ڈگری حاصل کرنے کے لیے محمد اسد کو کچھ دوسرے طلبا سے مل کر لاہور کی ایک بڑی سڑک ٹریفک کے لیے بند کرنا پڑی۔
وہ 2013 میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے وسطی پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب سے لاہور منتقل ہوئے تھے۔ ابتدا میں انہوں نے ایک نِجی تعلیمی ادارے، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، کے بیچلر اِن بزنس ایڈمنسٹریشن (بی بی اے) پروگرام میں داخلہ لیا۔ اس وقت وہاں ایک سمیسٹر کی فیس ایک لاکھ 25 ہزار روپے تھی۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ "پہلے ہی سمیسٹر کے بعد میرے والدین کے لیے یہ فیس ادا کرنا ممکن نہ رہا"۔ لہٰذا انہوں نے کسی ایسی یونیورسٹی کی تلاش شروع کر دی جہاں وہ نسبتاً کم پیسے ادا کر کے بی بی اے کر سکیں۔
اس تلاش کے دوران انہیں پتہ چلا کہ سرکاری شعبے کے تعلیمی ادارے، یونیورسٹی آف سرگودھا، نے ایک نِجی کاروباری ادارے کے ساتھ مل کر لاہور میں اپنا ایک کیمپس کھولا ہے جس میں کئی ہزار طلبا پڑھ رہے ہیں۔ ان کے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کیمپس میں بی بی اے کے ایک سمیسٹر کی فیس محض چالیس ہزار روپے کے قریب تھی جبکہ اس کی ڈگری یونیورسٹی آف سرگودھا جیسے تسلیم شدہ ادارے سے جاری کی جا رہی تھی۔
تاہم اس وقت محمد اسد کو یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کیمپس نے یونیورسٹی آف سرگودھا کی طرف سے لگائی جانے والی ایک اہم شرط کی خلاف ورزی کر رکھی ہے جس کے تحت اِس میں ایک خاص تعداد سے زیادہ طلبا داخل نہیں کیے جا سکتے تھے۔ ابھی وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پائے تھے کہ اس معاملے پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا اور یونیورسٹی نے لاہور کیمپس میں پڑھنے والے طلبا کو ڈگریاں جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران اس یونیورسٹی میں ہونے والی مالی اور تعلیمی بے قاعدگیوں کی خبریں نیوز میڈیا میں نشر اور شائع ہونے لگیں لہٰذا قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ اس کا ایک خصوصی آڈٹ کرے۔ یکم جولائی 2018 کو پاکستان ٹوڈے نامی انگریزی اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق اس آڈٹ کی ایک سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری اور اس کے رجسٹرار مدثر کامران کے بارے میں کئی اہم انکشافات کیے گئے جن میں قواعد و ضوابط کی پابندی کیے بغیر دو نِجی کمپنیوں کو لاہور اور وسطی پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین میں اس کے ذیلی کمپس بنانے کی اجازت دینا بھی شامل تھا۔
محمد اسد اس وقت تک اپنی تعلیم مکمل کر چکے تھے لیکن ایسی خبریں سن کر انہیں تشویش ہونے لگی کہ کہیں انہیں بھی ڈگری دینے سے انکار نہ کر دیا جائے ۔ لہٰذا انہوں نے چند دوسرے طلبا کے ساتھ مل کر کیمپس انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ انہیں فی الفور ڈگریاں دی جائیں۔
اگرچہ انہیں ان کی ڈگری دے دی گئی لیکن، ان کے مطابق، "جب میں نے اسے ملازمت کی درخواست کے ساتھ ایک بنک میں جمع کرایا تو مجھے بتایا گیا کہ اسے یونیورسٹی آف سرگودھا نےجاری نہیں کیا"۔
در حقیقت تین ہزار سے زیادہ طلبا کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا اور داخلے کے وقت ان سے کیے گئے وعدے کے برعکس انہیں دی جانے والی ڈگری یونیورسٹی کے بجائے لاہور کیمپس نے خود ہی جاری کر دی تھی۔
