سردار خان 30 سال پہلے روزگار کی تلاش میں اپنا گھر بار چھوڑ کر لاہور منتقل ہوئے لیکن سرکاری طور پر انہیں اور ان کے خاندان کو ابھی تک مقامی شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔
ان کا آبائی گھر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کی تحصیل ٹوپی کے گاؤں باداں میں ہے لیکن اب وہ اپنے پانچ بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مشرقی لاہور میں واقع الفلاح ٹاؤن نامی بستی میں کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں۔
ان کے پانچوں بیٹے شہر کے مختلف علاقوں میں نِجی ملازمتیں کرتے ہیں۔ ان میں سے 26 سالہ مراد خان ڈیفنس کے علاقے میں ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں اور ساتھ ہی پرائیویٹ طور پر تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔
مراد خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کی تمام عمر لاہور میں گزری ہے لیکن وہ ابھی تک اس شہر میں ووٹ نہیں ڈال سکتے کیونکہ ان کا ووٹ یہاں رجسٹرڈ ہی نہیں۔ سرکاری اہل کاروں کی طرف سے انہیں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کے قومی شناختی کارڈ پر درج ان کا مستقل پتہ ابھی بھی ان کے آبائی گاؤں کا ہے۔
پچھلی ایک دہائی سے لاہور میں کپڑوں کا کاروبار کرنے والے خلیل خان کو بھی یہی شکایت ہے۔ ان کی دکان اور رہائش دونوں مشرقی لاہور کے علاقے بھٹہ چوک میں واقع ہیں جبکہ ذرے نامی ان کا آبائی گاؤں خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کی تحصیل ماموند میں واقع ہے۔
درمیانے قد کے 30 سالہ خلیل خان کہتے ہیں کہ 2008 میں فوج نے ان کے علاقے میں مقیم مذہبی عسکریت پسند گروہوں کے خلاف ایک فوجی آپریشن شروع کیا جس کی وجہ سے ہزاروں مقامی لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا پڑا۔ وہ خود بھی اس آپریشن کی وجہ سے اپنا گاؤں چھوڑ کر لاہور آ گئے۔ آہستہ آہستہ جب انہوں نے یہاں اپنا کاروبار جما لیا تو انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو بھی یہیں بلا لیا۔
خلیل خان کہتے ہیں کہ 2017 میں مردم شماری کرنے والے اہل کار ان کے گھر آئے ضرور تھے لیکن ان کا قومی شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ان اہل کاروں نے انہیں اور ان کے خاندان کو لاہور کی آبادی میں شمار کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کے شناختی کارڈ پر ان کا گاؤں ان کے مستقل پتے کے طور پر درج تھا۔
لاہور کے پختون مردم شماری سے نا خوش کیوں؟
اعداد و شمار سے متعلقہ وفاقی ادارے، پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس، نے حال ہی میں 2017 میں کی گئی مردم شماری کے حتمی نتائج جاری کیے ہیں جن کے مطابق لاہور کی کل آبادی ایک کروڑ 11 لاکھ 19 ہزار نو سو 85 افراد پر مشتمل ہے۔ اگر اس کا موازنہ 1998 میں کی گئی مردم شماری سے کیا جائے تو 19 سالوں میں شہر کی آبادی میں 47 لاکھ 79 ہزار آٹھ سو 71 لوگوں کا اضافہ ہو گیا ہے۔
مردم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس آبادی کا ایک بڑا حصہ (80.94 فیصد) پنجابی بولنے والوں پر مشتمل ہے جبکہ اس کا 12.62 فیصد حصہ اردو بولتا ہے۔ پشتو مقامی طور پر بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد تین لاکھ ایک ہزار چھ سو 36 ریکارڈ کی گئی ہے۔
اس تعداد میں 1998 کے مقابلے میں ایک لاکھ 81 ہزار55 نفوس کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ پچھلی دو مردم شماریوں کے درمیان لاہور کی پختون آبادی میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے حالانکہ اسی دوران شہر کی کل آبادی میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
