مالکان کے درمیان تنازعات: چونیاں کی برادرز شوگر مِل کیسے دس ہزار کسانوں کے ایک ارب روپے کھا گئی۔

postImg

آصف ریاض

postImg

مالکان کے درمیان تنازعات: چونیاں کی برادرز شوگر مِل کیسے دس ہزار کسانوں کے ایک ارب روپے کھا گئی۔

آصف ریاض

رواں مہینے کے وسط میں ناکی نام کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی مسجد میں اعلان ہوتا ہے کہ اگلے روز لاہور سے کچھ لوگ آ رہے ہیں جو مقامی کسانوں کی شکایات سنیں گے۔ اگلی سہ پہر درجنوں مقامی افراد ہاتھوں میں رسیدیں پکڑے ایک ڈیرے پر جمع ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان سے ملنے والا شخص نا تو کوئی حکومتی افسر ہے اور نا ہی کوئی عدالتی اہل کار – بلکہ وہ تو محض ایک رپورٹر ہے – تو ان کا غم و غصہ دیدنی ہوتا ہے۔

محمد ارشد نامی ایک کسان تو اتنے غضب ناک ہوتے ہیں کہ وہ پاؤں پٹختے ہوئے اجتماع سے نکل کر اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔

اُن کا یہ رویہ بلا جواز نہیں۔

اُس دن ناکی میں جمع ہونے والے تمام کسانوں کی طرح وہ پچھلے پانچ سال سے ایک شوگر مِل کو بیچے ہوئے گنے کی قیمت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن صحافت، حکومت اور عدالت سب کے دروازے کھٹکھٹانے کے باوجود ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔

اپنے آنسو پونچھتے ہوئے محمد ارشد کا کہنا ہے کہ  'لوگ یہاں آتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں۔ ہمارے پیسے واپس دلانے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا'۔ ان کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر سے آنے والے ان لوگوں کو 'معلوم ہی نہیں کہ یہ رقم ہمارے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے'۔

وہ سجاگ کو بتاتے ہیں کہ کس طرح مِل سے سات لاکھ 55 ہزار روپے واپس لینے کی کوششوں کے دوران ان کے بڑے بھائی ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے اور ان کا ہونہار بیٹا ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتے دیکھتے ایک مرغی خانے پر دس ہزار روپے ماہانہ کی ملازمت کرنے پر مجبور ہو گیا کیونکہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا خاندان اس کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکا۔  

محمد ارشد ابھی بھی کئی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مرحوم بھائی کی بیٹیوں کی تعلیم اور شادیوں دونوں میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔    

ان کی باتیں سن کر کئی دوسرے کسان ان کو دلاسہ دینے کے لیے ان کے پاس آ جاتے ہیں۔ عبدالرحیم نامی ایک ساٹھ سالہ بزرگ تو انہیں گلے لگا کر خود بھی رو  پڑتے ہیں۔ 

عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ ان کے اپنے پوتے اور پوتی کی شادی میں تاخیر ہو گئی کیونکہ مِل والوں نے 2014-15 میں ان کی گنے کی فصل تو خرید لی لیکن اس کی قیمت – جو ڈھائی لاکھ روپے بنتی ہے – ابھی تک ادا نہیں کی۔ پچھلے سال انہوں نے اپنی تین ایکڑ زمین میں سے ایک ایکڑ بیچ کر بالآخر ان بچوں کی شادی کی۔

کسانوں کے پیسے کون کھا گیا؟

ناکی  ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں واقع ہے۔ اس کو جانے والی سڑک کے دونوں اطراف گنے کے  کھیت نظر آتے ہیں۔ یہاں سے لگ بھگ تین کلو میٹر کے فاصلے پر برادرز شوگر مِل واقع ہے جو 1990 کی دہائی میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خاندان نے قائم کی تھی۔ بعد ازاں مشترکہ خاندانی اثاثوں کی تقسیم کے نتیجے میں یہ مِل ان کے چچا زاد بھائی اسلم بشیر اور ایک دوسرے چچا زاد بھائی کے بیٹے فرقان ادریس کے حصے میں آ گئی۔

