ضلع بھکر کی آبادی میں چھ سال کے دوران تین لاکھ سے زائد نفوس کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ الیکش کمیشن نے نئی آبادی کی بنیاد پر بھکر میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کا اضافہ کر دیا ہے۔
اس ضلعے کی آبادی تقریباً ساڑھے 16 لاکھ تھی تو قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں تھیں۔ان میں پی پی 89 بھکر ون کلورکوٹ، پی پی 90 بھکر ٹو دریا خان، پی پی 91 بھکر تھری منکیرہ اور پی پی 92 بھکر فور شامل تھیں۔
اب جب کہ آبادی 20 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے تو قومی اسمبلی کے حلقوں کے صرف نمبر ہی تبدیل ہوئے ہیں۔جو این اے 97 اور این اے 98 سے اب این اے 91 اور این اے 92 ہو گئے ہیں۔
نئی حلقہ بندی میں اس ضلعے کے صوبائی حلقے پانچ ہو گئے ہیں۔ جن میں سے چار پرانے حلقوں کے نمبر برقرار رکھے گئے ہیں، البتہ نئے حلقہ پی پی 93 بھکر فائیو کا اضافہ ہو گیا ہے۔
صوبائی اسمبلی کے نئے حلقے پی پی 93 میں شامل کیے جانے والے بیشتر علاقے تحصیل بھکر کے پرانے حلقے پی پی 92 سے ہیں۔
پی پی 91 منکیرہ سے وہ علاقہ نئے حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے جو گزشتہ حلقہ بندی میں بھکر تحصیل سے اس حلقے میں شامل کیا گیا تھا۔ یوں پی پی 91 اور پی پی 92 میں زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں۔
نئے صوبائی حلقے کے اضافے کا این اے 97 اور پی پی 89 کلور کوٹ، پی پی 90 دریا خان پر زیادہ اثر نہیں ہوگا کیونکہ ان میں معمولی رد وبدل کیا گیا ہے۔
البتہ حلقہ پی پی 91 منکیرہ میں پوری تحصیل منکیرہ اور اس کے ساتھ تحصیل بھکر کی قانون گوئی خان پور کے پٹوار سرکل سے خان پور شمالی، چک نمبر 209 ٹی ڈی اے اور قانون گوئی حلقہ مسلم (کراڑی)کوٹ کو شامل کیا گیا۔
اسی طرح حلقہ پی پی 92 بھکر فور میں میونسپل کمیٹی بھکر چارج نمبر 11 اور 12، ٹاون کمیٹی کوٹلہ جام ڈگر چارج نمبر 3، قانون گوئی حلقے 26 ٹی ڈی اے، خانسر اور بھکر نشیب شامل ہیں۔ جبکہ دریاخان تحصیل کی قانون گوئی دریا خان کے پٹوار سرکل رکھ ڈگراں والی اور دریاخان ڈگر کے سوا باقی علاقہ اسی حلقے میں شامل ہے۔
حلقہ پی پی 93 بھکر فائیو یعنی نئے حلقے میں قانون گوئی حلقے بھکر ڈگر ون، بھکر ڈگر ٹو، چھینہ ڈگر، چھینہ نشیب، بہل نشیب اور بہل ڈگر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پٹوار سرکلز خان پور شمالی اور چکنمبر 209 ٹی ڈی اے کو نکال کر قانون گوئی حلقہ خان پور کو بھی اسی نئے حلقے میں شامل کیا گیا ہے۔
شاہانی کیوں پریشان ہیں؟
حلقوں کی تبدیلی اور ایک نشست کے اضافے سے تحصیل بھکر کے دو سیاسی گھرانے (نوانی اور ڈھانڈلہ) جہاں خوش ہیں۔ وہیں یہ تبدیلی اسی حلقے سے دو مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے عامر عنایت شاہانی کے لیے پریشانی کا سبب ہو سکتی ہے۔خیال ہے کہ ان کے ووٹر تقسیم ہو گئے ہیں۔
عامر شاہانی گذشتہ دونوں عام انتخابات میں ڈھانڈلہ گروپ کے اتحادی رہے۔ دونوں بار ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ این اے 98 جبکہ عامر شاہانی پی پی 92 سے کامیاب ہوئے۔ دونوں نے 2013ء میں آزاد اور 2018ء میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لیا تھا۔ ان کے مد مقابل نوانی گروپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
2013ء میں رشید اکبر نوانی نے ڈاکٹر افضل کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے مگر الیکشن سے چند روز قبل انہیں نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ جس کے بعد کورنگ امیدوار اور نوجوان سیاستدان احمد نواز نوانی نے آزاد الیکشن لڑا تھا۔
2018 ء میں بھی ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ این اے 98 پر آزاد امیدوار رشید اکبر نوانی سے پانچ ہزار کے قریب ووٹوں سے جیت گئے تھے۔ پی پی 92 بھکر فور پر عامر شاہانی نے ملک ظہیر احمد اترا کو شکست دی تھی۔ جبکہ پی پی 91 بھکر تین منکیرہ پر تحریک انصاف کے غضنفر عباس چھینہ آزاد امیدوار سعید اکبر نوانی سے جیت گئے تھے۔
