ایک اونچی لمبی دیوار اور اس کے اوپر لگی لوہے کی خاردار تار کی دوسری طرف ایک وسیع میدان ہے جس میں متعدد محل نما مکان تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ ان مکانوں کے آس پاس چمکتی ہوئی کالی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں جن پر جا بجا پام کے درخت اور برقی روشنیاں آویزاں کی جا رہی ہیں۔ سڑکوں کے کنارے بڑے بڑے بل بورڈ لگے ہیں جن پر اس ارضی جنت کے برائے فروخت ہونے کے اشتہار لگائے گئے ہیں۔
دیوار کے اِس طرف اٹاوہ نامی گاؤں ہے جس کے بیچوں بیچ گندے پانی کے ایک جوہڑ میں بھینسیں نہا رہی ہیں۔ جوہڑ کی ایک جانب کوڑے کا ڈھیر پڑا ہے۔ قریب ہی گھنے سایہ دار درختوں کے نیچے اٹاوہ کے بڑے بوڑھے حقے کے گرد دائرہ بنائے ایک دوسرے سے گپ شپ لگا رہے ہیں۔ گاؤں میں محض چند دکانیں ہیں جن میں روزمرہ کی ضروری اشیا دستیاب ہیں۔ دکان دار ان کے باہر کرسیاں لگائے گاہکوں کی راہ تک رہے ہیں۔
اٹاوہ کی تنگ اور پر پیچ گلیوں میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر ہیں اور یہاں کے مکان جدید اور قدیم طریقہِ تعمیر کا ایک عجیب ملغوبہ ہیں۔ کچی اور پکی اینٹوں سے بنے روایتی دیہاتی گھروں کی دیواریں ایسے مکانوں سے ملی ہوئی ہیں جن کی تعمیرجدید شہری طرز پر کی گئی ہے۔
9 مارچ 2021 کو اٹاوہ کی بے ہنگم اور خالی ہاتھ دنیا دوسری جانب واقع منظم اور مسلح دنیا سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں کئی لوگوں کی زندگی ہمیشہ کے لئے بدل گئیں۔
دیوار کے پیچھے کیا ہے؟
اٹاوہ گوجرانوالہ شہر کے مرکز سے لگ بھگ پندرہ کلومیٹر جنوب میں جی ٹی روڈ سے ذرا ہٹ کر واقع ایک بڑا گاؤں ہے جس کی آبادی تقریباً 14 ہزار ہے۔ اس کے پہلو میں کھڑی دیوار کی دوسری جانب چار ہزار کنال رقبے پر مشتمل رائل پام سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی نامی رہائشی منصوبہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔
یہ منصوبہ اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس ٹاؤن ڈویلپرز نامی ایک کمپنی کی ملکیت ہے جس کے مالکان ایک متمول خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ گوجرانوالہ اور اس کے گرد و نواح کے کامیاب ترین ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں۔
رائل پام سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد 2014 میں رکھی گئی جب اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس نے اٹاوہ اور اس کے تین قریبی دیہات کے چھوٹے بڑے زمینداروں سے زمین حاصل کرنا شروع کی۔ اس مقصد کے لئے کمپنی نے ایک سے زیادہ طریقے اختیار کیے۔
کچھ زمینداروں سے پیسوں کے عوض زمین خریدی گئی جبکہ بیشتر لوگوں کو پیش کش کی گئی کہ ان کی زرعی زمین کے بدلے میں انھیں رہائشی اور تجارتی پلاٹ دیئے جائیں گے۔ اس طریقہِ کار کے تحت رہائشی منصوبے میں ایک ایکڑ زرعی زمین دینے والے زمیندار کو ایک مرلے کا تجارتی اور دو کنال کے رہائشی پلاٹ دیے جانے تھے۔
اٹاوہ کے باسی کہتے ہیں کہ جب انہوں نے رائل پام سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہار دیکھے تو انہیں پتہ چلا کہ اس میں ایک کنال کے پلاٹ کی قیمت تقریباً 65 لاکھ روپے ہو گی۔ اس حساب سے انہیں اپنی زرعی زمینیں اس کے لئے دے دینے میں خاصا مالی فائدہ نظر آیا۔ ایک مقامی زمیندار کے مطابق انہیں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ رہائشی منصوبے کا نقشہ دیکھ کر وہ اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ انہیں کون سا پلاٹ لینا ہے۔
