گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

postImg

فہیم اختر

postImg

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

فہیم اختر

پینسٹھ سالہ محمد عارف گلگت شہر کے رہائشی ہیں جو یہاں مدینہ مارکیٹ کے سامنے کرائے کی دکان میں برسوں سے درزی کا کام کر رہے ہیں۔ 

وہ بتاتے ہیں کہ گرمیوں میں وہ دن میں تین جوڑے کپڑے سی لیتے ہیں جس سے دو ہزار روپے سلائی بن جاتی ہے۔ ان کے آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کا گزر بسر اسی سے ہوتا ہے۔ 

"لیکن سردیاں ہمارے لیے عذاب سے کم نہیں ہوتیں۔ دن بھر میں بجلی بمشکل ایک دو گھنٹے آتی ہے جس سے ایک جوڑا سینے میں بھی دو تین دن لگ جاتے ہیں۔" 

وہ کہتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کے دوران وہ ہاتھ سے رفوگری اور فٹنگ وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔ اس کے لیے مہنگے کوئلے والی استری استعمال کرنا پڑتی ہے جو گرم ہونے میں ہی نصف گھنٹہ لیتی ہے۔ 

"سردیوں میں پورا دن مشقت کے باوجود 500 سے ایک ہزار روپے کما پاتا ہوں جس سے گھر کے لیے چائے پتی اور چولہا جلانے کا تیل خریدنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔"

محمد عارف کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن محمد نعیم کا آبائی گاؤں راولپنڈی میں ہے۔ وہ یہاں پینا فیلکس کا کام کرتے ہیں اور سردیوں میں اپنا کاروبار لپیٹ کر گھر چلے جاتے ہیں۔ ”اس کڑاکے کی سردی میں بجلی کے بغیر کاروبار تو کیا یہاں رہنا بھی مشکل ہے۔" 

گلگت بلتستان(جی بی) کی آبادی لگ بھگ 18 لاکھ  ہے۔ سردیوں میں محنت کش یہاں سے روزگار کے لیے راولپنڈی، کراچی جیسے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہی ہیں، صاحب حیثیت لوگ بھی بجلی کی وجہ سے اسلام آباد چلے جاتے ہیں۔

Photo 1

یک نہ شد دو شد: سردیوں میں طلب زیادہ تو ہائیڈل کی پیداوار انتہائی کم 

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ 23-2022ء کے مطابق جی بی میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت (انسٹالڈ کپیسٹی) 215.9 میگا واٹ ہے جس میں 187.3 میگا واٹ ہائیڈل اور 28.65 میگا واٹ تھرمل بجلی شامل ہے۔ تاہم گرمیوں میں پیداوار 120.65 میگاواٹ اور سردیوں میں 90.43 میگا واٹ سے کبھی اوپر نہیں گئی۔

مئی 2023ء کے اعدادوشمار کے مطابق صوبے کو گرمیوں میں 254.82 اور سردیوں میں 452.19 میگاواٹ بجلی چاہیے تھی یعنی گرمیوں میں 134.17 اور سردیوں میں 361.76 میگاواٹ کا شارٹ فال پایا گیا۔ 

ایگزیکٹو انجینئر محکمہ برقیات شاکر علی اعتراف کرتے ہیں کہ طلب اور رسد میں اس نمایاں موسمی فرق کی وجہ سے گرمیوں میں 20 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے۔ بجلی سپلائی کے دورانیے میں بھی لوڈ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ مرحلہ وار بجلی بند کرنا پڑ جاتی ہے۔

جی بی میں بجلی کا دارومدار ہائیڈروپاور پر ہے جس کے لیے صوبے میں 75 چھوٹے پلانٹس (کل کپیسٹی تقریباً 187 میگاواٹ) موجود ہیں۔ یہ پلانٹ پہاڑی نالوں پر لگائے گئے ہیں جہاں سردیوں میں بہاؤ انتہائی کم ہو جاتا ہے اور ان کی پیداوار ایک تہائی رہ جاتی ہے۔

اس کی واضح مثال گلگت کے سیاحتی مقام نلتر کا 18 میگاواٹ کا پن بجلی گھر ہے جس کی پیداوار نومبر میں 9 میگاواٹ اور مارچ میں چھ میگاواٹ رہ جاتی ہے۔ یہیں قائم 14 میگاواٹ کے دوسرے پلانٹ سے بھی سپلائی سردیوں میں چھ میگاواٹ سے کم ہو جاتی ہے۔

