مہندی سے رنگے سرخ بالوں والی ایک ادھیڑ عمر خاتون ایک چھوٹی سی دکان میں کشمیری شالیں دیکھ رہی ہیں۔ جیسے جیسے دکان دار انہیں قیمتیں بتا رہا ہے ان کے چہرے پر فکر کی لکیریں گہری ھوتی جا رہی ہیں۔
وہ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی مدینہ مارکیٹ میں خریداری کر رہی ہیں جہاں ایک شال 10 ہزار روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔ ڈھائی سال پہلے یہی شال اس سے آدھی قیمت پر دستیاب تھی۔
اُس وقت اِس طرح کی شالیں ایک خصوصی تجارتی انتظام کے تحت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے براہِ راست منگوائی جا رہی تھیں۔ اس تجارتی انتظام کے قواعد کے مطابق دونوں کشمیروں کے درمیان کھینچی گئی عارضی سرحد، جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، کے دو مقامات، تیتری نوٹ اور چکوٹھی، کے ذریعے کشمیری باشندے آپس میں تجارت کر سکتے تھے۔
لیکن اب یہ خصوصی تجارت بند ہو چکی ہے۔
دکان دار کا کہنا ہے کہ اب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تیار کیے جانے والے ملبوسات انہیں دبئی کے راستے منگوانا پڑتے ہیں جس سے ان کی درآمد پر خرچہ بہت بڑھ گیا ہے۔ کشمیری ملبوسات بیچنے والے ایک اور دکان دار کا کہنا ہے کہ حال ہی میں انہوں نے سات لاکھ مالیت کا سامان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے دبئی کے راستے منگوایا ہے جس کے لیے انہیں کسٹم اور کراچی سے کشمیر تک نقل و حمل کے واجبات کی مد میں چار لاکھ روپے دینا پڑے ہیں۔
ان دونوں دکان داروں کو شکایت ہے کہ ان اضافی اخراجات کے باعث ان کے برآمدی سامان کی لاگت بڑھ گئی ہے جس سے اس کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے اور نتیجتاً ان کی آمدن بھی کم ہو گئی ہے۔
دونوں کشمیروں کے درمیان تجارت کے خاتمے نے 53 سالہ گوہر کشمیری کی مالی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ ان کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع اننت ناگ کی تحصیل بیج بہارہ سے ہے لیکن 1990 میں وہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں منتقل ہو گئے اور پھر کبھی واپس نہیں جا سکے۔ اپنا اصلی نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر وہ کہتے ہیں کہ یہ تجارت ان کے لیے لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف موجود اپنے رشتہ داروں سے جڑے رہنے کا ذریعہ بھی تھی۔
وہ پھل، سبزیاں اور مصالحہ جات وغیرہ درآمد کرتے تھے۔ آخری بار انہوں نے 2016 میں دس ٹن پیاز منگوائے تھے۔ اس کے بعد وہ بیمار پڑ گئے لیکن مکمل صحت یاب ہونے کے بعد جب انہوں نے اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو لائن آف کنٹرول کے راستے سامان منگوانے اور بھیجنے پر پابندی لگ چکی تھی۔
پینتالیس سالہ سعید احمد کو بھی اس بندش کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چکوٹھی کے مقام پر رہتے ہیں اور دوسری طرف سے زیادہ تر پھل، سبزیاں اور دواؤں میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں درآمد کرتے تھے جبکہ اِس طرف سے وہ خشک میوے اور دالیں وغیرہ بھیجتے تھے۔ آخری بار انہوں نے 40 ٹن چھوہارے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو برآمد کیے اور بدلے میں کیلے منگوائے۔ لیکن یہ کیلے ان تک پہنچنے سے پہلے ہی دونوں کشمیروں کے درمیان تجارت بند کر دی گئی اور ان کا سامان ہمیشہ کے لیے دوسری طرف پھنس گیا۔ اسی طرح 25 ٹن چھوہارے جو انہیں اگلے ہفتے دوسری طرف بھیجنا تھے وہ بھی گودام میں پڑے پڑے خراب ہو گئے۔
تجارت پر پابندی نے سینکڑوں ٹرک ڈرائیوروں اور مزدوروں کو بھی براہ راست متاثر کیا ہے۔
چکوٹھی سے تعلق رکھنے والے محمد منظور عباسی بھی ان میں شامل ہیں۔وہ پانچ افراد پر مشتمل اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں اور آج کل مشکل سے 300 روپے روزانہ کما پاتے ہیں۔ ان کے مطابق تجارتی سرگرمیوں کے بند ہونے سے پہلے وہ لائن آف کنٹرول پر دوسری طرف سے آنے والے ٹرکوں سے سامان اتار کر پاکستانی ٹرکوں میں لادتے تھے جس کے نتیجے میں وہ ہر روز 15 سو سے دو ہزار روپے کما لیتے تھے۔
