لمبے قد اور سفید داڑھی والے 65 سالہ غلام نبی پچھلے کئی سالوں سے مختلف سرکاری دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں تا کہ وہ اپنے کالعدم قومی شناختی کارڈ کو بحال کرا سکیں۔ وہ 22 سال سے لاہور میں مقیم ہیں اور آج کل شہر کے شمالی علاقے شاہدرہ میں کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں۔ تاہم ان کا آبائی گھر خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 20 جولائی 2009 کو انہیں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے لاہور کینٹ میں واقع علاقائی ہیڈ کوارٹر سے ایک خط موصول ہوا جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کا قومی شناختی کارڈ کالعدم کر دیا گیا ہے کیونکہ کوئی غیر ملکی شخص ان کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کر کے پاکستانی شہری بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ 2002 میں انہوں نے خود بھی دھوکہ دہی سے پاکستان کا قومی شناختی کارڈ حاصل کیا تھا۔
غلام نبی نے اپنے جوابی خط میں نادرا کو بتایا کہ ان کا کوئی غیر ملکی بیٹا نہیں اور اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کر رہا ہے تو ایسا یا تو غلطی سے ہو رہا ہے اور یا پھر کوئی ان کے خلاف شرارت کر رہا ہے۔ انہوں نے پاکستانی شہری ہونے کے ثبوت کے طور پر اپنی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ، اپنے والد کی وفات کا سرٹیفیکیٹ اور کچھ دیگر دستاویزات بھی اپنے علاقے کے رکنِ قومی اسمبلی سے تصدیق کرا کے نادرا کو بھیجیں۔
وہ فالج کا شکار ہونے کی وجہ سے رک رک کر بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے نادرا کو اپنے پاکستانی ہونے کے جو ثبوت دیے ان میں 17 اکتوبر 1994 کو جاری کیا گیا ان کا شناختی کارڈ (جس میں انہیں کراچی کے علاقے یوسف گوٹھ کا رہائشی دکھایا گیا ہے) اور ان کا پاکستانی پاسپورٹ بھی شامل ہیں (جسے استعمال کر کے وہ سعودی عرب میں عمرے کے لیے جا چکے ہیں)۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ "ان تمام ثبوتوں کے باوجود میرا شناختی کارڈ ابھی تک بحال نہیں کیا گیا"۔ 2015 سے انہوں نے اس کی بحالی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رِٹ بھی دائر کر رکھی ہے جس پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
اسی دوران کچھ لوگوں نے ان سے رابطہ کر کے دعویٰ کیا کہ وہ نادرا کے ایجنٹ ہیں اور 40 ہزار روپے کے عوض ایک مہینے کے اندر ان کا شناختی کارڈ بحال کرا سکتے ہیں۔ لیکن جب پیسے وصول کرنے کے باوجود انہوں نے کئی ماہ تک اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو غلام نبی نے کچھ بااثر لوگوں کو بیچ میں ڈال کر ان سے کسی نہ کسی طرح پیسے واپس لے لیے۔
ایک کالعدم شناختی کارڈ، ان گنت مسائل
فضل کریم نے اپنے کالعدم شناختی کارڈ کی بحالی کے لیے چھ سال پہلے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رِٹ دائر کی جس کے بعد ان کے گھر ایسے لوگوں کی آمد شروع ہو گئی جو خود کو پولیس کی سپیشل برانچ کے اہل کاروں کے طور پر متعارف کراتے تھے۔ ان کے بقول یہ مبینہ اہل کار انہیں طرح طرح سے تنگ کرتے اور ہر بار ان سے چھ سات ہزار روپے رشوت کے طور پر لے کر چلے جاتے۔
اب 32 سالہ فضل کریم کو یہ خدشہ ہے کہ ان کا شناختی کارڈ فعال نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔
غلام نبی کی طرح وہ بھی خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور کے علاقے شاہدرہ میں ایک نِجی سکول میں پڑھاتے ہیں۔ سکول کی انتظامیہ نے انہیں کہا ہے کہ وہ فوری طور پر کورونا ویکسین لگوائیں ورنہ انہیں پڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن شناختی کارڈ قابلِ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے وہ ویکسین نہیں لگوا سکتے۔
سکول میں کام کرنے سے پہلے وہ لاہور کے لوہاری دروازے کے اندر واقع مدرسے، جامعہ نظامیہ، میں دینی علوم کی تعلیم حاصل کرتے تھے مگر انہیں یہ تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی کیونکہ وہ شناختی کارڈ کے بغیر امتحان میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔
ان کے مطابق انہیں دیگر کئی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ مثلاً اگر وہ بیمار پڑ جائیں تو انہیں سرکاری ہسپتال میں داخلہ نہیں ملتا اور نہ ہی وہ سرکاری طور پر مفت ملنے والی ادویات حاصل کر سکتے ہیں۔ 2020 میں جب کورونا وبا کے معاشی اثرات دور کرنے کے لیے حکومت نے احساس پروگرام کے تحت ضرورت مند لوگوں کو مالی امداد فراہم کی تو وہ اس سے بھی محروم رہے۔
اسی طرح جب کبھی انہیں لاہور سے باہر جانا ہوتا ہے تو انہیں بس کی ٹکٹ نہیں دی جاتی۔ اگر وہ کسی اور کے نام پر ٹکٹ خرید بھی لیں تو دورانِ سفر انہیں ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہیں پولیس والے انہیں روک کر ان سے شناختی کاغذات نہ طلب کر لیں۔ اِن مسائل کے باعث وہ کہتے ہیں کہ "میں پاکستانی ہونے کے باوجود ایک مفرور شخص کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوں"۔
غلام نبی کو بھی ایسے ہی مسائل درپیش ہیں۔
