ملتان شہر کے سلطان پور نامی علاقے میں واقع گورنمنٹ پرائمری سکول میں لگا شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والا نظام لگ بھگ ڈھائی سال سے بند پڑا ہے۔
سکول کے ہیڈماسٹر محمد اظہر کہتے ہیں کہ اسے اگست 2019 میں نصب کیا گیا لیکن اس میں شامل چھ پلیٹوں میں سے ایک تنصیب کے وقت ہی ٹوٹ گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ بارہا شکایت کرنے کے باوجود اسے نصب کرنے والی کمپنی نے ٹوٹی ہوئی پلیٹ کو ابھی تک تبدیل نہیں کیا۔
تاہم اس نظام کے غیر فعال ہونے کہ وجہ پلیٹ کا ٹوٹنا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
یہ وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ 2 ستمبر 2019 کی شام کو انہیں اطلاع ملی کہ ایک چور سکول کے تالے توڑ کر شمسی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے والا اِنورٹر اور بجلی کا ذخیرہ کرنے والی بیٹریاں لے اڑا ہے (جن کی مجموعی مالیت ڈھائی لاکھ روپے بنتی ہے)۔ انہوں نے فوری طور پر سکول پہنچ کر موقعِ واردات کا معائنہ کیا اور کوئی وقت ضائع کیے بغیر قریبی تھانے کو بھی مطلع کر دیا جس نے 6 ستمبر 2019 کو اس واردات کی ایک ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر لی۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سکول میں لگے کیمروں کی تیار کردہ تصاویر اور ویڈیوز بھی پولیس کو فراہم کر دیں جن میں ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن، ان کے بقول، ان "ٹھوس شواہد کی موجودگی کے باوجود پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی"۔
اس صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس واردات کہ بنیادی وجہ حکومت کی "مجرمانہ غفلت" ہے کیونکہ اس نے "لاکھوں روپے مالیت کے شمسی توانائی کے سامان کی حفاظت کے لیے سکول میں کوئی چوکیدار تعینات نہیں کیا"۔
ملتان شہر ہی کے ایک اور علاقے، بیری والا، کے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول میں نصب شمسی توانائی کے نظام کی بیٹریاں اور اِنورٹر بھی دو ستمبر 2019 سے غائب ہیں۔ اس سکول کی ہیڈمسٹرس شمائلہ حنیف کہتی ہیں کہ اُس روز جب وہ صبح کے وقت سکول پہنچیں تو انہیں معلوم ہوا کہ نامعلوم چور صرف دو ماہ پہلے لگائے گئے نظام کے اہم ترین حصے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ان کے مطابق چوری کیے گئے سامان کی مالیت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ہے۔
سرکاری سکولوں میں شمسی توانائی کی تنصیب کے پروگرام کے پراجیکٹ ڈائرکٹر اسد منصور قیصرانی اس صورتِ حال سے آگاہ ہیں۔ مئی 2020 میں انہوں نے ایک خط لکھ کر پنجاب کے محکمہِ توانائی کو بتایا کہ اُس وقت تک صوبے کے ایک سو پچاس سکولوں میں چوری کی ایسی وارداتیں ہو چکی تھیں جبکہ آئے روز ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ انہوں نے خط میں محکمے کے سیکرٹری سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ پنجاب کی وزارتِ داخلہ کے ساتھ مل کر ان چوریوں کی مکمل تفتیش کرائیں اور چوری شدہ سامان کو جلد از جلد بازیاب کرائیں تاکہ شمسی توانائی کے نظام کو ہر سکول میں فعال کیا جا سکے۔
شمسی توانائی کے آلات کی حفاظت کس کی ذمہ داری؟
ہیڈمسٹریس شمائلہ حنیف کہتی ہیں کہ ان کے سکول میں چوری کی وارداتیں معمول کی بات ہے۔ ان کے بقول سکول کے مرکزی دروازے، کمروں اور الماریوں کے تالے اکثر ٹوٹے ہوئے ملتے ہیں اور اس کی پانی کی موٹر اور فرنیچر وغیرہ بھی کئی بار غائب ہو چکے ہیں۔
ضلع ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے گاؤں سید والہ کے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول میں بھی چوری کے واقعات عام ہیں اس لیے اس کے عملے نے چھتوں میں لگے پنکھے اور ایسی تمام برقی اور دوسری تنصیبات کہیں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں جن کی سردیوں میں ضرورت نہیں پڑتی۔ اس سکول کی ہیڈمسٹریس ارم شاہد کہتی ہیں کہ ماضی میں ہونے والی چوریوں کی وجہ سے انہیں ہر وقت یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں اس میں نصب شمسی توانائی سے بجلی بنانے کا نظام بھی چوروں کے ہاتھ نہ لگ جائے کیونکہ، ان کے مطابق، "اس کی حفاظت کے لیے کوئی چوکیدار موجود نہیں"۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے سکول کا "سابقہ چوکیدار اس نظام کی تنصیب کے تقریبا چھ ماہ بعد ریٹائر ہو گیا تھا لیکن اس کے بعد نیا چوکیدار ابھی تک تعینات نہیں کیا گیا"۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ صوبائی حکومت خود اِن چوکیداروں کی ضرورت کا اقرار کر چکی ہے کیونکہ جب مارچ 2017 میں سرکاری پرائمری سکولوں میں شمسی توانائی کی تنصیب کا منصوبہ 'خادمِ اعلی پنجاب اجالا پروگرام' کے نام سے شروع ہوا تو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی یہ طے پایا تھا کہ ان تنصیبات کی حفاظت کے لیے چوکیدار تعینات کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں پنجاب کے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اپریل 2017 میں بھیجے گئے ایک خط کے جواب میں صوبائی محکمہ خزانہ نے چوکیداروں کی 17 ہزار چھ سو 69 اسامیوں کی منظوری بھی دے دی تھی۔