محمد اسد کہتے ہیں کہ انہوں نے انتظامیہ سے اس سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں اس کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ جب انہوں نے کچھ دیگر طلبا کو اس مسئلے کے بارے میں بتایا تو ابتدا میں ان میں سے بیشتر کو اس کی سنگینی کا احساس نہ ہوا۔ تاہم جلد ہی وہ اُن میں سے کچھ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ انہیں اس کے حل کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔
نتیجتاً ان سب نے مل کر ستمبر 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے انسانی حقوق کے سیل میں ایک درخواست دائر کی کہ انہیں یونیورسٹی آف سرگودھا کی ڈگریاں دلوائی جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ درخواست دینے کے بعد وہ متعدد مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی لاہور رجسٹری میں جا کر متعلقہ سیل کو اس کے بارے میں یاد دہانی کراتے رہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہ کی گئی۔
عدالتِ عالیہ سے مایوس ہونے کے بعد محمد اسد نے چھ سو کے قریب طلبا کو اکٹھا کیا اور ان کی مدد سے جنوب مغربی لاہور کے علاقے چوہنگ میں واقع لاہور کیمپس کے سامنے سے گزرنے والی سڑک کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔
یہ احتجاج مسلسل 22 گھنٹے جاری رہا۔
اس کے بعد متعلقہ سرکاری حکام نے لاہور کیمپس میں ہونے والی بےضابطگیوں کا نوٹس لے کر اسے بند کر دیا اور اس میں پڑھنے والے تمام طلبا کو یونیورسٹی آف سرگودھا کے مرکزی کیمپس میں منتقل کر دیا۔ اگلے 10 روز میں یونیورسٹی نے احتجاجی طلبا کو ڈگریاں بھی جاری کر دیں۔
اس احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بھی یونیورسٹی میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا نوٹس لیا اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو ان میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ چنانچہ نیب نے اکتوبر 2018 میں متعدد افراد کو گرفتار کر لیا جن میں ڈاکٹر محمد اکرم چودھری اور یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار بریگیڈئر (ریٹائرڈ) راؤ جمیل اصغر کے علاوہ لاہور کیمپس کے چیف ایگزیکٹو میاں جاوید احمد بھی شامل تھے (تاہم اُسی سال دسمبر میں لاہور کی کیمپ جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا)۔
ان لوگوں سے کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یونیورسٹی آف سرگودھا کی انتظامیہ نے کروڑوں روپے کی رشوت کے عوض اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے لاہور اور منڈی بہاؤالدین میں ذیلی کیمپس تو کھول دیے تھے لیکن ان کے قیام کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے اجازت تک نہیں لی تھی۔
انتظامی اور قانونی خامیاں
لاہور کے امپیریل کالج آف بزنس سٹڈیز کو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے نومبر 2017 میں غیرقانونی قرار دیا۔ اس وقت اس میں 20 ہزار کے قریب طلبا پڑھ رہے تھے جو اس فیصلے کے بعد اپنے تعلیمی مستقبل کے بارے میں غیریقینی کا شکار ہو گئے۔
ان میں 2015 سے اس ادارے میں بی ایس سی کے طالب علم اور خیبرپختونخوا کے رہنے والے اسداللہ شاہ بھی شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے غیرقانونی قرار دیے جانے کے بعد انہیں یہ فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں وہ اپنی ڈگری سے ہی محروم نہ ہو جائیں اور فیسوں کی مد میں جمع کرائے گئے ان کے لاکھوں روپے ضائع نہ ہو جائیں۔
اس امکان کا سدِباب کرنے کے لیے انہوں نے سینکڑوں طلبا کے ساتھ مل کر اپنے تعلیمی ادارے کے اندر ہی ایک احتجاجی مہم شروع کی جو کئی ماہ جاری رہی۔ بالآخر اس کے نتیجے میں 2018 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے طلبا کے مطالبات مان لیے اور انہیں تصدیق شدہ ڈگریاں جاری کر دی گئیں۔
