سندھ میں ضلع سجاول کے ساٹھ سالہ قاسم تھیمور بحری باز (پیریگرین فالکن) کے ماہر شکاری ہیں اور 15 سال سے عرب امراء کے مقامی ایجنٹوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہی ان کا پیشہ اور ذریعہ روزگار ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ شکار ہوائی روزی ہے۔ قسمت ساتھ دے تو وہ سیزن میں دو سے چار باز پکڑ لیتے ہیں۔ جس سے دس بیس لاکھ کما لیتے ہیں۔کبھی کبھی ایک باز بھی ہاتھ نہیں آتا اور تین ماہ کی محنت سمیت کیمپ کا خرچہ سب ضائع ہو جاتا ہے۔
پیریگرین فالکن انٹار کٹیکا کے سوا دنیا کے تقریباً تمام براعظموں میں پائے جاتے ہیں۔ مگر بحری باز فالکونیڈ فیملی میں الگ خصوصیات کا حامل ہے۔ یہ موسم سرما کے آغاز پر پاکستان کے ساحلی اضلاع کے پہاڑی اور دریائی علاقوں میں نمودار ہوتے ہیں اور یہاں جھاڑیوں کی وجہ سے ان کا شکار نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
یہاں بحری باز کے شکار کے لیےجھاڑیوں کے درمیان میدان میں گڑھا کھوا جاتا ہے جس میں شکاری موجود رہتا ہے۔ شکاری اور گڑھے کو شاخوں سے ڈھانپ(کیموفلاج) دیا جاتا ہے۔ باز کو راغب کرنے کے لیے قریب ہی بدور (شکرا نما مقامی پرندہ)کو رسی سے باندھ دیتےہیں اور اس کے پنجوں میں چوزا پھنسا دیتے ہیں۔ بحری باز جب 'بدور' سے چوزا چھینے کے لیے اترتا ہے تو شکاری اسے پکڑ لیتے ہیں۔
نایاب قسم کا یہ بحری باز خرگوش، ہرن اور تلور کے شکار کے لیے مشہور ہے۔اس لیے عرب شہزادے اور امراء ہر سال سندھ میں پکڑے جانے والے یہ باز مہنگے داموں خرید کر لے جاتے ہیں۔ پھر اس کو تربیت دے کر شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سندھ میں پرندوں پر تحقیق کرنے والے ماہر خادم رند بتاتے ہیں کہ بحری باز کو یہاں'چرغ باز' بھی کہا جاتا ہے۔ درحقیقت بحری باز کا نر کسی کام کا نہیں ہوتا جبکہ شکار کے لئے اس کی مادہ کار آمد ہوتی ہے اور یہ لاکھوں روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ ایک بالغ باز کی لمبائی 47 سے 55 سنٹی میٹر اور پروں کا پھیلاؤ 105 سے 130 سنٹی میٹر ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اوسط بحری باز کا وزن 730 گرام سے ایک ہزار 300 گرام تک ہوتا ہے اور اس کی عمر زیادہ سے زیادہ 25 سال ہوتی ہے۔ اس کے تیز پنجے اور نوکدار چونچ شکار کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ حملہ کرتے وقت اس کی رفتار 322 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔
خادم رند نے بتایا کہ بحری باز کی افزائش اپریل مئی میں ہوتی ہے۔ یہ اپنا گھونسلہ نہیں بناتے بلکہ کسی چٹان یا اونچے درخت پر پہلے سے بنے گھونسلے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ مادہ تین سے چار انڈے دیتی ہے اور انڈے سے بچے نکلنے(ہیچنگ) کا زیادہ سے زیادہ وقت 32 دن ہوتا ہے۔ بچے 48 سے 50 دنوں میں اڑان کے قابل ہو جاتے ہیں۔
پیریگرین فالکن کو 1999ء میں 'ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار' پرندوں کی امریکی فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم خادم رند کا کہنا ہے کہ بحری باز کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ کیر تھر سمیت پاکستان کے تمام پہاڑی علاقوں میں اس باز کی افزائش ہوتی ہے مگر یہاں اس کی تعداد سے متعلق درست معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
