے والی ہر پیش رفت سے آگاہ رکھیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ 12 اگست 2022 کو انہیں اطلاع ملی کہ 27 روز پہلے ادارہ برائے تحفظ ماحول کے ڈائریکٹر جنرل اور لکی سیمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ نے ایک مشترکہ اخباری اشتہار میں اعلان کیا ہے کہ عوامی سماعت اب رواں مہینے کی 29 تاریخ کو ہو گی۔ چوہدری عمران گل کہتے ہیں کہ "اس اشتہار کو صرف لاہور اور راولپنڈی کے دو غیر معروف اخبارات، اذکار اور آجر، میں چھاپا گیا تھا" تاکہ جھنگڑ وادی میں رہنے والوں کو اس کا پتہ ہی نہ چل سکے۔
اس سرکاری رویے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اِس مہینے کی 15 تاریخ کو ایکشن کمیٹی کے ارکان اور کچھ دیگر لوگ لاہور میں ادارہ برائے تحفظ ماحول کے دفتر پہنچ گئے جہاں موجود اہل کاروں نے ان کی شکایات سننے کے بعد اسی شام لکی سیمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کو ایک خط لکھ کر مطلع کیا کہ عوامی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس خط میں یہ بھی کہا گیا کہ فیکٹری کے منصوبے کے خلاف حکومت کو بہت سی درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور مقامی لوگ بھی اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں چنانچہ ادارہ برائے تحفظ ماحول نے متعلقہ محکموں کے اہل کاروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اس کے لیے تجویز کردہ مقام کا معائنہ کرکے یہ طے کرے گی کہ آیا یہ جگہ اس کے قیام کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔
ہرے جنگل بدلتے جا رہے ہیں کارخانوں میں
چوہدری عمران گل کے پاس موجود ایک فائل کور میں بہت سی درخواستوں کی نقول موجود ہیں جو انہوں نے مختلف محکموں کو بھیجی ہیں۔ ان میں سے ایک درخواست ماحولیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمان کے نام بھی ہے جو، ان کے بقول، انہوں نے اسلام آباد میں ان سے ملاقات کرکے خود انہیں پیش کی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ سیمنٹ فیکٹری کے خام مال کی کان کنی کے لیے مانگی جانے والی زمین کا ایک بڑا حصہ سرکاری اور نجی جنگلات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک ہزار دو سو 50 ایکڑ اراضی پر پھیلے ہوئے جنگلات مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں جن میں لاکھوں درخت موجود ہیں۔
ان جنگلات کی موجودگی کی وجہ سے ہی پنجاب کے محکمہ جنگلات نے بھی کان کنی کے لیے درکار زمین کے اس مجوزہ نقشے کو مسترد کردیا تھا جو لکی سیمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کی طرف سے ابتدائی طور پر حکومت کو فراہم کیا گیا تھا۔ محکمے کا کہنا تھا کہ اس نقشے میں دریگن اور پریڑہ نامی دو سرکاری جنگلات کی زمین کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اس لیے اسے منظور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے چکوال میں قائم دفتر کی طرف سے یکم اگست 2022 کو چکوال ہی میں متعین ادارہ برائے تحفظِ ماحول کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو لکھے گئے ایک خط میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ فیکٹری کی تنصیب اور اس کے خام مال کی کان کنی سے جھنگڑ وادی کا حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام دونوں بری طرح متاثر ہوں گے۔
ان محکمانہ اعتراضات کو تسلیم کرتے ہوئے لکی سیمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ نے ایک نیا نقشہ جاری کیا جس میں سے سرکاری جنگلات کو تو نکال دیا گیا لیکن نجی جنگلات کو اس کا حصہ ہی رہنے دیا گیا۔ چوہدری عمران گل سوال کرتے ہیں کہ اگر سرکاری جنگلات قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں تو یہی اصول نجی جنگلات پر کیوں نہیں لاگو کیا جا رہا "حالانکہ دونوں ساتھ ساتھ واقع ہیں اور دونوں میں ایک ہی طرح کے درخت، نباتات اور جنگلی حیات پائے جاتے ہیں"۔ (محکمہ جنگلات کے مذکورہ بالا خط میں بھی یہی لکھا ہے کہ جھنگڑ وادی میں پائے جانے والے سرکاری اور نجی جنگلوں میں ایک ہی طرح کے درخت ہیں اور ان کی ماحولیاتی اہمیت بھی ایک سی ہی ہے۔)
یہ بھی پڑھیں
چکوال میں قائم سیمنٹ فیکٹری کے اثرات: 'ہمارا جنگل کٹ گیا ہے، پہاڑ کھائی بن گیا ہے اور پانی خشک ہو گیا ہے'۔
اسی طرح مقامی لوگوں کی طرف سے پنجاب کے محکمہ آبپاشی کو لکھی گئی ایک درخواست میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ سیمنٹ فیکٹری لگنے سے ان کے علاقے میں زیرِزمین پانی خطرناک حد تک نیچے چلا جائے گا۔ پنجاب کی سرکاری دیہہ شماری کے ذریعے جمع کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جھنگڑ وادی کے اندر اور اس کے آس پاس کم از کم 16 دیہات ایسے ہیں جہاں اس پانی کی گہرائی پہلے ہی دو سو 50 فٹ سے پانچ سو فٹ کے درمیان ہے۔ اس علاقے کا ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں یہ گہرائی پانچ سو فٹ سے بھی زیادہ ہے۔