یہ دونوں اس میں برابر کے حصہ دار تھے لیکن 2014-15 کے سیزن میں دونوں میں اختلافات پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے مِل نے کسانوں سے گنا خریدنے کے باوجود انہیں 88 کروڑ روپے کے قریب رقم کی ادائیگی نہیں کی حالانکہ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ اس گنے سے پیدا ہونے والی چینی دونوں مالکان علیحدہ علیحدہ بیچتے رہے۔
جب کسانوں نے اپنے واجبات کی ادائیگی کے لیے احتجاج کرتے ہوئے چونیاں کی مرکزی شاہراؤں کو بند کر دیا اور ِمل کا بھی گھیراؤ کر لیا تو پنجاب کے کین کمشنر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اگست 2015 میں مِل  کا گودام سیل کر دیا تا کہ مالکان کسانوں کے پیسے ادا کیے بغیر چوری چھپے چینی نہ بیچ سکیں۔

پاکستان کسان اتحاد ضلع قصور کے صدر سردار اورنگزیب کے مطابق مِل مالکان کے اختلافات اس کے بعد بھی جاری رہے حتیٰ کہ میاں اسلم بشیر نے اپنا حصہ ایک تاجر شیخ نشاط احمد کو بیچ دیا جنہوں نے کسانوں سے وعدہ کیا کہ وہ نا صرف ان کے واجبات ادا کریں گے بلکہ مِل کو بھی چلاتے رہیں گے۔ ان کے وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے کسانوں نے 2015-16 کے سیزن میں بھی اپنا گنا اسی مِل کو بیچ دیا۔

تاہم  شیخ نشاط احمد اور میاں فرقان ادریس مِل کو چالو رکھنے پر اتفاقِ رائے پیدا نہ کر سکے۔ یوں اس پر 2016 میں تالے لگ گئے جس کی وجہ سے اس کو گنا بیچنے والے کسانوں کو اس سیزن میں بھی ساڑھے پندرہ کروڑ روپے کے قریب رقم کی ادائیگی نہ ہو سکی۔

ناکی کے رہائشی کسان عبدالحمید – جن کے ڈیرے پر کسان اپنی شکایات سنانے کے لئے جمع ہوئے ہیں --  سجاگ کو بتاتے ہیں کہ ان کا پورا گاؤں مِل سے پیسوں کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مالی مسائل کا شکار ہے۔ کیونکہ، ان کے مطابق، 'مل والوں نے تو ہمارے پیسے روک لیے لیکن ہم نے تو ان لوگوں کو ادائیگیاں کرنا تھیں جن سے ہم نے کھاد، بیج اور کیڑے مار دوائیاں وغیرہ خریدی تھیں'۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ادائیگیاں کرنا کسانوں کی مجبوری تھی، بصورتِ دیگر ' ہمیں اگلی فصل کے لئے  کھاد اور بیج وغیرہ نہ ملتا'۔

لیکن یہ رقم چکانے کے لئے کے لئے بہت سے کسانوں کو قرض لینا پڑا۔ کئی دوسرے کسانوں نے اس رقم کا بندوبست کرنے کے لئے اپنی زمینیں ٹھیکے پر دے دیں اور کچھ لوگوں کو تو  اپنی زمین فروخت ہی کرنا پڑی۔ عبدالحمید کئی ایسے مقامی کسانوں کو جانتے ہیں جن کے بچے اب چونیاں، پھول نگر اور پتوکی جیسے نزدیکی قصبوں میں مِل مزدوروں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

سردار اورنگزیب کہتے ہیں کہ کسانوں نے پیسوں کی واپسی کے لئے چونیاں، قصور، لاہور اور اسلام آباد میں کئی احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ ان میں سے ایک مظاہرہ 2018 میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے کیا گیا جسے منتشر کرنے کے لئے، سردار اورنگ زیب کے بقول، پولیس نے کسانوں پر لاٹھیاں بھی برسائیں۔

چونیاں کے اسسٹنٹ کمشنر محمد عدنان بدر بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شوگر مل کی بندش کے نتیجے میں سب سے زیادہ کسان ہی متاثر ہوئے۔ وہ کہتے ہیں: 'میں کئی ایسے کسانوں کو جانتا ہوں جن کے چولہے ہمیشہ کے لئے ٹھنڈے ہوئے گئے ہیں'۔

