راجن پور میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد لینے والی خواتین کو دکانداروں کے خلاف پیسے کاٹنے کی شکایات

postImg

ونیزہ خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

راجن پور میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد لینے والی خواتین کو دکانداروں کے خلاف پیسے کاٹنے کی شکایات

ونیزہ خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریب، نادار اور بیوہ خواتین کو ہر تین ماہ بعد امدادی رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ رقوم پہلے حبیب بینک کے ذریعے ادا کی جاتی تھیں اور خواتین انہیں وصول کرنے کی خاطر بینکوں کے باہر قطار میں کھڑی دکھائی بھی دیتی تھیں۔ اکتوبر 2020ء میں بینکوں کے بجائے رقم کی ادائیگی کا کام دکان داروں کے حوالے کر دیا گیا اور گلی محلوں میں ان کی موجودگی سے توقع کی گئی کہ لوگوں کو امداد زیادہ آسانی سے ملے گی۔

راجن پور میں خواتین کی جانب سے ان ریٹیلرز کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ عورتوں کا کہنا ہے کہ بعض دکاندار رقوم کی ادائیگی کے وقت پانچ سو سے دو ہزار روپے تک کی رقم کمیشن کے نام پر کاٹ لیتے ہیں۔

پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں شمار ہونے والے راجن پور کی ہزاروں غریب خواتین کا انحصار بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر ہے جس کے تحت انہیں ہر تین ماہ بعد 9 ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں۔

سوشل ویلفیئر آفس راجن پور کے زیر اہتمام اپریل 2023ء میں کیے جانے والے سروے کے مطابق ضلع میں 167 ریٹیلر رقوم فراہم کر رہے ہیں جبکہ کئی نوجوان جاز کیش یا ایزی پیسہ ڈیوائس کے ذریعے بھی چلتے پھرتے یا چوراہوں میں بیٹھ کر یہ کام کرتے ہیں۔ ریٹیلرز کے ہاں عموماً ایسی خواتین کا رش ہوتا ہے۔

نسرین بی بی راجن پور کے دیہی علاقے بستی اعوان کی رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے وہ بینک سے امدادی رقم نکلوا لیتی تھیں مگر گزشتہ تین سال سے ادائیگی دکانداروں کے حوالے کر دی گئی ہے جس سے ان کو مشکلات کا سامنا ہے۔

"پیسے لینے کے لیے طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے،دھکم پیل ہوتی ہے۔ گرمی اور دھوپ میں طویل انتظار کے بعد جب رقم ملتی ہے تو نو ہزار روپے میں سے آ ٹھ ہزارروپے اداکیے جاتے ہیں"۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت غریب ہیں اور کپڑے سی کر اپنا گھر چلاتی ہیں، ان کے شوہر بیمار ہیں اور کام کاج نہیں کر سکتے۔ ان کے لیے یہ تھوڑی سی رقم بھی بہت اہم ہے۔

حاجی پور کی شرمیلا مائی بیوہ ہیں اور ان کے چھ بچے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی رقم کافی عرص سے موصول نہیں ہو رہی تھی ۔ جب انہوں نے پروگرام والوں سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ دکاندار نے کچھ عورتوں سے ان کے ناموں پر انگوٹھے لگوا لیے اوران کی رقم خود نکال لی۔ جب وہ دکاندار سے پوچھنے گئیں تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

انہوں نے بتایا کہ ہر مرتبہ ایک ہزار سے چار ہزار روپے تک رقم کاٹ کر انہیں باقی پیسے تھما دیے جاتے ہیں۔

بستی کشانی کی رابعہ بی بی کو امدادی رقم صرف ایک بار ملی۔ جب انہوں نے قریبی ریٹیلر سے معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ ان کی رقم بند ہو گئی ہے اور اگر وہ دو ہزار روپے دیں تو وہ ان کی  امداد بحال کروا دے گا۔

انہوں نے سلیمان نامی اس دکان دار کو دوہزار روپے دیے جس نے سروے کاجھانسہ دیا لیکن پیسے نہیں ملے۔ اسی طرح کی شکایات یہاں کی متعدد مستحق عورتوں کو ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کاشف نے بتایا کہ راجن پور میں 40 ہزار 788 مستحق عورتوں کو مالی امداد فراہم کی جاتی ہے لیکن کبھی کبھار ان کے ساتھ نوسربازی کے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسے واقعات کی تعداد کتنی ہے تو ان کے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق لوگوں کی طرف سے اے ٹی ایم مشینوں کی خرابی کی بہت زیادہ شکایات موصول ہونے کی وجہ سے یہ سہولت دی گئی تھی تاکہ لوگ دکانداروں سے با آسانی رقوم حاصل کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"پیسے دو گی تو پیسے ملیں گے"، ننکانہ صاحب میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم کا حصول خواتین کے لیے درد سر بن گیا

ڈپٹی کمشنر راجن پور منصور احمد خان بلوچ ہفتہ وار کھلی کچہری لگا کر عوام کے مسائل سنتے ہیں۔ اس میں بہت سی خواتین نے دکانداروں کی شکایت کی جس پر ڈپٹی کمشنر نے جانچ پڑتال اور ان کا سدباب کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دیں ۔اس سلسلے میں چار دکانداروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

 منصور احمد بلوچ کہتے ہیں کہ کفالت پروگرام کے تحت رقوم کی تقسیم کے مراکز کی جانچ پڑتال اور سیکیورٹی کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ متاثرہ عورتوں کو ان کا حق بھی دلوایا گیا ہے اور متعلقہ تھانوں کو نوسربازوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔

سماجی کارکن ڈاکٹر عرفان ایسی خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی کے جھانسے میں آ کر سروے نہ کرائیں۔ یہ خواتین اپنے فون کے ذریعے خود بھی آن لائن رجسٹر ہو سکتی ہیں اور اس سلسلے میں کوئی مشکل پیش آئے تو کسی قابل اعتماد فرد کی مدد لی جا سکتی ہے۔

تاریخ اشاعت 16 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ونیزہ خان کا تعلق راجن پور سے ہے۔ ونیزہ ایم ایس سی کی طالبہ ہیں اور اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.