لیکن ان اسامیوں میں کسی ایک پر ابھی تک کوئی تقرری نہیں ہو سکی۔
سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے بجٹ اینڈ پلاننگ، قیصر رشید، تسلیم کرتے ہیں کہ چوکیداروں کی تعیناتی میں تاخیر کی وجہ سے اب تک دو سو سے زائد سکولوں میں لگا شمسی توانائی کا سامان چوری ہو گیا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکولوں پر دیگر ضروری خرچے کرنے کے بعد ان کے محکمے کے پاس اتنے پیسے نہیں بچتے کہ وہ ہر سکول میں 20 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ایک چوکیدار بھی رکھ سکے۔
درحقیقت وہ شمسی توانائی کے مالی فوائد کے بارے میں ہی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت اسے نصب کرنے پر فی سکول سات لاکھ روپے خرچ کر رہی ہے جب کہ اس کو محفوظ اور چالو رکھنے پر آنے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ یوں، ان کی نظر میں، شمسی توانائی کی فراہم کردہ بجلی دوسری بجلی سے کہیں زیادہ مہنگی پڑ رہی ہے کیونکہ عام طور پر ایک پرائمری سکول کا ماہانہ بِل بجلی دو چار ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتا۔
لیکن اسد منصور قیصرانی کہتے ہیں کہ اب جبکہ ہزاروں سکولوں میں اس نظام کی تنصیب ہو چکی ہے تو صوبائی حکومت کو اس کی حفاظت کا انتظام کرنا ہی ہو گا۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہو ئے وہ اس منصوبے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 'خادمِ اعلی پنجاب اجالا پروگرام' کے تحت صوبائی محکمہِ توانائی نے صوبے بھر کے 15 ہزار 61 پرائمری سکولوں، 24 سو بنیادی مراکزِ صحت اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو شسمی توانائی فراہم کرنا ہے۔ اس کے پہلے مرحلے میں جون 2021 تک جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع میں 10 ہزار سات سو 50 پرائمری سکولوں میں شمسی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے کے نظام نصب کر دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق ان میں سے تقریباً تین ہزار سکول ایسے ہیں جہاں پہلے بجلی موجود ہی نہیں تھی۔
یہ بھی پڑھیں
سڑک بن رہی ہے: گوادر میں ایکسپریس وے کی تعمیر پرانے شہر کے باسیوں اور مچھیروں کے لیے وبالِ جان
ان کا کہنا ہے اس منصوبے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بنک نے پاکستان کو قرضہ دے رکھا ہے جس میں سے پنجاب کے لیے آٹھ کروڑ 76 لاکھ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ اس لیے محکمہ توانائی کے سیکرٹری کو 2020 میں لکھے گئے خط میں انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ بنک کی طرف سے کرایا جانے والا منصوبے کا آزادانہ تجزیہ شمسی توانائی کی تنصیبات کی چوریوں کی وجہ سے کسی منفی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے جو قرضے کی فراہمی میں تاخیر یا رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے۔
سلطان پور کے ہیڈماسٹر محمد اظہر کو یہ شکایت بھی ہے کہ ان کے سکول میں نصب شمسی توانائی کے نظام کے ساتھ منسلک اس کے محلِ وقوع کا تعین کرنے والی جی پی ایس مشین دو سال تک فعال ہی نہیں کی گئی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ مشین فعال ہوتی تو اس کی مدد سے چوری شدہ سامان ڈھونڈا جا سکتا تھا۔
ضلع ملتان کے علاقے شجاع آباد میں واقع گاؤں ابراہیم والا کے پرائمری سکول کی ہیڈمسٹرس شمشاد بیگم بھی ان کی بات کی تائید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے سکول میں شمسی توانائی کے نظام کی تنصیب کے لگ بھگ چھ ماہ بعد اس سے منسلک جی پی ایس مشین چالو کی گئی۔
اگرچہ اس مشین کا بنیادی مقصد شمسی توانائی جذب کرنے والی پلیٹوں کو ایک خود کار طریقے سے درست سمت میں رکھنا ہے تاکہ ان پر زیادہ سے زیادہ دھوپ پڑتی رہے لیکن اسد منصور قیصرانی کہتے ہیں کہ اس کے فعال ہونے کے بعد حکومتی اہل کار اپنے دفتروں میں بیٹھے شمسی توانائی کی تنصیبات کی کارکردگی اور محلِ وقوع پر بھی نظر رکھ سکتے ہیں۔
تاہم وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ کچھ سکولوں میں یہ مشین دیر سے فعال کی گئی ہے۔ اس کے برعکس ان کا دعویٰ ہے کہ شمسی توانائی کی تنصیب کے ساتھ ہی تمام سکولوں میں یہ مشینیں بھی فوری طور پر فعال کر دی گئی تھیں "تاکہ تمام تنصیبات کی نگرانی کو یقینی بنایا جا سکے"۔
تاریخ اشاعت 31 جنوری 2022