بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کی تحصیل کان مہترزئی میں رہنے والے چالیس سالہ نظام الدین کی زندگی جولائی میں آنے والے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس آفت میں ان کے گھر اور دو ایکڑ پر سیب کے باغات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ باغ ہی ان کا ذریعہ روزگار تھے جہاں 500 درخت جڑوں سے اکھڑ گئے ہیں یا سیلابی پانی نے انہیں بانجھ کر دیا ہے۔
کان مہترزئی کا شمار بلوچستان کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے جو اعلیٰ معیار کے سیب کی پیداوار کے لئے مشہور ہے۔ نظام الدین یہاں سوری مہترزئی نامی گاؤں کے رہائشی ہیں جو ایک برساتی ندی کے قریب واقع ہے۔ اس سال اگست میں شدید بارشوں کے بعد ایک اونچا سیلابی ریلا اس ندی سے گزرا جس نے بند توڑ کر انسانی آبادی اور زرعی اراضی کو لپیٹ میں لے لیا۔ سیلاب اس قدر زوردار تھا کہ کچے مکان، کھڑی فصلیں اور درخت تنکوں کی طرح پانی میں بہہ گئے۔
نظام الدین نے بتایا کہ اس علاقے میں بیشتر آبادی کے معاش کا دارومدار زراعت بالخصوص سیب کی فصل پر ہے۔ قریبی پہاڑوں سے آنے والا سیلابی پانی نمکین ہوتا ہے جو سیب کے درخت کی جڑوں میں پہنچ جائے یا سیلاب کے نتیجے میں درخت کے نچلے حصے کے اردگرد مٹی جمع ہو جائے تو درخت سوکھ جاتا ہے۔ اس طرح سوری مہترزئی اور گردونواح میں سیب کے تقریباً 25 ہزار درختوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
گاؤں میں نظام الدین کا 14 کمروں پر مشتمل گھر بھی سیلاب میں بہہ گیا ہے۔ مٹی اور پتھروں سے بنے اس گھر کی تعمیر نو کے لیے انہیں جو رقم درکار ہے اس کا انتظام کرنا ان کے لیے فی الوقت ممکن نہیں کیونکہ اس مرتبہ ان کی سیب کی تیار فصل ضائع ہو چکی ہے جس سے وہ اپنے سال بھر کے اخراجات پورے کرتے تھے۔ ان دنوں وہ اس خیال سے پریشان ہیں کہ ان کے گھرانے کو شدید سردی کا موسم تباہ شدہ مکان کے کھنڈرات میں گزارنا پڑے گا۔
کان مہترزئی سے جنوب کی جانب دس کلومیٹر فاصلے پر واقع کلی زغلونہ گاؤں میں ساٹھ سالہ حکیم خان کے باغات بھی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر سال سیب کے سیزن میں ہر درخت سے عموماً دس کریٹ فصل اٹھاتے اور پھل سے بھرے تین ٹرک کوئٹہ اور دیگر علاقوں کو بھیجتے تھے جس سے انہیں تقریباً چھ سے دس لاکھ روپے آمدنی ہوتی تھی۔ لیکن بارشوں اور سیلاب میں ناصرف ان کی تیار فصل تباہ ہو گئی بلکہ وہ آنے والے کئی سال کے لیے اپنے واحد ذریعہ روزگار سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق کئی ہفتے جاری رہنے والی بارشوں نے صوبے کے طول و عرض میں ایک لاکھ 98 ہزار ایکڑ پر کھڑی فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچایا جبکہ سیلاب سے محفوظ رہنے والی فصل سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے بروقت منڈیوں تک نہ پہنچ سکی۔
باغ کا باغ اُجڑ گیا
پاکستان میں پھلوں کی کاشت کے حساب سے سب سے زیادہ رقبہ بلوچستان میں ہے۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے مطابق صوبے میں تقریباً دو لاکھ ہیکٹر اراضی سے پھلوں کی سالانہ دس لاکھ ٹن پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ضلع قلعہ سیف اللہ، لورالائی، مستونگ، پشین، کوئٹہ اور زیارت سیب کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں جہاں پیدا ہونے والے تور کولو، شین کولو، گاجا، امری، گلاسی، بلیک ڈائمنڈ، رم زم، ٹاپ سپر اور مشہدی سیب اپنے ذائقے کی وجہ سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔
قلعہ سیف اللہ میں پھل اور سبزی منڈی کے تاجروں کی تنظیم کے صدر محمد صادق خان جوگیزئی کہتے ہیں کہ سیب کا سیزن جون سے اکتوبر تک ہوتا ہے۔ اس علاقے میں سیب کے باغات ژوب سے لے کر کان مہترزئی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ فصل تیار ہونے کے بعد منڈی سے روزانہ سیب سے لدے تقریباً تین سو ٹرک ملک کے دیگر شہروں میں بھیجے جاتے ہیں۔ ایسے ایک ٹرک میں بیس سے تیس لاکھ مالیت کا تقریباً سولہ ٹن پھل ہوتا ہے۔
زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کے مطابق جون اور جولائی کی طوفانی بارشوں کے باعث صوبے میں دو لاکھ ایکڑ پر زرعی اراضی اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جس میں سیب کی فصل سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ کے اسسٹنٹ کمشنر ذکا اللہ درانی کا کہنا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں سیب کے باغات کو سب سے زیادہ نقصان کان مہتر زئی اور گردونواح میں ہوا ہے۔
صادق کے مطابق ''سیب کی فصل مسلسل دو ماہ بارش کی زد میں رہی اور اس دوران بیشتر سیب درختوں پر ہی خراب ہو گئے۔ مجموعی طور پر نوے فیصد فصل ضائع ہوئی اور صرف دس فیصد ہی مارکیٹ میں پہنچ سکی۔ اس طرح زمینداروں کے علاوہ ٹرانسپورٹروں، مزدوروں اور سیب کو محفوظ کرنے کے لیے کریٹ، کیل اور اخبار جیسا سامان بیچنے والے چھوٹے دکانداروں کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ اقوام متحدہ کے تعاون سے بلوچستان میں جاری زرعی خوراک و صنعت کی ترقی کے منصوبے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں سیب کی کاشت اور فروخت سے قریباً 18 ہزار افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بارشوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو فی کس بیس لاکھ روپے نقد امداد دی گئی ہے تاہم زمین داروں کی داد رسی کے لئے تا حال کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ حکیم خان کا کہنا ہے کہ ''اگرچہ ہمارے نقصانات کا ازالہ نہیں ہو سکتا تاہم حکومت کی تھوڑی سی توجہ اور امداد بھی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کا احساس محرومی دور کر سکتی ہے''۔
درانی کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ مشترکہ طور متاثرہ علاقوں کا سروے کر رہے ہیں جس کی تکمیل کے بعد زمینداروں کو ہر ممکن امداد مہیا کی جائے گی۔ تاہم صادق جوگیزئی اس دعوے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تک سیب کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کو جانچنے اور درست تخمینے لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی سروے ہی نہیں کیا گیا۔ ایسا سروے کرنے کے لیے معقول وقت اور افرادی قوت درکار ہوتی ہے جو شاید اس وقت حکومت کے پاس نہیں ہے۔
تاریخ اشاعت 15 نومبر 2022