چلاس، سکردو، ہنزہ سمیت سب علاقوں کے تمام ہائیڈرو پاور سٹیشنز کی پیداوار مارچ میں کم ترین سطح پر ہوتی ہےجو بجلی کا شارٹ فال بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ 

ڈیزل جنریٹرز سے گلگت میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ صرف 25 منٹ کم ہو سکا

رواں سال کے آغاز میں وادی ہنزہ کے لوگوں نے بجلی کی قلت پر احتجاج شروع کر دیا جس میں عورتیں اور بچے بھی شریک تھے۔ مظاہرین نے دھرنا دے کر شاہراہ قراقرم کو چھ روز تک بلاک رکھا۔
جی بی میں ہنگامی ضرورت کے لیے مختلف شہروں اور قصبات میں ساڑھے 28 میگاواٹ کپیسٹی کے 24 تھرمل سٹیشن یا ڈیزل جنریٹرز نصب ہیں۔

احتجاج کے پیش نظر بجلی سپلائی کا دورانیہ پانچ گھنٹے تک لانے کے لیے ضلع ہنزہ، سکردو، گلگت اور چلاس کے شہری علاقوں میں ڈیزل جنریٹرز چلانے کا فیصلہ کیا گیا جن کے فیول کے لیے وفاقی حکومت نے 48 کروڑ روپے کی منظوری دی۔ 

سرکاری ریکارڈ کے مطابق سکردو میں 4 میگاواٹ کے چھ جنریٹر سیٹ ایک ماہ (جنوری) میں ایک کروڑ 74 لاکھ سے زائد کا ڈیزل پھونک گئے۔ یہی صورت حال چلاس کی ہے جہاں چار سے پانچ گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ 

سپرنٹنڈنٹنگ انجینئر برقیات حامد حسین بتاتے ہیں کہ گلگت شہر کے سات میگاواٹ کے ڈیزل جنریٹر شام کے اوقات میں چلائے جاتے ہیں جن سے 20 گھنٹے دورانیے کی لوڈشیڈنگ میں صرف 25 منٹ کی کمی لائی جا سکی ہے۔

"ہم نے حکومت کو سفارش بھیجی ہے کہ گلگت میں جنریٹر سے سپلائی منقطع کی جائے کیونکہ یہ 25 منٹ کی بجلی کے لیے یومیہ 26 لاکھ روپے کا ڈیزل کھا جاتے ہیں۔" 

تاہم ایکسیئن نگر عامر شہزاد کے مطابق صرف قصبہ ساس ویلی میں جنریٹر سے بجلی کی فراہمی کی جا رہی ہے جو ناگزیر ہے کیونکہ وہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم رہتا ہے۔ 

ڈیزل جنریٹرز جی بی کے گلیشیئر اور قدرتی ماحول کو تباہ کر دیں گے 

ماحولیاتی ماہرین جی بی میں ڈیزل جنریٹرز سے بجلی کی پیداوار کے حکومتی اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ 

ماہر ماحولیات اور انسٹیٹیوٹ آف اربن ازم کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر اعجاز احمد بتاتے ہیں کہ جی بی میں 40 ہزار میگاواٹ سے زائد پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

"اس کے باوجود ہم یہاں ڈیزل جنریٹرز کا استعمال کر رہے ہیں جو نا صرف مالی وسائل کی تباہی بلکہ ماحولیاتی اعتبار سے بھی انتہائی خطرناک ہیں۔"

وہ کہتے ہیں گلگت بلتستان گلیشیئرز کا مرکز ہے اور دھواں ہمیشہ سرد جگہ کی طرف جاتا ہے۔ یعنی ڈیزل جنریٹرز سے نکلنے والا دھواں سیدھا جاکر گلیشیئرز پر ٹھہرتا ہے جو ان کے پگھلنے کا عمل تیز کر دیتا ہے۔

"کون نہیں جانتا کہ یہاں گلیشیئرز پگھلنے سے جھیلیں بنی ہیں اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی ہے۔"