تجارت کے خاتمے سے نیر احمد کا روزگار بھی مشکل میں پڑ گیا ہے۔
وہ چکوٹھی میں لائن آف کنٹرول کے قریب ایک ہوٹل میں کام کرتے تھے لیکن اب یہ ہوٹل بند ہو گیا ہے لہٰذا وہ ہٹیاں بالا نامی قصبے میں کریانے کی دکان پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آمدن میں کمی کہ وجہ سے انہیں اپنے بچوں کو سکول سے اٹھانا پڑا ہے کیونکہ ان میں سرکاری سکول کی معمولی سی فیس دینے کی سکت بھی نہیں رہی۔
دونوں کشمیروں میں تجارت سے کس کو فائدہ ہو رہا تھا
دونوں کشمیروں کے درمیان تجارت اکتوبر 2008 میں شروع ہوئی۔ انڈیا کے ایک تحقیقی ادارے اندرا گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ریسرچ کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس کی داغ بیل اپریل 2005 اس وقت ڈالی گئی جب اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور انڈین وزیر اعظم من موہن سنگھ نئی دہلی میں ملے۔
اس تجارت کے قواعد کے مطابق دونوں اطراف کے تاجر ایک دوسرے سے چیزیں خریدنے کے بجائے صرف ان کا تبادلہ کر سکتے تھے۔ ان قواعد کے تحت 21 اشیاء قانونی طور پر اور بغیر کسی ٹیکس کے لائن آف کنٹرول کے آر پار جا سکتی تھیں اگرچہ ایک امریکی تحقیقی ادارے، یونائیٹیڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی)، کی ایک رپورٹ کے مطابق حقیقت میں ان میں سے صرف پانچ یا چھ چیزوں ہی کی تجارت ہوتی تھی۔
سری نگر سے تعلق رکھنے والے تاجر سمیع اللہ خان نے اس رپورٹ کے مصنفین کو بتایا کہ اس کم تعداد کی ایک اہم وجہ قابلِ تبادلہ اشیاء کی فہرست میں ایسی چیزوں کی موجودگی تھی جن کی مارکیٹ میں کوئی مانگ نہیں تھی۔
شروع میں یہ تجارت ہفتے میں دو دن ہوتی تھی لیکن بعد میں اسے ہفتے میں چار دن تک بڑھا دیا گیا جن کے دوران ہر روز دونوں اطراف سے مختلف اشیا سے لدے پچیس پچیس ٹرک لائن آف ٹرک تک پہنچتے تھے جہاں ان سے سامان اتار کر دوسری طرف کے ٹرکوں پر رکھا جاتا تھا۔ چکوٹھی کے تاجروں کی ایک تنظیم کے ایک عہدیدار اعجاز احمد میر کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف سینکڑوں مزدور تجارتی سامان کی منتقلی کے کام میں لگے ہوئے تھے۔
اسی طرح یو ایس آئی پی کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے 585 تاجر اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے 630 تاجر دونوں کشمیروں کے درمیان تجارت سے منسلک تھے۔ اس رپورٹ کی ایک مصنفہ کے مطابق اس تجارت نے ایک ایسا نظام پیدا کر دیا تھا جس سے نہ صرف تاجروں، ڈرائیوروں اور مزدوروں کو روزگار ملتا تھا بلکہ ہوٹل، ڈھابے اور گیس سٹیشن چلانے والے افراد کے لیے بھی آمدن کے اچھے مواقع پیدا ہو گئے تھے۔
انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں قائم ایک نِجی تحقیقی ادارے، بیورو آف ریسرچ آن انڈسٹری اینڈ اکنامک فنڈا مینٹلز، کی ایک رپورٹ میں بھی اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ بین الکشمیر تجارت سے براہِ راست فائدہ اٹھانے والے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق صرف انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں 22 ہزار کے قریب افراد اس تجارت کے مختلف شعبوں میں سرگرم تھے۔
لیکن یہ تجارت اپریل 2019 میں اس وقت بند کر دی گئی جب انڈیا کی وزارتِ داخلہ نے الزام لگایا کہ پاکستان میں موجود کچھ عناصر لائن آف کنٹرول کے آر پار بنائے گئے تجارتی راستوں کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردانہ دراندازی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اس بندش کی وجہ سے اس تجارت سے منسلک اکثر لوگ اب مختلف قسم کی مالی پریشانیوں کا شکار ہیں۔ ان کی معاشی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے تجارتی برادری کے نمائندے ہلال ترک کہتے ہیں کہ "نہ صرف سینکڑوں تاجر غیر معینہ مدت کے لیے متاثر ہوئے ہیں بلکہ اڑی اور پونچھ کے دور دراز علاقوں کے رہنے والے مزدوروں کا واحد ذریعہ معاش بھی ان سے چھن گیا ہے"۔
تاریخ اشاعت 23 ستمبر 2021