"زمین نام تو ہو جاتی ہے لیکن رہتی بھائیوں کے پاس ہی ہے"

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"زمین نام تو ہو جاتی ہے لیکن رہتی بھائیوں کے پاس ہی ہے"

ماہ پارہ ذوالقدر

loop

انگریزی میں پڑھیں

سلمہ بی بی میانوالی کے گاؤں سلطان والا میں رہتی ہیں۔ ان کی شادی 15 سال قبل خاندان سے باہر ہوئی تھی۔ اب تین بچے ہیں اور تینوں سکول میں پڑھتے ہیں۔ شوہر کی محدود آمدنی کے باعث گھر کا گزارہ جیسے تیسے چل رہا ہے۔

چند سال پہلے سلمیٰ بی بی کے والد انتقال کر گئے تھے۔ مرحوم نے تقریباَ 12 ایکڑ زرعی زمین چھوڑی تھی جو ان کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے نام منتقل ہو گئی لیکن تین سال گزرنے کے باوجود سلمیٰ زمین کی 'برائے نام' مالک ہیں۔

 وہ بتاتی ہیں کہ ان کے حصے کی لگ بھگ 19 کنال زمین ان کے بھائیوں کے زیرِ استعمال ہے۔

" ابھی تک مجھے زمین ملی نہ ہی فصل کی آمدن میں سے حصہ ملتا ہے۔ میں حصہ مانگوں تو بھائی ٹال دیتے ہیں۔اگر عدالت جاؤں تو ہم سب کی بدنامی ہو گی اس لیے خاموش ہوں۔"

اسی طرح واں بھچراں کی رہائشی 58 سالہ کنیز فاطمہ کی وراثتی زمین بھی ان کے بھائیوں کے پاس ہے۔ ان کی اولاد جوان ہو چکی ہے لیکن انہوں نے والد کی زمین سے متعلق کبھی بھائیوں سے نہیں پوچھا اور نہ ہی کبھی کسی نے انہیں بتایا ہے۔

وہ  کہتی ہیں کہ یہاں بہنوں یا بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ زمین نام تو ہو جاتی ہے لیکن رہتی بھائیوں کے پاس ہی ہے۔

"ہماری مائیں اور ان کی مائیں بھی وراثتی جائیداد سے محروم رہی تھیں۔ میرے حصہ میں  زمین آئی تھی۔ لیکن میں اس لیے خاموش ہوں کہ زمین کے لیے بہن بھائیوں جیسے پیارے رشتے میں دراڑ نہ آ جائے۔"

 مروجہ اسلامی اصولوں کے مطابق بیٹی وراثت میں بیٹے کی نسبت آدھے حصے کی حق دار ہے۔ اس حق کو قیام پاکستان سے قبل مسلم پرسنل لا ایپلیکیشن ایکٹ 1937ء میں تسلیم کیا گیا تھا۔ بعد ازاں مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961ء اور 1964ء میں اسے برقرار رکھا گیا تھا۔

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 23 ہر شہری (جنسی امتیاز کے بغیر)کے حق ملکیت کی ضمانت دیتا ہے۔ ملکی قوانین اور اعلیٰ عدالتوں کے کئی فیصلے بھی خواتین کے حق وراثت کو تحفظ دیتے ہیں۔ پھر بھی بہت سی خواتین کو جائیداد سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کےلیے پس ماندہ پدر سری سماج نے صدیوں قبل ہی کئی طریقے اور رسوم و رواج 'گھڑ' لیے تھے۔ ان میں سر فہرست 'قران سے شادی' تھی۔ وٹہ سٹہ، سوارا یا ونی کی شادیوں میں اکثر اوقات پہلے ہی خواتین کی جائیداد بھائیوں کے نام کرا لی جاتی ہے۔

یہ سلسلہ ختم کرنے کےلیے 2011ء میں پریوینشن آف اینٹی وومن پریکٹسز (خواتین مخالف طرز عمل کی روک تھام ) ایکٹ کے نام سے ایک قانون منظور کیا گیا۔ جس کی شق 498-اے کے تحت خواتین کو دھوکہ دہی یا غیر قانونی طریقے سے وراثت سے محروم کرنے پر دس سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا مقرر کی گئی تھی۔

 لیکن خواتین کی وراثتی جائیداد ہتھیانے کا عمل رک نہیں پایا ہے۔

پنجاب جینڈر پیرٹی رپورٹ 2021ء کے مطابق، پنجاب میں زمین مالکان کی تعداد دو کروڑ 60 لاکھ کے قریب ہے۔ جن میں سے ایک کروڑ 77 لاکھ مرد اور 81 لاکھ کے لگ بھگ خواتین زمین مالکان ہیں۔ یہ شرح بالترتیب 69 اور31 فیصد بنتی ہے۔

