ژوب میں زچہ بچہ کی اموات کی بلند شرح، ڈی ایچ کیو ہسپتال سے 'سب اچھا' کی رپورٹ

postImg

عطا کاکڑ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ژوب میں زچہ بچہ کی اموات کی بلند شرح، ڈی ایچ کیو ہسپتال سے 'سب اچھا' کی رپورٹ

عطا کاکڑ

loop

انگریزی میں پڑھیں

ضلع ژوب سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کلی درے خان زئی کے بہرام خان کی بھابھی اور پھر بیوی یکے بعد دیگرے دوران زچگی فوت ہو گئیں۔

 زچگی سے قبل اپنی اہلیہ کو اومژہ کے بنیادی مرکز صحت لے جانے لگے تو معلوم ہوا کہ وہاں ضروری ادویات نہیں ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ژوب شہر کا رخ کیا لیکن راستہ خراب ہونے کی وجہ سے انہیں دیر ہو گئی۔

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پہنچے تو وہاں لیڈی ڈاکٹر نہیں تھی اور نہ ہی کوئی طبی سہولیات میسر تھیں۔ ہسپتال انتظامیہ نے انہیں سی ایم ایچ لے جانے کو کہا تاہم وہاں جاتے ہوئے راستے میں ہی ڈلیوری ہو گئی۔ اس دوران خون بہت ضائع ہوا اور جیسے ہی وہ سی ایم ایچ پہنچے تو ان کی اہلیہ زندگی کی بازی ہار چکی تھیں۔"

بہرام خان نے بتایا کہ اس وقت پیدا ہونے والا ان کا بیٹا اب 18 ماہ کا ہے جس کی پرورش ان کی دادی کرتی ہیں۔

"اہلیہ کی وفات سے پہلے میرے بڑے بھائی کی اہلیہ بھی اسی طرح وفات پا گئی تھیں۔ دونوں کے بچے ماں کی ممتا سے محروم ہیں۔ یہ صرف میرے خاندان کا معاملہ ہی نہیں بلکہ علاقے میں بہت سی خواتین کی دوران زچگی موت ہو چکی ہے۔"

ضلع ژوب کی آبادی تین لاکھ 55 ہزار ہے اور اس میں اضافے کی شرح 2.30 فیصد ہے۔

دوسری جانب ضلع کی تقریباً ساڑھے تین لاکھ آبادی کے لیے واحد ڈی ایچ کیو ٹیچنگ ہسپتال میں زچگی کی سہولیات کا فقدان ہے۔

ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نورالحق کاکڑ کے مطابق ہسپتال میں روزانہ اوسطاً 50 حاملہ عورتیں آتی ہیں۔ ان میں دو سے تین کیس سی ایم ایچ ژوب یا کوئٹہ منتقل کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع ژوب کے ٹیچنگ ہسپتال میں نو لیڈی ڈاکٹر تعینات ہیں جن کی ڈیوٹی شفٹوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ البتہ ٹیچنگ ہسپتال میں زچہ و بچہ کے لیے بلڈ بینک، نرسری اور مستقل ماہر اطفال نہیں ہیں۔

بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ضلع ژوب میں سالانہ لگ بھگ 15 عورتیں دوران زچگی فوت ہوتی ہیں۔

بلوچستان کے ڈائریکٹریٹ ہیلتھ کے دفتر کے مطابق ضلع ژوب کے ڈی ایچ کیو ٹیچنگ ہسپتال میں رواں سال جنوری سے ستمبر تک 610 حاملہ عورتوں کا چیک اپ کیا گیا اور 68 بچوں کی پیدائش ہوئی۔ اس دوران کوئی ڈلیوری آپریشن سے نہیں ہوئی اور نہ کسی زچہ و بچہ کی موت واقع ہوئی۔

میٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019ء کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران ایک لاکھ میں سے 186 عورتیں جاں بحق ہو جاتی ہیں۔ بلوچستان میں یہ تناسب دوسرے صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ ہے جہاں دورن زچگی ایک لاکھ میں سے 298 خواتین جانبر نہیں ہو پاتیں۔

 محکمہ صحت کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ضلع ژوب سے انہیں ملنے والی تمام رپورٹوں میں نارمل ڈلیوری ظاہر کی گئی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'

"ژوب میں ہسپتال انتظامیہ زچگی کے سنجیدہ کیس داخل نہیں کرتی۔ ہسپتال انتظامیہ چاہتی ہے کہ کیس سے جان چھڑائے اس لیے اسے کہیں اور ریفر کر دیتی ہے۔"

نورالحق ہسپتال میں زچگی سے اموات نہ ہونے کا سبب سہولیات کی عدم دستیابی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شعبہ صحت سے منسلک افراد نجی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ضلع ژوب میں سالانہ متعدد عورتیں دوران زچگی فوت ہوتی ہیں جس کی بڑی وجہ ضلعی ٹیچنگ ہسپتال میں سہولیات کی عدم دستیابی، دور دراز علاقوں میں صحت کے بنیادی مراکز کا غیرفعال ہونا یا ان میں سہولیات کا فقدان ہے۔

ژوب کے بیشتر علاقوں میں بنیادی صحت کے مراکز غیرفعال ہیں یا جزوی طور پر فعال ہیں۔ ان میں مہینوں بعد ادویات آتی ہیں جو چند روز میں ختم ہو جاتی ہیں۔

دور دراز کے علاقوں کے لوگ بھی دوران زچگی اموات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کلی خواجہ زئی میں پچھلے پانچ سال میں دوران زچگی 12 عورتوں کی موت ہوئی۔ اسی طرح ژوب سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کلی دانہ عبد اللہ زئی میں پچھلے ایک سال کے دوران 10 خواتین زچگی کے دوران موت میں منہ میں چلی گئیں۔

تاریخ اشاعت 16 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عطا کاکڑ فری لانس صحافی ہیں۔

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.