لیکن اس کے باوجود کہ لاہور کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں اس کی پختون آبادی زیادہ تیزی سے بڑھی ہے مراد خان، خلیل خان اور شہر میں موجود مختلف پختون قوم پرست جماعتوں کے ارکان 2017 کی مردم شماری سے خوش نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس میں مقامی پختونوں کی ایک بڑی تعداد کو یا تو شمار ہی نہیں کیا گیا یا جان بوجھ کر انہیں کسی اور جگہ کا باشندہ دکھایا گیا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے پنجاب کے جنرل سیکرٹری امیر بہادر خان کا دعویٰ ہے کہ اگرچہ لاہور میں "کم از کم 15 لاکھ پختون رہتے ہیں" لیکن ان کی ایک بڑی تعداد کو اس لیے مقامی باشندے تسلیم نہیں کیا گیا کہ ان کے قومی شناختی کارڈوں پر دیا گیا مستقل پتہ یہاں کا نہیں ہے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی ضلع لاہور میں کام کرنے والی تنظیم کے رکن گل محمد ریگوال بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ لاہور میں رہنے والے پختونوں کی کل تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے کیونکہ، ان کے مطابق، صرف لاہور کے پرانے شہر کے علاقے میں ہی تین لاکھ پختون موجود ہیں۔ لیکن ان کے بقول 2017 کی مردم شماری میں ایک "باقاعدہ منصوبے کے تحت" انہیں صحیح طریقے سے نہیں گنا گیا تا کہ مقامی سیاست میں ان کی نمائندگی کو کم سے کم سطح پر رکھا جا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسے بہت سے افراد جو "پچھلے دس بیس سال سے لاہور میں رہ رہے ہیں انہیں بھی ان کے آبائی علاقوں کے باشندے شمار کیا گیا ہے"۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنے آبائی علاقوں میں ہونے والے فوجی آپریشنوں کی وجہ سے در بدر ہو گئے ہیں لیکن، ان کے بقول، انہیں لاہور کے باشندے تسلیم نہ کر کے ان سے یہاں بھی "امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے"۔
کتنے پختونوں کو لاہور کی آبادی میں نہیں گِنا گیا؟
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اسسٹنٹ کمشنر سعید احمد کا کہنا ہے کہ 2017 کی مردم شماری کے دوران مادری زبان کا تعین لوگوں کی طرف سے دی گئی معلومات کی بنا پر کیا گیا۔ یعنی اگر ایک پختون خاندان نے اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ کچھ اور لکھوائی تو اسے پختون شمار نہیں کیا گیا۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اگر مادری زبان کے اندراج کی بنیاد پر کسی لسانی گروہ کا یہ کہنا ہے کہ مردم شماری میں اس کی صحیح تعداد نہیں دکھائی گئی تو "مردم شماری کے عملے کو اس کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2017 کی مردم شماری قومی شناختی کارڈ میں دیے گئے مستقل پتے کی بنیاد پر نہیں کی گئی۔ بلکہ، ان کے مطابق، مردم شماری کرنے والے عملے کے لیے لوگوں کے قومی شناختی کارڈ دیکھنا ضروری ہی نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں: "جو شخص جس جگہ چھ ماہ سے رہ رہا تھا اس کو اسی جگہ کا باشندہ شمار کیا گیا ہے"۔
تاہم سعید احمد کہتے ہیں کہ مردم شماری کرنے والا عملہ ایسی صورت میں قومی شناختی کارڈ دیکھنے کا مطالبہ ضرور کر سکتا تھا جب اسے لگتا تھا کہ اسے دی جانے والی معلومات مبالغے یا دھوکہ دہی پر مبنی ہیں۔
وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس عملے کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ان لوگوں کو لاہور کی آبادی میں شمار نہ کرے جو مذہبی عسکریت پسند گروہوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سے یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ لہٰذا وہ مانتے ہیں کہ اس ہدایت کی روشنی میں لاہور میں رہنے والے "ایسے لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں کی آبادی میں ہی شمار کیا گیا"۔
ان کے اس اعتراف کی بنیاد پر یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ 2017 میں لاہور میں رہنے والے تمام پختونوں کو شہر کی آبادی میں شمار نہیں کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے پختونوں کی اصل تعداد کیا ہے جو لاہور میں رہتے ہوئے بھی یہاں کے باشندے تسلیم نہیں کیے گئے؟
سعید احمد کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی تعداد ہزاروں میں تو ہو سکتی ہے مگر لاکھوں میں نہیں۔ ان کے اپنے الفاظ میں "مردم شماری میں لاہور کی پختون آبادی اس کی اصل تعداد سے کچھ کم ضرور نظر آتی ہے لیکن یہ کمی اتنی نہیں جتنی پختون قوم پرست جماعتیں اسے پیش کر رہی ہیں"۔
تاریخ اشاعت 21 ستمبر 2021