سال 2021ء میں 23لاکھ سے زائد افراد کو وراثتی جائیداد منتقل ہوئی۔ تاہم، قانونی ورثاء کا تناسب صنفی مساوات کو ظاہر کرتا ہے، جہاں 11 لاکھ 57 ہزار مرد(50.3 فیصد) جبکہ 11 لاکھ 43 ہزار خواتین (49.7) کو وراثتی جائیداد ملی۔

ترمیم شدہ پنجاب لینڈ ریونیو ایکٹ 2012ء اور 2015ء کے باعث زمین کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن نے بزرگ شہریوں اور خواتین کو زمینی حقوق کے تحفظ میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔

ضلع وار اعداد و شمار پنجاب کے مختلف اضلاع میں زمین مالکان  کے درمیان صنفی تفاوت کو اجاگر کرتے ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق خوشاب میں مردوں کی اوسط اراضی 3.2 ایکڑ کے مقابلے میں خواتین کی ملکیتی زمین فی کس عشاریہ نو ایکڑ ہے۔ میانوالی میں مردوں کے پاس ایک عشاریہ چار اور خواتین زمینداروں کے پاس اوسطاً نصف ایکڑ کے لگ بھگ زمین ہے۔

اعدادو شمار کے برعکس بیشر معاملوں میں خواتین صرف کاغذوں کی حد تک مالک ہوتی ہیں۔

خوشاب کے بعد میانوالی صوبے کا دوسرا ضلع ہےجہاں مرد و خوتین کی ملکیت کا فرق سب سے زیادہ ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کے طرز عمل میں بھی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔

یہاں تعینات تحصیلدار عبد الرشید تصدیق کرتے ہیں کہ میانوالی میں طریقہ کار اور قانون کے مطابق وراثت خواتین کو منتقل تو ہو جاتی ہے لیکن یہ زمین عموماً بھائیوں کے استعمال میں ہی رہتی ہے۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میانوالی کے عہدیدار بابر خان سمجھتے ہیں کہ خواتین مخالف طرز عمل کی روک تھام کے قانون میں کچھ سقم ہیں جس کی وجہ سے مسائل برقرار ہیں۔ اس قانون میں 'دھوکہ دہی' اور 'غیر قانونی طریقے' کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ قانون واضح نہیں کرتا کہ جذباتی( ایموشنل) بلیک میلنگ اور "قائل کر لینا" بھی غیر قانونی طریقے کے زمرے میں آئے گا یا نہیں۔ اکثر اوقات خواتین کو جذباتی یا قائل کرکے وراثت سے دستبردار کرا لیا جاتا ہے۔

میانوالی کی عدالتوں میں خواتین کی وراثت کے زیر سماعت مقدمات سے متعلق انچارج جوڈیشل کمپلیکلس عرفان خان کا کہنا تھا کہ نو مئی کو یہاں کمپلیکس کو نذر آتش کر دیا گیا تھا جس سے ریکارڈ اور آئی ٹی روم جل گئے تھے۔ اس لیے ڈیٹا فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔

تاہم بے نظیر سنٹر فار وومن رائٹس (وومن کرائسز سنٹر) میانوالی کے اعداد وشمار کے مطابق رواں سال یہاں جائیداد کے لیے 13 خوتین کی شکایات درج ہوئی تھیں۔ ان میں سے پانچ کو عدالتی حکم کے تحت جائیداد کا حصہ مل چکا ہے۔ دیگر کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بارش کا پہلا قطرہ: وراثتی جائداد میں اپنے حصہ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی قبائلی خواتین

کرائسز سنٹر میں تعینات سوشل ویلفیئر افسر سمیرا صدیقی بتاتی ہیں کہ سنٹر میں بہت ہی کم خواتین شکایات لے کر آتی ہیں۔ اکثریت اپنے حقوق سے واقف ہی نہیں ہے، اس کی بڑی وجہ خواتین میں تعلیم کی کمی ہے۔ اگر کوئی خاتون آ جائے تو ادارہ حکومت کی طرف سے قانونی معاونت کا انتظام کرتا ہے۔

ممبر وومن پروٹیکشن کمیٹی عمارہ نیازی بتاتی ہیں کہ یہاں خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینا عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔زیادہ تر عورتیں خاندان میں شادیوں کی وجہ سے حصہ نہیں مانگتی ہیں۔ اگر ان خواتین کے نام وراثت منتقل ہو جائے تب بھی اس پر اپنا حق نہیں جتاتیں۔
 عالم دین قاری ظفر اقبال کہتے ہیں کہ میانوالی کے لوگ غیرت کے معاملے میں کسی کو اپنا ثانی نہیں سمجھتے۔

"لیکن نہ جانے ہماری غیرت اس وقت کہاں جاتی ہے جب ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا حق کھا رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں نہ تو قانون کا کوئی ڈر ہے نہ ہی خدا کا خوف ہے۔"

تاریخ اشاعت 1 دسمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.