ملتان میں ایڈز کا بڑھتا مرض: 'غیر رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے'

postImg

انجم خان پتافی

postImg

ملتان میں ایڈز کا بڑھتا مرض: 'غیر رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے'

انجم خان پتافی

گزشتہ دو سال کے دوران ملتان میں ایچ آئی وی/ایڈز سے متاثرہ عورتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق جنوری 2021ء تک ملتان میں اس بیماری کے مریضوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی جن میں 179 عورتیں بھی شامل تھیں۔

 اپریل 2023ء تک شہر میں ایچ آئی وی/ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 1300سے زیادہ ہو چکی تھی جن میں عورتوں کی تعداد 411 تھی۔

اس طرح دو سال کے عرصے میں اس بیماری کے رجسٹرڈ مریضوں میں خواتین کی شرح 18 سے بڑھ کر 31 فیصد تک پہنچ گئی۔ یہ وہ مریض ہیں جن کے باقاعدہ ٹیسٹ ہوئے اور وہ مختلف ہسپتالوں یا طبی مراکز سے اپنا علاج کرا رہے ہیں۔ معاشرتی و معاشی وجوہ کی بنا پر یا اس بیماری کی واضح علامات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنا ٹیسٹ نہیں کراتے۔

ایچ آئی وی/ ایڈز کی تشخیص اور علاج سے وابستہ ہسپتالوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ملتان میں اس بیماری کے غیر رجسٹرڈ مریضوں کی حتمی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے تاہم محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد رجسٹرڈ مریضوں سے تین یا چار گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔

بائیس سالہ سیکس ورکر صائمہ (فرضی نام) شادی شدہ اور ملتان کے نواح میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ کچھ عرصہ سے ایچ آئی وی میں ہیں۔

ان کا کہنا ہے وہ یہ بیماری نہ تو اپنے گھر سے لائی ہیں اور نہ ہی انہیں یہ مرض پیدائشی طور پر منتقل ہوا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں یہ بیماری سیکس ورکرز کے اڈوں پر کسی نامعلوم مرد سے لاحق ہوئی اور اب انہیں ساری زندگی اسی کے ساتھ بسر کرنی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب وہ دوسروں کو اس بیماری سے بچانے کے لئے اپنے گاہکوں کے ساتھ محفوظ جسمانی تعلق کی شرط رکھتی ہیں۔

وہاڑی کی ایک نواحی بستی میں رہنے والی چھبیس سالہ شمع (فرضی نام) بھی سیکس ورکر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جسم فروشی کے مراکز پر آنے والے مرد محفوظ جنسی تعلق پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے جس کے باعث ایچ آئی وی کے پھیلاﺅ میں تیزی آ رہی ہے۔

شہر میں اس بیماری سے متاثرہ بیشتر خواتین سیکس ورکر ہیں۔

ایچ آئی وی کے خاتمے اور اس مرض میں مبتلا افراد کی رجسٹریشن پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم اوتھ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آصف الیاس کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم نے ملتان تین ماہ میں 400 سے زیادہ سیکس ورکروں اور اس بیماری کی مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کرائے۔ ان میں سے سات عورتوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی۔ یوں 1.75 فیصد ٹیسٹوں کے نتائج مثبت آئے۔

نشتر ہسپتال ملتان کے سرجن ڈاکٹر شکیب فیض خان کا کہنا ہے کہ غیر محفوظ جنسی تعلقات خواتین میں اس مرض کے پھیلاﺅ کی بڑی وجہ ہیں۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ خواتین اور مردوں کو باقاعدگی سے ایچ آئی وی سمیت دیگر ٹیسٹ کرانے چاہئیں تاکہ دوسری بیماریوں کے علاوہ اس وائرس کی بروقت نشاندہی ہو سکے۔

ڈاکٹر شکیب فیض خان کا کہنا ہے کہ اس منتقلی کی ایک اہم وجہ غیر محفوظ طریقہ انتقال خون بھی ہے۔ طبی آلات کا دوبارہ استعمال، متاثرہ فرد کے زیر استعمال سرنجوں اور حجامت کے آلات بھی ایچ آئی وی کی ایک سے دوسرے فرد کو منتقلی کا باعث بن سکتے ہیں۔

عطائیوں، دندان سازوں اور کان یا ناک چھیدنے کے آلودہ آلات بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ ہیں۔

آصف الیاس کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں شادی سے قبل لڑکی اور لڑکے کا میڈیکل ٹیسٹ کرانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایچ آئی وی پازیٹو ہو تو اس سے دوسرے کو یہ مرض بآسانی منتقلی ہو سکتا ہے۔

ملتان کے سول ہسپتال میں ایچ آئی وی/ایڈز کے علاج کا یونٹ قائم کیا گیا ہے جہاں روزانہ متعدد افراد مفت ادویات حاصل کرتے ہیں۔ نشتر ہسپتال سے بھی مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ تاہم ایچ آئی وی کی مریضہ نیلم (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ان مراکز میں علاج کرانا اور ادویات لینا آسان نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بچوں میں ایڈز کا پھیلاؤ:'میں نہیں جانتی کہ اپنی بیٹی کی جان کیسے بچاؤں'۔

دو بچوں کی ماں نیلم پچھلے چند سال سے ایچ آئی وی میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان جیسے مریضوں کے علاج کے مراکز سرکاری ہسپتالوں میں قائم ہیں جہاں ہر کوئی آتا ہے۔ اگر ان کا کوئی عزیز، محلے دار یا جاننے والا انہیں وہاں رجسٹریشن کراتے، ادویات لیتے یا اپنا ٹیسٹ کرواتے دیکھ لے تو بات پھیل جاتی ہے اور اس طرح ان مریضوں کے لئے بہت سے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔

انہوں نےبتایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ کوئی ایچ آئی وی/ایڈز میں مبتلا ہے تو اس کی اولاد پر بھی اس کا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ خاندان، محلے اور علاقے کے لوگ ایسے مریضوں سے ملنا جلنا کم یا بند کر دیتے ہیں اور ان کے لئے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے ایک اہلکار بتاتے ہیں کہ حکومت اور اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی ادارے ایچ آئی وی کی تشخیص اور ادویات کی مفت فراہمی کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔ تاہم اس بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لئے آگاہی پروگراموں کی ضرورت ہے۔ ایسے پروگراموں کا دائرہ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ٹرانسپورٹروں، ان کے عملے اور سیکس ورکرز تک پھیلایا جانا چاہیے۔

تاریخ اشاعت 3 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

انجم خان پتافی گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں ۔انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہے۔ مختلف قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ ملتان یونین آف جرنلسٹس کے صدر ہیں۔

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.