ایک دوسرے مقامی باشندے کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں "ہر برادری کے لوگ تھوڑی بہت زمین کے مالک تھے"۔ لہٰذا ان سب نے آپس میں مشورہ کر کے مشترکہ فیصلہ کیا کہ وہ کمپنی کو اس کی مطلوبہ زمین دے دیں گے۔ کمپنی کے نمائندوں نے گاؤں والوں سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اٹاوہ میں سڑکوں اور سیوریج جیسی سہولیات کو بہتر بنا کر اسے ایک مثالی گاؤں بنائیں گے۔
لیکن اٹاوہ کے باسیوں کا کہنا ہے کہ 2017 میں کمپنی نے اپنے وعدوں سے پیچھا ہٹنا شروع کر دیا۔ اسی دوران انہیں پتہ چلا کہ گاؤں میں متعین محکمہ مال کے پٹواری اور کچھ دیگر سرکاری محکموں کے اہل کاروں نے آپس میں ملی بھگت کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں کچھ زمین دار اپنی زمینوں سے محروم ہو رہے ہیں جبکہ کچھ دوسروں کو زرعی زمین اور پلاٹوں کے تبادلے کے دوران امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ جن زمینداروں کے کمپنی کے نمائندوں سے بہتر تعلقات تھے انہیں فی ایکڑ دو سے زیادہ پلاٹ دیے گئے جو ان کی پسند کی جگہ پر واقع تھے لیکن دوسروں کا الزام ہے کہ انہیں کم قیمت والے پلاٹ فراہم کیے گئے۔ چونکہ مقامی لوگوں نے کمپنی کے ساتھ تمام معاملات صرف زبانی طے کیے تھے لہذٰا ان کے پاس ان شکایات کے ازالے کا کوئی قانونی راستہ موجود نہیں تھا۔
کچھ زمینداروں کا دعویٰ ہے کہ کمپنی نے مقامی پٹواری کے ساتھ مِل کر ان کی وہ زمین بھی ہتھیا لی جو انہوں نے خود سے اس کے حوالے نہیں کی تھی۔ ان زمین داروں میں ریاست علی کا خاندان بھی شامل ہے۔
ان کے پوتے کا کہنا ہے کہ ریاست علی نے 1972 میں اٹاوہ میں 29 کنال 19 مرلے زمین خریدی لیکن رہائشی منصوبہ شروع ہونے کے بعد جب وہ مقامی پٹواری کے پاس گئے تو انہیں پتہ چلا کہ محکمہ مال کے پاس ان کی زمین کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں ہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد انھیں معلوم ہوا کہ ان کی زمین دراصل اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس کو بیچ دی گئی ہے۔
جب انہوں نے متعلقہ حکام سے اس خرید و فروخت کی شکایت کی تو انھیں 50 روپے کا ایک اسٹیمپ پیپر دکھایا گیا جس کے مطابق ریاست علی اپنی مرضی سے اپنی زمین کمپنی کے نام منتقل کر چکے تھے۔ اسٹیمپ پیپر پر ان کے انگوٹھے کا نشان بھی موجود تھا۔تاہم ان کے خاندان نے اسٹیمپ پیپر کو جعلی ثابت کرنے کے لئے محکمہ انسدادِ رشوت ستانی گوجرانوالہ کو ایک درخواست دی جس پر کی جانے والی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ اسٹیمپ پیپر پر موجود انگوٹھے کا نشان ریاست علی کا نہیں ہے۔
اس تحقیق کے دوران محکمہ مال نے دعویٰ کیا کہ عامر رضا نامی ایک سرکاری اہل کار کے روبرو ریاست علی نے تسلیم کیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی زمین بیچ رہے ہیں لیکن محکمے کے پاس اس دعوے کا کوئی ثبوت یا گواہ موجود نہیں تھا۔ دوسری طرف ریاست علی کا کہنا تھا کہ وہ نہ تو عامر رضا کو جانتے ہیں اور نہ ہی کبھی اس سے ملے ہیں۔
محکمہ انسدادِ رشوت ستانی نے اس تحقیق کے نتیجے میں 13 اکتوبر 2020 کو قرار دیا کہ محمد مشتاق پٹواری، محمد ریاض پٹواری، عامر رضا، محکمہ مال کے اہل کار فیصل اصغر اور اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس کے چیف ایگزیکٹو احمد وقاص نے ملی بھگت کر کے ریاست علی کو غیر قانونی طریقے سے ان کی زمین سے محروم کر دیا۔