پچھلے الیکشن میں این اے 97، پی پی 89 اور پی پی 90 سے نوانی گروپ کے حمایت یافتہ امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ آزاد امیدوار ثناء اللہ مستی خیل ایم این اے بنے تھے۔ پی پی 89 کلور کوٹ سے نوانی گروپ کے امیر محمد حسن خیلی اور پی پی 90 دریا خان سے آزاد سعید اکبر خان نوانی کامیاب ہوئے تھے۔
سینئر صحافی ادریس عمران رانا بتاتے ہیں کہ بظاہر نئے حلقے کا عامر عنایت شاہانی کو نقصان ہوا ہے۔ ان کی آبائی یونین کونسلیں ملانوالی اور پیر اصحاب (چھینہ نشیب) اور بڈیانی کو پی پی 92 سے نکال دیا گیا ہے۔ دوسری طرف مخالف امیدوار ملک ظہیر اترا کی آبائی یونین کونسل گڈولہ ودیگر علاقے پی پی 90 دریا خان سے پی پی 92 بھکر میں شامل کر دیے گئے ہیں۔
وہ کہتے کہ عامر عنایت شہانی اپنے حامیوں کے ذریعے حلقہ بندی پر اعتراض داخل کرا چکے ہیں ۔جس میں ملانوالی، پیر اصحاب اور بڈیانی کو پی پی 92 میں شامل کرنے اور خانسر، ڈگر اولکھ گڈولہ کو واپس پی پی 90 دریا خان میں شامل کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
ملک غضنفر چھینہ کے حامیوں نے قانون گوئی حلقہ مسلم(کراڑی) کوٹ کو پی پی 91 منکیرہ سے نکال کر پی پی 92 میں شامل کرنے کی مانگ کی ہے۔ ان دو امیدواروں کے سوا کسی جانب سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔
سابق ایم پی اے و صوبائی وزیر نعیم اللہ شاہانی نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیا حلقہ بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے بہترین حکمت عملی اختیار کی ہے۔ نئے حلقے میں بھی کوئی سیاسی دھڑا اکیلا کامیاب نہیں ہو سکتا۔
نوانی فیملی کو فائدہ اور ڈھانڈلہ خاندان کی مضبوطی
گورنمنٹ کالج بھکر کے پروفیسر عبدالعزیز انجم کہتے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں کا سب سے زیادہ فائدہ نوانی خاندان کو پہنچ سکتا ہے۔ سابقہ حلقہ بندیوں میں نوانی گروپ کے حامیوں کی یونین کونسلز کو چاروں صوبائی حلقوں میں بکھیر دیا گیا تھا۔ اب وہ پی پی 92 بھکر اور پی پی 91 میں شامل ہو چکی ہیں۔
سابق این اے 98 سابقہ اور موجودہ 92 کی جو قانون گوئیاں 2018ء میں سابقہ حلقہ این اے 97 موجودہ این اے 91 میں شامل کی گئی تھی وہ اب واپس این اے 92 آچکی ہیں جن میں یوسی خانسر، یوسی ڈگر اولکھ اور یوسی گڈولہ سمیت دیگرعلاقے قابل ذکر ہیں، جس کے بعد نوانی خاندان کا ووٹ بیلنس تقریباً تمام حلقوں میں برابر ہو چکا ہے۔ انہیں این اے 92 میں اپنی جیت کے امکان واضح نظر آ رہے ہیں۔
عبدالعزیز انجم سمجھتے ہیں کہ نئے حلقے کی تشکیل سے ڈھانڈلہ خاندان مضبوط پوزیشن میں آ گیا ہے اور یہ خاندان اس نشست کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع بہاولپور: چار قومی اور آٹھ صوبائی انتخابی حلقوں میں تبدیلیاں، فائدہ کس کو ہو گا؟
نئی حلقہ بندیوں میں ڈھانڈلہ خاندان کے ذاتی اثر ورسوخ والی تین یونین کونسلز، یوسی ڈھانڈلہ، یوسی ہموں والی اور یوسی یوسف شاہ شامل ہیں۔ مقامی طور پر رہائش پذیر ہونے کے باعث اردگرد کی یوسیز، نوتک، بہل اور ملانوالی بھی ان کے زیر اثر ہیں۔
اس کے ساتھ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین جن کی اکثریت صرف اور صرف مسلم لیگ کو ہی ووٹ دیتی چلی آ رہی ہے وہ بھی ڈھانڈلہ خاندان کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے کیونکہ ڈھانڈلہ خاندان زیادہ تر مسلم لیگ ن کے ساتھ ہی منسلک رہا ہے۔ اس طرح 51 چکوک پر مشتمل حلقے کی تقریباً نصف آبادی انتخابی نتائج پر بھرپور طریقہ سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔
بھکر کے پرانے سیاسی تجزیہ کار طارق حمید ملک کہتے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں سے عامر عنایت شہانی اور غضنفر چھینہ کے سوا کسی سیاسی گروپ کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔تاہم ہار جیت کا فیصلہ مقامی دھڑوں کی صف بندی کرے گی۔
تاریخ اشاعت 4 نومبر 2023