ان کے بقول ان کے پانچ بیٹوں اور تین بیٹیوں میں سے کوئی بھی نہ تو ہائی سکول میں داخل ہو سکا ہے اور نہ ہی کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں نوکری حاصل کر سکا ہے کیونکہ ان کے قومی شناختی کارڈ نہیں بن سکتے۔ ان کے بیٹے اب ان کے گھر کے ساتھ ہی نان تیار کرنے کا کام کرتے ہیں۔
صرف پختونوں کی شہریت ہی کیوں مشکوک ہے؟
غلام نبی اور فضل کریم کی طرح لاہور کے مختلف علاقوں میں درجنوں ایسے پختون رہتے ہیں جن کے قومی شناختی کارڈ غیر فعال ہیں۔ نادرا کے مطابق صرف گلبرگ کی خان کالونی میں 150 کے لگ بھگ لوگ موجود ہیں جن کے شناختی کارڈ کالعدم قرار دیے جا چکے ہیں۔
لاہور میں کام کرنے والی پختون قوم پرست جماعتیں الزام لگاتی ہیں کہ ایسا خالصتاً لسانی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری امیر بہادر خان ہوتی کا دعویٰ ہے کہ نادرا پنجاب میں ہر اس شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے جس کی قومیت پختون ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر لاہور میں صرف پختونوں کے شناختی کارڈ ہی کیوں نا قابلِ استعمال بنائے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
لاہور میں مقیم پختون: '2017 کی مردم شماری میں ہمیں باقاعدہ منصوبے کے تحت صحیح طریقے سے نہیں گِنا گیا'۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابقہ سینیٹر فرحت اللہ بابر بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2018 میں نادرا نے لاہور کے رہنے والے سینکڑوں پختونوں کے شناختی کارڈ کالعدم قرار دے دیے تھے لیکن بعد میں اسے ان میں سے کئی ایک کو بحال کرنا پڑا کیونکہ ان کی بندش کے لیے اس کے پاس ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھے۔
ان کے خیال میں پختونوں کے شناختی کارڈوں کو کالعدم قرار دینے کا عمل پاکستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی سے جڑا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے ان مہاجرین کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے کبھی کوئی واضح پالیسی یا قانون نہیں بنایا بلکہ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری یا خرابی کے حساب سے انہیں ہمیشہ سیاسی فٹ بال کے طور پر استعمال کیا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں جن میں ایک طرف دوسرے ملکوں کے شہریوں کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ پائے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستانی پختونوں کو غیر ملکی قرار دے کر ان کے شناختی کارڈ کالعدم قرار دیے گئے ہیں۔ ثبوت کے طور پر وہ پارلیمان کے دو ایسے پختون ارکان کا نام لیتے ہیں جن کے شناختی کارڈ حال ہی میں غیر فعال بنائے گئے ہیں۔
ان میں سے ایک بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جمعیت علمائے اسلام ( فضل) کے سابق سینیٹر حافظ حمداللہ ہیں۔ اکتوبر 2019 میں نادرا نے انہیں غیر ملکی شہری قرار دے کر ان کا شناختی کارڈ ناقابلِ استعمال بنا دیا (تاہم مئی 2021 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسے بحال کر دیا)۔
دوسرے رکنِ پارلیمان، محسن داوڑ، کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔ ان کا شناختی کارڈ اس سال مئی میں غیر فعال کر دیا گیا۔ اس کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "پچھلے دو مہینوں سے میرا (شناختی کارڈ) بلاک کر دیا گیا ہے اور میرے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔ یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے کہ میں آئین کے احترام اور تقدس کے لیے بولتا ہوں"۔
تاہم نادرا کے علاقائی ہیڈکوارٹر میں کام کرنے والے اس کے ترجمان سید بلال اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ شناختی کارڈ کسی لسانی تعصب کی بنیاد پر کالعدم قرار دیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ایسا صرف شناختی کارڈ بنوانے کے عمل میں دھوکہ دہی ثابت ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، کسی شخص کے شناختی کارڈ کو کالعدم قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو ریاست دشمن سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہو یا اس کے پاکستانی ہونے پر شک ہو مگر "ایسا کرنے سے بھی پہلے متعلقہ شخص کو نوٹس بھیجا جاتا ہے اور اخبار میں اشتہار بھی دیا جاتا ہے تا کہ اسے اپنے حق میں ثبوت فراہم کرنے کا موقع دیا جا سکے"۔
ان تمام سرکاری وضاحتوں کے باوجود لاہور میں کام کرنے والے قانونی ماہر اُسامہ خاور ایسے مقدمات میں وکیل کے طور پر کام کر رہے ہیں جن میں نادرا نے مبینہ طور پر کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ہی کچھ پختونوں کے شناختی کارڈ غیر فعال کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام غیر قانونی ہے کیونکہ حافظ حمداللہ کے معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پارلیمان اور کابینہ کی منظوری کے بغیر نادرا کو کسی پاکستانی کا شناختی کارڈ نا قابلِ استعمال بنا کر اس کی پاکستانی شہریت ختم کرنے کا اختیار نہیں۔
تاریخ اشاعت 6 اکتوبر 2021