ایسے ہی ایک اور واقعے میں ایک خاتون سکینہ بی بی کی دو کنال ایک مرلہ اراضی 16 دسمبر 2015 کو اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس کے نام کر دی گئی حالانکہ وہ 1972 میں وفات پا چکی تھیں۔
قتلِ عمد؟
9 مارچ 2021 کو اٹاوہ کے رہائشیوں نے اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس کے ایک اور رہائشی منصوبے، کنال ویو ہاؤسنگ سکیم، کے دفتر کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے دوران کمپنی کے سکیورٹی عملے نے لاٹھیوں سے ان پر حملہ کر دیا۔ احتجاج کو ختم کرنے کے لئے حملہ آور عملے کے ارکان کچھ مظاہرین کو زبردستی کمپنی کے دفتر کے اندر بھی لے گئے لیکن جب ان کی توقع کے برعکس مظاہرین نے احتجاج ختم نہیں کیا بلکہ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی جاری رکھی تو انہوں نے مظاہرین پر گولیاں چلا کر دو افراد کو ہلاک اور تقریباً دس کو زخمی کر دیا۔
مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ ان پر ہونے والے حملے کے دوران اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس کے مالکان اسی دفتر میں موجود تھے جس کے سامنے احتجاج کیا جا رہا تھا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے مظاہرے کے بارے میں گوجرانوالہ کی انتظامیہ کو باقاعدہ اطلاع دی تھی لیکن اس کے باوجود انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے پولیس کی تعیناتی نہیں کی گئی۔
حملے کے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والے دو افراد، رانا عمران اور رانا امجد، کو نشانہ بنا کر مارا گیا۔ ان کے بقول "ہم نے خود دیکھا کہ سکیورٹی عملے نے نشانہ لے کر ان دونوں پر ایسے گولیاں چلائیں جیسے انہیں حکم ملا ہو کہ ان دونوں کو قتل کرنا ہے"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "جس وقت گولیاں چلیں تو یہ دونوں افراد مختلف مقامات پر کھڑے تھے۔ اگر کمپنی مالکان کے دعوے کے مطابق سکیورٹی عملے نے دباؤ میں آ کر اپنی حفاظت کے لئے گولیاں چلائیں تو سوال یہ ہے کہ یہ گولیاں ان دونوں کے درمیان موجود دیگر افراد کو کیوں نہیں لگیں؟"
اٹاوہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ رانا عمران اور رانا امجد کو اس لئے مارا گیا کہ وہ اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس کے ساتھ تنازعے میں گاؤں کی رہنمائی کر رہے تھے۔
ان کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے کئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی کا عملہ زمین پر گرے ایک زخمی شخص کو اٹھانے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کو لاٹھیاں مار مار کر بھگا رہا ہے۔ ایک عینی شاہد افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اگر ہم وقت پر اسے اٹھانے میں کامیاب ہو جاتے تو شاید وہ آج بھی زندہ ہوتا"۔
مظاہرین نے بعد ازاں دونوں مقتولوں کی لاشیں جی ٹی روڈ پر رکھ کر اگلے چار گھنٹے تک سڑک کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے روک دیا۔ پولیس کی طرف سے اوجلہ اینڈ ایسوسی ایٹس کے مالکان کی گرفتاری کے بعد ہی انہوں نے اپنا احتجاج ختم کیا۔
اٹاوہ اور رہائشی منصوبے کے درمیان بنی دیوار پر آج ان افراد کے لہو کے چھینٹے ہیں جو اس روز اپنی زمین پر اپنی ملکیت ثابت کرنے اور اس کی صحیح قیمت وصول کرنے نکلے تھے۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 18 مارچ 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 29 جنوری 2022