بحری باز کے بہت سے ماری(شکاری کا مقامی نام) ضلع سجاول میں 'جاتی شہر' کی ساحلی پٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں میں ایک گوٹھ رمضان ملاح کے موسیٰ ملاح بھی ہیں جو سات برسوں سے بحری باز کا شکار کر رہے ہیں۔ ان کے والد بھی ماہر شکاری تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ شکاریوں کو صرف مزدوری ملتی ہے۔ اصل کمائی تو دلالوں( ایجنٹس) کی ہوتی ہے جو کیمپ کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ بحری باز کے شکار کے لیے جنگلوں میں پورا سیزن کیمپ لگایا جاتا ہے۔ جس میں ایک ماہر شکاری کے ساتھ تین چار افراد ہو تے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کیمپ میں تین مہینے تک دن رات ہر لمحہ چوکس رہنا پڑتا ہے۔ وہاں لوگ سردی اور نیند پوری نہ ہونے سے بیمار ہو جاتے ہیں مگر وہیں پڑے رہتے ہیں۔
سندھ میں غیر قانونی شکار پر نظر رکھنے والے صحافی اور جاتی شہرکے رہائشی زاہد اسحاق بتاتے ہیں کہ یہاں ستمبر، اکتوبر اور نومبر میں بحری باز کے شکار کا سیزن ہوتا ہے۔ ویسے تو تمام پرندوں کے شکار پر پابندی ہوتی ہے مگر محکمہ جنگلی حیات والے مبینہ طور پر بھاری رشوت کے عوض جانتے بوجھتے" لاعلم"رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بحری باز کے شکار کے لیے اس سال بھی حسب معمول ٹھٹہ، بدین اور سجاول میں دو سو سے زائد غیر قانونی کیمپ قائم کئے گئے ہیں۔ان لوگوں کو نہ صرف محکمہ جنگلی حیات بلکہ مقامی پولیس اور وڈیروں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
زاہد اسحاق نے بتایا کہ یہ شکاری کیمپ بھنبھور، کیٹی بندر ، حجامڑو کریک، میرپور ساکرو، گاڑھو، رھڑو، واڑی، لاکھامل، کلکاں چھانی اور شیخ کرھیو بھانڈاری میں موجود ہیں۔ اسی طرح رکھال، مارو، علی بندر، زیرو پوائنٹ، نریڑی، رحمکی بازار ، جھرک ، ٹنڈو حافظ، جھمپیر، سری ، مال ماڑی اور کئی دیگر مقام پر بھی کیمپ لگائے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ "عرب شہزادوں اور امراء کے کروڑ پتی دلال(ایجنٹ) کراچی، بدین، ٹھٹہ اور سجاول چاروں شہروں میں موجود ہیں۔ یہ شکاری کیمپ وہی لگوا تے ہیں اور ہر کیمپ پر دلال کا دو لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ شکار کے بعد بحری باز دلال (کیمپ کے مالک) کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں
رزق کا فقدان یا شکاریوں کا خوف: مہاجر پرندہ سیاہ سر دُرسہ ایک سال سے آواران کا مہمان نہیں بنا
زاہد اسحاق کے مطابق دلال ایک بحری باز 20 سے 50 پچاس لاکھ روپے میں عرب خریداروں کو بیچتے ہیں اور اس رقم کے پانچ حصے کیے جاتے ہیں۔ اس میں سے ایک حصہ ماہر شکاری کو ملتا ہے۔ دوسرا شکاری کے ساتھیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ باقی تین حصے دلال رکھ لیتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ رواں سیزن میں اب تک دس بحری باز پکڑے جا چکے ہیں۔ جبکہ ہر سال ساحلی اضلاع میں 40 سے 60 بازوں کا شکار کیا جاتا ہے۔
گیم انسپکٹر علی شاہ ضلع ٹھٹہ میں محکمہ جنگلی حیات کے انچارج ہیں۔ انہوں نے بحری باز کے شکار سے"اظہار لاعلمی"یا کیمپوں کے وجود سے انکار نہیں کیا۔ تاہم وہ بتاتے ہیں کہ بحری باز کا شکار زیادہ تر پہاڑی علاقوں،سمندری جزیروں اور دور دراز علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ جہاں بروقت پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مشکلات کے باوجود انہوں نے پچھلے ایک ماہ میں ٹھٹہ کی پہاڑی اور ساحلی پٹی میں بارہ شکاری کیمپ تباہ کیے ہیں۔ لیکن شکاری بھاگ جاتے ہیں۔ پورے علاقے میں ان کی ٹیمیں مسلسل پٹرولنگ کر رہی ہیں اور یہ شکار روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
بدین اور سجاول ریجن کے گیم انسپیکٹر صوفن شاہ نے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود موقف دینے سے انکار کر دیا ہے۔
تاریخ اشاعت 30 اکتوبر 2023