سیکریٹری برقیات گلگت ثناء اللہ مانتے ہیں کہ ڈیزل جنریٹرز ماحول دوست نہیں ہیں۔ مگر ان کا اصرار ہے کہ یہاں جعفر برادرز کے' کینوپی ماؤنٹڈ جنریٹرز' نصب کیے گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ کاربن جذب کر لیتے ہیں۔

 لیکن ڈاکٹر اعجاز احمد، سیکریٹری برقیات کے اس موقف کو نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ جنریٹر چاہے جتنا اچھا ہو ماحول کے لیے زہر ہے۔ اس میں معمولی سی خرابی بھی پیدا ہو جائے تو دھوئیں کے بادل چھوڑنا شروع کر دیتا ہے۔"پھر اس کے لیے ڈیزل کراچی سے آتا ہے اور اس کا ہزاروں کلومیٹر کا یہ سفر خود بھی آلودگی پیدا کرتا ہے۔"

 آخر جی بی سولر اور ونڈ جیسے ذرائع پر منتقل کیوں نہیں ہو جاتا؟

اس سوال کے جواب میں محمد عارف درزی کا کہنا تھا کہ ان کی اتنی بچت ہی نہیں ہوتی کہ سولر سسٹم وغیرہ کا انتظام کریں۔ 

لیکن سچ تو یہ ہے جب سرکاری بجلی تین روپے یونٹ ملے تو قابل تجدید ذرائع پر خرچہ کرنے کا کون سوچے گا؟

جی بی میں گھریلو صارفین سے 100 یونٹ تک یہی ریٹ وصول کیا جاتا ہے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2015ء سے 2022ء کے درمیان حکومت نے جی بی میں ہائیڈرو پلانٹس سے کم پیداوار(under utilization)، بجلی چوری یا لائن لاسز، سبسڈی وغیرہ کی مد میں 29 ارب روپے سے زائد کا نقصان کیا ہے۔ بجلی کی پیداواری لاگت 17.86 روپے یونٹ کے مقابلے میں اس کی قیمت فروخت اوسطاً ساڑھے پانچ روپے یونٹ گھریلو اور ساڑھے سات روپے کمرشل ہے۔

ماہرین کی رائے ہے کہ حکومت نے یہی رقم اگر توانائی کے متبادل ذرائع پر خرچ کی ہوتی تو آج یہاں نہ لوڈشیڈنگ ہوتی اور نہ ماحول دشمن ڈیزل جنریٹرز استعمال کرنا پڑتے۔

تاہم سیکریٹری برقیات نے بتایا کہ مرکزی حکومت نے گلگت میں 100 میگاواٹ سولر بجلی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ منصوبہ نومبر تک مکمل کیا جانا ہے جس کے تحت تمام سرکاری عمارتوں پر روف ٹاپ پینلز لگائے جائیں گے۔ ساتھ ہی ہائیڈروپاور کے کئی زیر التواء منصوبے بھی آئندہ سال سردیوں تک مکمل ہو جائیں گے۔

معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ بتاتے ہیں کہ یہاں بجلی کی قلت کا مسئلہ پرانا چلا آ رہا ہے کیونکہ جی بی حکومت کے پاس 2018ء تک توانائی سے متعلق قانون سازی کے اختیارات ہی نہیں تھے۔

نلتر میں 16 میگاواٹ کا منصوبہ اسی لیے 12 سال التواء کا شکار رہا جو اب جون تک مکمل ہو جائےگا۔ کچھ اور ہائیڈل منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں۔ 

"ہم نے لوگوں کے احتجاج پر مجبور ہو کر ڈیزل جنریٹرز چلائے ہیں ان کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔"

تاریخ اشاعت 11 مارچ 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فہیم اختر گلگت بلتستان کے مقامی مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے میڈیا اور کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

'میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے': ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceافضل انصاری
thumb
سٹوری

بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

درخت کاٹو یہاں سے بجلی گزرے گی

خزانے کے لالچ میں بدھ مت کے مجسموں کو خطرہ

thumb
سٹوری

'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی

راوی کو پانی چاہئیے, روڈا نہیں

ماحولیاتی تبدیلی: پاکستان نے اہداف طے کر لئے ہیں بس دنیا کی طرف سے فنڈز کا انتظار ہے۔…

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.