ان کے مطابق مِل کے بند ہونے کی وجہ سے چونیاں میں گنے کا زیرِ کاشت رقبہ بھی پہلے سے بہت کم ہو گیا ہے اور مقامی معیشت پر بھی اس کا منفی اثر پڑا ہے 'کیونکہ ایک تو مل میں ہی سینکڑوں مقامی لوگوں کی نوکری لگی ہوئی تھی اور دوسرے مل کے ساتھ کھانے کے کئی چھوٹے چھوٹے ریستوران  اور سودا سلف کی دکانیں بھی بنی ہوئی تھیں جو سب کی سب بند ہو گئی ہیں'۔ 

عدالتی جنگ

مِل سے اپنے پیسے لینے کے لئے کسانوں نے 2016 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی۔اس کی سماعت میں کسانوں کے وکیل اسد جمال کہتے ہیں کہ میاں فرقان ادریس نہیں چاہتے تھے کہ مِل کا آدھا حصہ شیخ نشاط احمد کو فروخت کیا جائے۔ لیکن اس فروخت کے بعد اس کی ملکیت اور اس کو چلانے کا تنازعہ چچا بھتیجے کی رنجش سے نکل کر دو کاروباری افراد کے درمیان جھگڑے کی شکل اختیار کر گیا جبکہ دوسری طرف کسان، بینک اور حکومت سبھی اپنی اپنی واجب الادا رقمیں مِل مالکان سے واپس لینا چاہتے تھے۔

اسد جمال کے مطابق 2014-15 کے سیزن کے بعد مِل  نے کسانوں کے اٹھاسی کروڑ روپے، قرضے کی مد میں  بینکوں کے 80 کروڑ روپے اور حکومت کو واجب الادا ٹیکسوں کی شکل میں 18 کروڑ روپے دینا تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں: 'پٹیشن کی سماعت شروع ہونے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے جب مِل میں موجود چینی کا ذخیرہ چیک کروایا تو اس کی مالیت بینکوں سے لیے گئے قرض سے بہت کم نکلی حالانکہ یہ مِل کی ذمہ داری تھی کہ وہ کم سے کم ذخیرے کے سرکاری ضابطے کی پابندی کرتے ہوئے اتنی چینی اپنے پاس رکھتی جو بیکوں کے قرض کی رقم کے قریب قریب برابر ہوتی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مِل مالکان نے اس معاملے میں بھی فراڈ کیا اور کسانوں کا یہ الزام درست ثابت ہوا کہ مِل کی چینی چوری چھپے فروخت کی جا رہی تھی'۔

ان انکشافات کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کے حکم پر کین کمشنر پنجاب نے مِل میں موجود باقی چینی  اپنے قبضے میں لے کر  اس کی نیلامی کی اور اس سے حاصل ہونے والے 64 کروڑ 22 لاکھ روپے لاہور ہائی کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیئے۔

بعد ازاں عدالت نے کسانوں کی پٹیشن پر اپنا فیصلہ دیتے ہوئے حکم دیا کہ چینی کی نیلامی سے حاصل ہونے والے  تمام  پیسے کسانوں کو ہی ادا کیے جائیں۔ اس عدالتی حکم کی تعمیل میں اسسٹنٹ کمشنر چونیاں نے ایسے تمام کسانوں کی فہرست تیار کی جنہوں نے مل سے پیسے لینا تھے۔ اسد جمال کے مطابق اس فہرست میں شامل کسان خاندانوں کی تعداد دس ہزار ہے۔

ناکی کے کسان عبدالحمید کہتے ہیں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کسانوں میں یہ امید پیدا ہوئی کہ ان کو پیسوں کی ادائیگی جلد ہی شروع ہو جائیگی لیکن حقیقت میں انہیں مجموعی طور پر محض ایک کروڑ روپے کی واپسی ہی ہو سکی کیونکہ اس دوران بینکوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور یوں یہ مسئلہ ایک پھر التوا کا شکار ہو گیا۔

عبدالحمید کے مطابق سپریم کورٹ میں مِل مالکان نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے کسانوں کو سارے پیسے ادا کردیئے ہیں جس پر عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کرے۔ عبدالحمید کہتے ہیں: 'نیب والے ہمارے پاس آئے اور انھوں نے ہر کسان سے اس کی گنا بیچنے کی اصل رسید  -- کین پرچیز رسیپٹ (سی پی آر) -- لے لی'۔