تاہم لکی سیمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کا دعویٰ ہے کہ اس کی مجوزہ فیکٹری کے قیام سے زیرِزمین پانی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ایک تو اس کی مشینری اتنی جدید ہو گی کہ اسے دیگر سیمنٹ فیکٹریوں کی نسبت بہت کم پانی کی ضرورت پڑے گی اور دوسرا یہ کہ اس کے لیے 89 ہزار لیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے درکار پانی زمین سے نہیں نکالا جائے گا بلکہ بھُناں نامی قریبی دریا سے حاصل کیا جائے گا۔
چوہدری عمران گل اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھُناں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک برساتی نالہ ہے جو سال کے کئی مہینے خشک رہتا ہے اور جس میں بارشوں کے موسم میں بھی پانی کا بہاؤ بہت کم ہوتا ہے۔ ادارہ برائے تحفظ ماحول کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے 30 مئی 2022 کو پنجاب سمال ڈیمز ڈیپارٹمنٹ کے چکوال میں تعینات ایگزیکٹو انجینئر کو لکھے گئے خط میں اس امر کی توثیق کی ہے۔ ایک سرکاری سروے میں سامنے آنے والے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ فیکٹری کے مجوزہ مقام سے سات آٹھ کلومیٹر دور بہنے والا بھُناں "بنیادی طور پر ایک برساتی نالہ ہے جس میں بہت کم پانی پایا جاتا ہے"۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیمنٹ بنانے کے لیے درکار پانی دراصل زمین سے ہی نکالا جائے گا اگرچہ اس کے لیے بور دریا کے اندر کیے جائیں گے۔ ان کے مطابق ایسا کرنے سے "زیرِزمین پانی کی سطح مزید گر جائے گی اور مقامی لوگوں کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی بھی خطرے میں پڑ جائے گی"۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے اس خط میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں 2017 سے زیرِ سماعت ایک مقدمے کا ذکر بھی کیا جس پر عدالتِ عالیہ نے "ضلع چکوال میں پہلے سے نصب شدہ سیمنٹ فیکٹریوں کے لیے زیرِزمین پانی نکالے جانے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کو حکم جاری کیا ہوا ہے کہ اس پانی کو بچانے کے اقدامات کیے جائیں"۔
یہ مقدمہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی طرف سے لیے گئے ایک از خود نوٹس کے نتیجے میں شروع ہوا تھا جس کی وجہ یہ خبریں تھیں کہ چکوال میں ہندوؤں کے تاریخی مذہبی مقام کٹاس راج میں صدیوں سے موجود تالاب سوکھ گئے ہیں۔ 8 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے ان تالابوں کے خشک ہونے کی ذمہ داری واضح طور پر ڈی جی سمینٹ اور بیسٹ وے سیمنٹ نامی دو فیکٹریوں پر ڈالی جو لکی سیمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کی مجوزہ فیکٹری سے محض 30 کلومیڑ کے فاصلے پر واقع ہیں۔
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
ایکش کمیٹی کے ایک رکن الفت حسین کہتے ہیں کہ جولائی 2022 میں ہونے والے ایک بڑے عوامی اجتماع میں چوآ سیدن شاہ کی تین یونین کونسلوں میں رہنے والے لوگوں نے قسم کھائی کہ وہ مر تو جائیں گے لیکن اپنے علاقے میں سیمنٹ فیکٹری نہیں لگنے دیں گے۔ اس انتہائی اقدام کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے سے لگ بھگ 13 کلومیٹر کے فاصلے پر پانچ سال پہلے غریب وال سیمنٹ فیکٹری قائم کی گئی تھی جس کی وجہ سے قریبی دیہات کے لوگ اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ ان میں سے بہت سوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہوں پر منتقل ہونا پڑا ہے۔
اس فیکٹری کے لیے مختص کان کنی کے علاقے سے صرف دو سو میٹر کے فاصلے پر واقع موہن نامی گاؤں میں تین سال پہلے دو سو 86 خاندان آباد تھے لیکن اب ان میں سے لگ بھگ 70 خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔
وہاں کے سابقہ رہائشی محمد لقمان کہتے ہیں کہ فیکٹری کے لیے درکار خام مال کی کان کنی کے دوران ڈائنامائٹ استعمال کیا جاتا ہے جس سے اتنے زوردار دھماکے ہوتے ہیں کہ ان سے گاؤں کے مکانوں کی دیواروں اور فرشوں میں دڑایں پڑ جاتی ہیں۔ وہ اب موضع بشارت میں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنا گھر چھوڑنے کا فیصلہ اس خوف سے بھی کیا تھا کہ کسی دن کہیں ان دھماکوں کے نتیجے میں اڑنے والے پتھر ان کی چھت یا ان کے بچوں پر نہ آ گریں۔
تاریخ اشاعت 16 اگست 2022