اعلیٰ تعلیم سے منسلک سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پنجاب بھر میں ایسے کئی ادارے موجود ہیں جو امپیریل کالج آف بزنس سٹڈیز کی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اجازت کے بغیر چل رہے ہیں۔ کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کی گئی ایک فہرست کے مطابق صوبے میں ایسے غیرقانونی کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد 96 ہے (جبکہ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا میں بالترتیب ایسے 35 اور 11 تعلیمی ادارے موجود ہیں)۔
یہ بھی پڑھیں
لاہور میں غیرقانونی رہائشی منصوبوں کا مستقبل: حکومتی کمیشن کا قیام کس کے مفاد میں؟
حال ہی میں جسٹس عمر عطا بندیال کی قیادت میں کام کرنے والے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک تین رکنی بینچ نے بھی ایک مقدمہ سنتے ہوئے پنجاب میں ایسے اداروں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ یہ مقدمہ نجی شعبے میں چلنے والی پریسٹن یونیورسٹی اور الخیر یونیورسٹی کی لاہور اور کراچی میں قائم غیرقانونی شاخوں میں زیرِتعلیم طلبا کی درخواست پر سنا جا رہا تھا۔ اس درخواست میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ ان شاخوں کے غیرقانونی ہونے کی سزا طلبا کو نہیں دی جا سکتی لہٰذا ہائر ایجوکیشن کمیشن کو حکم دیا جائے کہ وہ انہیں مصدقہ ڈگریاں جاری کرے۔
بینچ نے 15 دسمبر 2021 کو کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی قانونی حیثیت اور ان کے معیار پر نظر رکھنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ربط و ضبط یقینی بنائے۔ ججوں نے اُسے یہ حکم بھی دیا کہ وہ پاکستان بھر میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے یکساں پالیسیوں کے نفاذ کے لیے درکار تمام ضروری اقدامات اٹھائے۔
تعلیمی اداروں کی نگرانی کس کا کام ہے؟
فزکس کے مشہور استاد اور تعلیمی پالیسیوں کے ایک نمایاں نقاد ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پائے جانے والے غیرقانونی کیمپس دراصل صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان رابطے کے فقدان کا ہی نتیجہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی صرف یہی ذمہ داری نہیں کہ وہ طلبا کو ایسے اداروں کی موجودگی کے بارے میں محض خبردار کردے بلکہ، ان کے مطابق، اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اس مسئلے کے لیے "ایک جامع اور بہتر پالیسی" بنائے اور لاگو کرے۔
پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہل کار، مطیع الرحمان، ان کا یہ نکتہِ نظر تسلیم کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ربط و ضبط نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ہائر ایجوکیشن کمیشن، پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے درمیان کوئی ایسا باضابطہ تعلق موجود نہیں" جس کی بنیاد پر یہ طے کیا جا سکے کہ ان میں سے کون سے ادارے کی کیا ذمہ داریاں اور کیا اختیارات ہیں۔ نتیجتاً، ان کے مطابق، "ان تینوں اداروں کی پالیسیوں میں کوئی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی"۔
مطیع الرحمان کا یہ بھی کہنا ہے صوبائی سطح پر کسی ادارے نے ابھی تک غیر قانونی تعلیمی اداروں کے اعداد و شمار باقاعدہ طور پر اکٹھا کرنے اور جاری کرنے کی ذمہ داری نہیں سنبھالی۔ اس طرح کے ریکارڈ کی عدم موجودگی کی بنا پر ان کا کہنا ہے کہ "پنجاب میں اعلیٰ تعلیم کے غیرقانونی اداروں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دی گئی ہے"۔
تاریخ اشاعت 12 جنوری 2022