اس معاملے کو اب ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ نا تو انہیں پیسے ملے ہیں اور نا ہی ان کی رسیدیں واپس کی جا رہی ہیں۔

عبدالحمید کہتے ہیں کہ 'ہمیں تو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اگر ہمیں اصل رسیدیں واپس نہ ملیں تو کہیں ہمارے پیسے ہمیشہ کے لئے ہی نہ ڈوب جائیں'۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گنے کے واجبات کی مسلسل عدم ادائیگی: کسانوں کو شکر گنج شوگر مِل پر اعتبار نہیں رہا۔

ان خدشات کی ایک وجہ کسانوں کے ساتھ نیب کا برتاؤ بھی ہے۔ عبدالحمید کے مطابق جب کچھ کسان لاہور میں نیب کے دفتر میں اپنی رسیدیں واپس لینے کے لئے گئے تو انہیں دفتر کے اندر داخل تک نہیں ہونے دیا گیا۔

اسعد جمال  کہتے ہیں کہ کسانوں کے ان خدشات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں بہت سے لوگوں نے کسانوں سے بہت سے وعدے کیے ہیں جو پورے نہیں ہوئے۔ 'کسان اب فکرمند ہیں کہ کہیں نیب بھی ان سے اسی طرح کا سلوک نہ کرے'۔

تاہم اسعد جمال کو قوی امید ہے کہ نیب نے رسیدیں یا تو سپریم کورٹ کے حوالے کردی ہوں گی یا انہیں اپنے پاس محفوظ کر رکھا ہو گا اور جب بھی عدالت یہ رسیدیں طلب کرے گی تو نیب انہیں فوری طور پر پیش کردے گا۔

کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟

سپریم کورٹ نے بینکوں کی اپیل کی سماعت کے دوران شیخ نشاط احمد کو حکم دیا کہ وہ 67 کروڑ 90 لاکھ روپے کا ایک چیک کین کمشنر پنجاب کے حوالے کریں لیکن اس حکم کی تعمیل میں  شیخ نشاط احمد نے جو چیک جون 2019 میں جمع کرایا وہ بینک نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ان کے اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم موجود ہی نہیں۔

اس چیک کی واپسی کی وجہ سے بعد ازاں شیخ نشاط احمد پر ایک مقدمہ درج کر لیا گیا جس کے نتیجے میں وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔

سپریم کورٹ نے کین کمشنر پنجاب کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ برادرز شوگر مل کو نیلام کریں اور نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم  سپریم کورٹ میں جمع کرائیں تا کہ اسے کسانوں، بنکوں اور حکومت میں بانٹا جا سکے۔ لیکن جب کین کمشنر اور قصور کی ضلعی انتظامیہ نے مِل کی نیلامی کا عمل شروع کیا تو اس کی پہلی بولی بہت کم لگی۔

چونیاں کے اسسٹنٹ کمشنر عدنان بدر اس عمل کے بارے میں کہتے ہیں: 'ہم نے مِل کی بنیادی قیمت چھ ارب روپے رکھی تھی لیکن پہلی نیلامی میں اس کی قیمت دو سے ڈھائی ارب روپے ہی لگی۔ بعد میں ہماری  متعدد کوششوں کے باوجود بولی چار ارب بیس کروڑ روپے سے آگے نہیں بڑھی'۔

 تاہم، ان کے مطابق، یہ رقم مِل کے ذمے کسانوں، بینکوں، حکومت اور دوسرے قرض خواہوں کے واجبات سے کہیں کم ہے اس لئے نیلامی کا عمل سرِ دست روک دیا گیا ہے۔

دوسری طرف اس مقدمے کو جلد از جلد نمٹانے کے لئے ستمبر 2020 میں سپریم کورٹ نے اس کی کئی دن تک لگاتار شنوائی کی جس کے دوران کسانوں اور بینکوں کے وکلا نے اپنے تفصیلی دلائل دیئے۔ عدالت نے سماعت مکمل کر کے اب اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 26 نومبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 18 مئی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.